• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سفر نامہ نگار، دو دہائیوں سے زائد عرصے سے شعبۂ صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے موقّراخبارات و جرائد میں صحافتی خدمات انجام دینے کے علاوہ ریڈیو، ٹی وی پر میزبانی اور اسکرپٹ رائٹنگ بھی کر چُکے ہیں۔ ممتاز جریدے ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ میں سولہ سال بطور نائب مدیر کام کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ پُرعزم اور باصلاحیت پاکستانی نوجوانوں کی جہدِ مسلسل پرمشتمل سچّی کہانیوں کی ایک کتاب بھی ’’جوہرِ قابل‘‘ کے نام سے شائع ہوچُکی ہے۔ 2004ء میں آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS) کی طرف سے سال کے ’’بہترین فیچرنگار‘‘ کا ایوارڈ حاصل کیا۔ 

اِن دنوں ہائرایجوکیشن کے شعبے سے متعلق ایک سرگرم فلاحی ادارے کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اخبارات کے لیے متنّوع موضوعات پر کالمز، مضامین لکھنے کے علاوہ نجی جامعات میں ابلاغیات کے مضامین بھی پڑھاتے ہیں۔ انھوں نے 2023ء میں کچھ یورپی ممالک یونان، فرانس، اسپین، اٹلی کے ساتھ جنوب مغربی ایشیائی ملک قطرسیّاحت کی بھی سیّاحت کی، جس کی دل چسپ رُوداد جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کے لیے قسط وار پیش کی جارہی ہے۔ لیجیے، آج پہلی قسط میں ملاحظہ کیجیے، یونان کے سفر کا احوال۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

یورپ کی سیّاحت کی خواہش نے دراصل نوجوانی کے ایّام میں جنم لے لیا تھا، جب نام وَر سفرنامہ نگار، ناول نگاراور ڈراما نگار، مستنصرحسین تارڑ کے سفرنامے ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ کا مطالعہ شروع کیا۔ پھروہاں سے بات ’’پیار کا پہلا سفر‘‘ تک جاپہنچی، تو’’پاسکل‘‘ سے ملنے کی خواہش دل کے نہال خانوں میں مچلنے لگی۔ اس خواہش نے برسوں بے قرار رکھا۔ بالآخر،جون2023ء کویورپ کے سفر کی سبیل پیدا ہوئی، تو اِس برسوں کی بے قراری کو کچھ قرارآیا۔

تاریخی مُلک، یونان کے لیے ویزے کی درخواست دی، تو یونانی سفارت خانے نے اس یقین کے ساتھ ویزا عطا کردیا کہ یہ ادھیڑ عمر نوجوان علم، فلسفے اور قدیم تہذیب و تمّدن کی سرزمین، یونان کی سیّاحت کے بعد بہرحال اپنے وطن لوٹ آئے گا۔ ویزا ملنے کے بعد ایتھنزمیں پاکستانی قونصل خانے میں تعینات قونصلرزکے حوالے سے معلومات حاصل کیں، تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ قونصل خانے کی شہرت، یونان میں مقیم پاکستانیوں کی نظر میں نہ صرف بہت اچھی، بلکہ قابلِ قدرہے، خصوصاً ڈپٹی ہیڈ مشن، عظیم خان ایک متحرک اور خوش مزاج افسر ہیں۔ ہم نے ان سے فون پر رابطہ کرکے اپنا تعارف کروایا اور ایتھنزمیں ملاقات کے لیے کچھ وقت دینے کی درخواست کی، تونہ صرف ملاقات کے لیے وقت دے دیا، بلکہ یونان میں قیام کے دوران ہر ممکن تعاون کا بھی یقین دلایا۔ 

ویزا تو ہمیں پندرہ یوم کا ملا تھا، مگر دفتری مصروفیات اور زادِ راہ مدِّنظر رکھتے ہوئے صرف ایک ہفتے کا سیّاحتی پروگرام ہی تشکیل دیا۔ لیکن ہمیں ویزا ملنے کی خبر تو جیسے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی کہ سات سمندر پار برطانیہ میں مقیم بیش تر دوستوں کے فون آنے لگے۔ لیڈز کے باسی ہم نوالہ و ہم پیالہ، یارِ خاص، آصف علی رامے نے یورپ گھمانے کا عِندیہ دیا، تو برمنگھم میں مقیم، قیصرمعروف نے بھی دو روز یورپ کے کسی بھی ملک میں نان نفقے کی ذمّے داری اُٹھانے کی نوید سنادی۔ تیسری کال برطانیہ میں مقیم، عدیل احسان کی موصول ہوئی، جنہوں نے بڑے خلوص و چاہت سے اپنے بڑے بھائی محسن احسان کے بی ہاف پر پیرس گھمانے پِھرانے کی ذمّے داری اپنے سر لی۔ اور یوں پیرس میں ہم محسن بھائی کے مہمان قرار پائے۔

عدیل احسان نے مزید احسان یہ کیا کہ یونان میں مقیم معروف یوٹیوب چینل ’’پنجاب یورو ٹی وی‘‘ کے روح ِرواں، علی شیر کو ہماری میزبانی کی ذمّے داری سونپ دی۔ بہرحال، دوستوں سے مشورے کے بعد ہم نے سب سے پہلے یونان، پھر فرانس،اسپین، اٹلی اور قطرکی سیّاحت کا پروگرام ترتیب دیا تھا۔ حتمی پروگرام کے بعد ہماری کولیگ، مریم معروف نے مذکورہ مقامات کی سّیاحت سے متعلق سرگرمیوں، ہوٹلز اور جہاز کی بکنگ سمیت دیگر تفصیلات ایک دستاویز کی صورت تھمادیں۔ 

بہرکیف، 8جون 2023ء کوہمیں لاہور سے اُڑان بَھرنی تھی اور قطر میں چند گھنٹے قیام کے بعد یونان کی پرواز لینی تھی۔ لاہور ائرپورٹ پر مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد قطر ائرویز کے کائونٹر پر ٹکٹ اور پاسپورٹ پیش کیا، تو کائونٹر پر بیٹھے نوجوان نے ویزے کی اچھی طرح جانچ کے بعد پاسپورٹ پر Exit کی مُہر لگا دی۔ قطرائرویز کے جہازائربس A333-JET میں داخل ہوئے، تو مشرقِ بعید کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی مہمان دارخواتین، اپنے پیشہ ورانہ انداز اور مہربان اطوار کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھیں۔

جہاز نے پاکستانی وقت کے مطابق صبح 9بج کر 25منٹ پر لاہور سے اُڑان بَھری۔ پرواز چار گھنٹے پر محیط تھی، ناشتے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد یوں ہی وقت گزاری کے لیے ایک ائرہوسٹس سے بات چیت شروع کردی کہ ’’کیا آپ کورین ہیں؟‘‘ تو سوال سن کر اُس نے بڑے شائستہ لہجے میں جواب دیا، ’’نہیں، مَیں فلپائن سے ہوں۔ میری والدہ کورین تھیں۔‘‘ اگلا سوال اُس کی طرف سے تھا کہ ’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘ تو جواباً ہم نے بھی اپنا تفصیلی تعارف کروادیا۔ موصوفہ کانام جیزا ایل اندریو (JezzaAleJandrino) تھا۔ تھوڑی سی گفتگو میں اپنے متعلق بہت کچھ بتاتی رہی۔

چار گھنٹے کی پرواز کے بعد دوحا کے ’’حمد انٹرنیشنل ائرپورٹ‘‘ پر اُترے، تو پہلا تاثر دنیا کے مصروف ترین اور وسیع وعریض ائرپورٹ ہی کا پڑا۔ یہاں سے ہمیں یونان کے لیے فلائٹ لینا تھی۔ برقی بورڈ نے مسافروں کو عازمِ سفر ہونے کی ہدایت کی، تو سب مخصوص دروازے کی طرف چل دئیے۔ وہاں سے ہمیں ایک بس میں بٹھا کررن وے کے درمیان کھڑے ایک چھوٹے جہازکے پاس اتار دیا گیا۔ اس ائربس میں 120مسافروں کی گنجائش تھی۔ پانچ گھنٹے کی پرواز کے بعد ایتھنزائرپورٹ پر اُترے تو مقامی وقت کے مطابق شام کے6بج رہے تھے۔ سامنے شفّاف فضا میں صاف ستھرے شہر کا منظر عیاں تھا۔

کئی قدیم و جدید عمارتیں مختلف رنگوں میں لپٹی نظر آرہی تھیں۔ ائرپورٹ سے باہرآئے، تو ہمارے دوست، علی شیر،استقبال کے لیے اپنے دیگردوستوں کے ساتھ گل دستہ لیے کھڑے تھے۔ دیکھتے ہی والہانہ انداز میں بغل گیر ہوگئے، سلام، دعا کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر تاریخی شہر، یونان کی فضا میں ایک گہری سانس لی۔ تین ہزار چار سو سالہ کی قدیم تہذیب کا گہوارہ، بے شمار زمانوں، داستانوں کا چشم دید گواہ، شہریونان ہمارے روبروتھا۔ یونان کا صدر مقام اور مغربی تہذیب کا پالنا (Cradle)،جہاں جدید جمہوریت نے آنکھ کھولی اورپہلی سانس لی۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ تاریخ کو کئی نئے موڑ اور کئی نئی جہتیں دینے والی سرزمین نے آج ہمارے لیے اپنا دامن وا کیا ہوا تھا۔ 

وہ شہر، جس کی گلیوں، بازاروں میں کبھی علمی و فکری مباحثے برپا ہوتے تھے، جہاں افلاطون نے سقراط کے سامنے زانوے تلمّذ تہ کیا اور جہاں افلاطون نے ارسطو جیسے نابغۂ روزگار کی مضمر صلاحیتوں کو صیقل کیا۔ وہی ارسطو، جسے دنیا کا اوّلین فلسفی، مفکّر اور منطق کا ماہر مانا جاتا ہے، جوسکندرِاعظم کا معلّم بنا۔ یہ سوچ ذہن میں ابھری کہ محض دس برسوں میں 17لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کرنے والے سکندرِ اعظم کی جہاں گیری میں ارسطو کی تعلیم کا کتنا کردار رہا ہوگا۔ 

یونان، پیری کلیز (Pericles) جیسے یونانی سیاست دانوں اور سوفوکلیز (Sophocles) جیسے المیہ نگاروں کے علاوہ قدیم دنیا کے دیگر متعدّد معروف فلسفیوں، ادیبوں اور سیاست دانوں کی جائے پیدائش بھی ہے۔ آج یونان اگرچہ یورپی یونین کا حصّہ ہے، لیکن اسے شدید نوعیت کے مالی مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم، تاریخی حوالوں سے اس شہر کی عظمتِ رفتہ اب بھی برقرار ہے۔

سوچوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گُم تھے کہ اچانک گاڑی رُک گئی، عین سامنے ایک کافی شاپ تھی۔ علی شیر کہنے لگے، ’’یہاں کی کافی بہت عمدہ ہے، آئیے، ہوٹل جانے سے قبل یہاں کی کافی پیتے ہیں۔‘‘ کافی ہائوس کی کھڑکی کا بلوریں کانچ سورج کی کرنوں سے دمک رہا تھا۔ باہر سڑک پر ٹریفک رواں تھی اور ہم فٹ پاتھ پر راہ گیروں کی آمد و رفت کا نظارہ کررہے تھے۔ کافی کا بڑا سا مگ سامنے آئے، تو گرما گرم کافی سے اُٹھتی بھاپ کے مرغولوں کے رقص نے بڑا لُطف دیا۔ 

اچانک ہی علی شیر کی آوازنے چونکا دیا،’’ایتھنز شہر کی سیر کے لیے دو دن ناکافی ہیں، لیکن مَیں کوشش کروں گا کہ کم سے کم وقت میں اہم مقامات کی سیر کروادوں۔‘‘ ہم نے جواباً آگاہ کیا کہ ’’میری فہرست میں ایکروپولس آف ایتھنز، پارتھینون، ایکروپولس میوزیم، اسٹیوروس نیارکوس، گریک پارلیمنٹ، ٹیمپل آف اولمپین زیواس اور کیرامیکوس وغیرہ شامل ہیں۔‘‘

گاڑی ہاسٹل کے سامنے رُکی، تو استقبالیے پر کھڑی دراز قد لڑکی نے کرایہ وصول کرنے کے بعد پانچویں منزل پر روم نمبر6کی چابی تھماکرلفٹ کی طرف اشارہ کردیا۔ لفٹ کا دروازہ کُھلا تو معلوم ہوا کہ اس میں بمشکل ایک بندے کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ پانچویں منزل پر کمرے میں داخل ہوئے تو 5فٹ چوڑا اور تقریباً سات فٹ لمبا ایک گیلری نما کھڈا منتظر تھا، جیسا ہمارے گھروں میں بستر اور کمبل وغیرہ رکھنے کے لیے ہوتا ہے، اُسے تو دیکھتے ہی دَم گُھٹنے لگا۔ فوراً نیچے آئے اور علی شیر کو صورتِ حال بتائی۔ 

انھوں نے استقبالیہ پر موجود لڑکی سے یونانی زبان میں بات چیت کی اور پھر دُگنے کرائے پربرابر والی بلڈنگ میں ایک سوئٹ لے کر دے دیا، جو دو کمروں، ٹی وی لائونج، کچن اور باتھ روم پر مشتمل تھا۔ رہائش کا مسئلہ حل ہوتے ہی علی شیر، ہمیں زیر زمین ٹرین پر شہر سے تقریباً بیس منٹ کی مسافت پر ساحلِ سمندرکے پوش علاقے میں مقیم پاکستانی کاروباری شخصیت میاں یونس سے ملوانے لے گئے۔ یہ علاقہ کراچی کے ساحل پر واقع ڈیفینس سے مشابہ تھا۔ میاں یونس کا تعلق سیال کوٹ سے ہے۔ وہ تین دہائی قبل روزگار کے لیے یورپ آئے تھے، اوراب اُن کا شمار یونان کی کام یاب کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ ٹیکسٹائل، کھیلوں کے سامان اوردیگر کاروبار سے منسلک ہیں۔

میاں یونس نے ساحل کے کنارے واقع ایک پاکستانی ہوٹل سے پُرتکلف کھانا کھلایا۔ کھانے کی لذّت اور میاں یونس کی گفتگو کے ذائقے نے اس شام کو یادگار بنادیا۔ کھانے سے فراغت کے بعد قریب ہی موجود ایک آئس کریم پارلر کی مزے دار آئس کریم سے لطف اندوز ہوئے۔ میاں یونس نے ہمیں اپنی گاڑی میں بلڈنگ کے سامنے اُتارا تواُس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے۔ ہم علی الصباح پاکستان سے یونان کے لیے عازمِ سفر ہوئے تھے اور اس وقت سفر کی تھکان سے بُری طرح نڈھال تھے۔ فوری آرام کی شدید خواہش تھی، لیکن علی شیرکا حکم تھا ’’آپ کے پاس وقت کم ہے، اس وقت مَیں آپ کو ایتھنز کے بلند ترین سیّاحتی مقام پر لے جانا چاہوں گا، جہاں کے پُرفریب نظارے سے آپ یقیناً بہت لُطف اندوز ہوں گے۔ 

چیپل آف سینٹ جارج سے شہر کا نظارہ
چیپل آف سینٹ جارج سے شہر کا نظارہ

اس بلند ترین مقام سے یونان کی اہم عمارتیں بہت دل کش نظر آتی ہیں اور پھر وہاں کی سیر، آپ کے پروگرام میں پہلے ہی سے شامل ہے۔‘‘ سو، نہ چاہتے ہوئے بھی ’’ہاں‘‘ کردی اورعلی شیر ہمیں گاڑی میں بٹھا کر ایتھنز کے بلند ترین مقام کی جانب روانہ ہوگئے۔ گاڑی ایک خاص بلندی تک جاسکتی تھی، چناں چہ گاڑی ایک جگہ پارک کرنے کے بعد ہم پیدل ہی بلندی کی جانب روانہ ہوئے۔ پتھروں سے بنے اس خم دار پہاڑی رستے پر چڑھتے ہوئے کئی جگہوں پرابنِ آدم اور بنتِ حوّا شِیرو شکر دکھائی دئیے۔ ہم خاموشی سے اُن کے پاس سے گزرتے ہوئے چڑھائی چڑھتے رہے۔ پتا نہیں، تھکان کا اثر تھا یا کچھ اور کہ ہم نے ایک دو جگہ رُک کر سانس بحال کرنے کی کوشش کی، تو علی شیر کہنے لگے ’’ایکسرسائز تو دُور کی بات، لگتا ہے آپ باقاعدگی سے واک بھی نہیں کرتے۔‘‘

ٹاپ پر پہنچے، تو دودھیا رنگ کی ایک خُوب صُورت، روشن عمارت سامنے تھی۔ یہ جگہ چیپل آف سینٹ جارج کہلاتی ہے۔ چیپل (Chapel) کے معنی چھوٹے گرجا گھر کے ہیں۔ چرچ کے سامنے بنے وسیع پلیٹ فارم سے وسیع و عریض شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم چوں کہ آدھی رات کے وقت وہاں پہنچے تھے، تو اُس وقت نیچے پھیلا روشنیوں سے جگمگاتا شہر ایک رُوح پرور منظر پیش کررہا تھا۔ خصوصاً ایکروپولس، اولمپیئن زیوس کا مندر، پینا تھینائک اسٹیڈیم، سینٹی گاما اسکوائر (یونانی پارلیمنٹ)، ایتھنز کی بندرگاہ، اولمپک اسٹیڈیم اور قدیم ایگورا کی روشنیوں سے معمور عمارتیں ایک سحرسا طاری کررہی تھیں۔

اگلے دن کا آغاز یونانی سفارت خانے کے قونصلر عظیم خان سے ملاقات سے ہوا۔ خوش لباس، خوش مزاج عظیم خان گزشتہ 14برس سے پاکستان فارن سروس سے وابستہ ہیں۔ اس عرصے میں وہ جاپان اور ہنگری میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یونان جیسے ملک میں جہاں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد شہریت کے لیے قانونی حیثیت کی تگ و دو میں ہے۔ وہاں پاکستانیوں کے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنا یقیناً خلوصِ نیّت اورپیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت ہے۔ یونان میں قیام کے دوران کئی ہم وطنوں سے پاکستانی سفارت خانے کی کارکردگی کے حوالے سے گفتگو ہوئی، سب ہی نے عظیم خان کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا۔ 

قونصل خانے سے نکلے، تو اگلی منزل ایکروپولس (Acropolis) تھی، جوایک چونا پتھر والی پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ دراصل تعمیراتی اور تاریخی اہمیت کی حامل کئی قدیم عمارتوں کی باقیات ہیں، جن میں سب سے مشہور پارتھینون ہے۔ یہ عمارتیں قدیم ایتھنز کی عظمت کی عکّاسی کرتی ہیں۔ لفظ ’’Acropolis‘‘ دو یونانی الفاظ کا مرکّب ہے۔ Acro کے معنی ’’سب سے اونچا مقام‘‘ جب کہ polis ’’شہر‘‘ کو کہتے ہیں۔ چوں کہ یہ عمارتیں ایک پہاڑی پر واقع ہیں‘ اس لیے انہیں ایکروپولس یعنی بلندی پر واقع شہر پُکارا جاتا ہے۔ یہاں سے نکلے تو ایتھنز ہی میں واقع اولمپکس اسٹیڈیم جا پہنچے۔ 

یہ وہی تاریخی اسٹیڈیم ہے، جہاں سے جدید اولمپکس کھیلوں کا آغاز ہوا تھا۔ 1890ء میں مکمل ہونے والے اس اسٹیڈیم میں1896 ء میں پہلے جدید اولمپکس منعقد کیے گئے تھے۔ ہماری اگلی منزل ’’ارسطو کا باغ‘‘ تھا۔ یہ دراصل افلاطون کی وہ اکیڈمی ہے، جہاں سترہ برس کی عُمر میں ارسطو داخل ہوا اور 23 برس گزاردیئے۔ افلاطون کی اکیڈمی ایک پبلک باغ میں واقع ہے، جہاں درختوں کے سائے میں افلاطون اور دیگر اسکالرز اور طلبہ، تعلیم و تربیت کے لیے اکٹھے ہوتے تھے۔ بعدازاں، یہ باغ ’’ارسطو کے باغ‘‘ کے نام سے معروف ہوگیا۔

اگلی صبح ایتھنز سے پیرس کی فلائٹ تھی۔ علی شیر صبح آٹھ بجے ہی ہوٹل سے لینے آگئے۔ وقت کم ہونے کی وجہ سے انھوں نے صبح کے ناشتے کے لوازمات پہلے سے گاڑی میں رکھے ہوئے تھے، جو ہم نے ائرپورٹ جاتے ہوئے گاڑی ہی میں  نوش  کیے۔ سڑک پر ٹریفک کا ازدحام تھا۔ کئی بار ہمیں دس سے پندرہ منٹ رکنا پڑا۔ رواں ٹریفک میں بھی گاڑی 20سے25کلو میٹر کی رفتار سے چل رہی تھی۔ جب گاڑی رُکتی تو فلائٹ چُھوٹ جانے کے اندیشے سر اُٹھاتے، بہرکیف! ٹھیک دس بجے ہم ائرپورٹ پہنچنے میں کام یاب ہو ہی گئے۔ (جاری ہے)