پاکستان میں ایک ماہ قیام کے دوران خوب سیاسی گہماگہمی دیکھنے کو ملی لیکن میں اس وقت پاکستان کی سیاسی صورتِ حال پر کچھ کہنے کی بجائے کراچی کی صورتِ حال خاص طور پر کراچی کی بے ہنگم ٹریفک پر کچھ کہنے کو ترجیح دوں گا، شاید کہ کچھ بہتری پیدا ہوجائے ۔ کراچی کسی دور میں روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا لیکن اب یہ شہر ہر لحاظ سے تاریکیوں میں ڈوبے ہوئےایک شہر کا منظر پیش کرتا ہے۔تاریخ میں ٹیکسلا، موہنجودڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات کے بارے میں پڑھا ہے لیکن کراچی دنیا کا واحد شہر ہے جو سب کی آنکھوں کے سامنے کھنڈرات کا روپ اختیار کرتا جا رہا ہےاور کسی کو اسکی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔سیاستدان تو کراچی کی سیاست کا بیڑہ غرق کرچکے ہیں لیکن کراچی کے عوام بھی اس شہرکو کھنڈر بنانے میں پیش پیش ہیں۔ ترکیہ میں فروری 2023ء میں آنے والے شدید زلزلے میں بڑے پیمانےپر عمارتیںملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں لیکن حکومتِ ترکیہ نےزلزلے سے متاثرہ شہروں کے درمیان کسی قسم کا امتیاز کیے بغیر جس تیزی سے ان شہروں کوآباد کرنا شروع کیا اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ہمیشہ کہتا رہا ہوں بلدیاتی ادارے کسی بھی شہر کی ترقی ، اس کی تعمیر نو، نکاسی آب ، بجلی اور گیس کی فراہمی کے علاوہ اس شہر کی ثقافت کو اجاگر کرنے میں بڑا نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی سوچ کے ساتھ جب طویل عرصے بعد کراچی پہنچا تو ذہن میں یہی تھا کہ کراچی تو پاکستان کا اقتصادی حب ہے ، پاکستان کی ترقی کی علامت ہے ،سب کچھ اس کے ارد گرد ہی گھومتا ہے تو یقینی طور پر پہلے سے زیادہ روشن ہوگیا ہوگا لیکن کیا دیکھتا ہوں کہ کراچی شہر جو پورے ایشیا میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں سیاحوں کا مرکز ہوا کرتا تھا،ملبے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ پورے شہر کی سڑکوں کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ سڑکوں کے درمیانی حصوں میں ملبے کو سجا کررکھا گیا ہے، کراچی بلا شبہ اس وقت دنیا کے سامنے بڑی تیزی سے کھنڈرات کا روپ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے کھنڈررات ٹیکسلا، ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی صف میں شامل ہونے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ ترکیہ کے کئی شہروں کو زلزلے کی وجہ سے ملبے تلے آتے ہوئے دیکھا اور اب غزہ جس پر اسرائیل شدید بمباری جاری رکھے ہوئے ہے کو تباہ و برباد اور ملبے کا ڈھیر بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ کراچی جہاںہمیں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جانے کی کبھی کوئی خبر نہیں ملی اور خدا نہ کرے کہ کوئی ملک یہاںبمباری کرئے جیسا کہ نہیں ہوا تو پھر یہ شہر کیسے ملبے کا ڈ ھیر بن گیا ہے۔ ایک جیتے جاگتے شہر کو یونیسیف کے ثقافتی کھنڈرات کی فہرست میں شامل کرنے پر نہ صرف کراچی کے سیاستدان بلکہ کراچی کے عوام خودتُلے ہوئے ہیں اورکسی دور میں ایشیا کے روشنیوں کے اس شہر کو جیتے جاگتےگنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے کھنڈرات کی فہرست میں شامل کرنے جا رہے ہیں۔ بہت سے قارئین کو یاد ہوگا کہ کسی دور میں کراچی شہر کی سڑکوں کو رات میں دھویا جاتا تھا اور پیدل چلنے والوں اور کار سواروں کے تحفظ کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، اب اسی کراچی کی سڑکوں پر ایسی بے ہنگم ٹریفک ہے جہاں ایسے لگتا ہے ک’’ اب حادثہ ہوا کہ اب ‘‘ (البتہ کراچی کے ڈرائیور ز کو یہ مہارت حاصل ہے کہ وہ حادثےسے صرف ایک سیکنڈ قبل ہی بریک لگاکرحادثہ نہیں ہونے دیتے ) ایسی ٹینشن شاید ہی دنیا کے کسی شہر میں محسوس ہوتی ہو۔ کراچی میں بڑی تیزی سے ہر روز موٹر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ اہل کراچی اور پولیس کے اعلیٰ حکام کے مطابق کراچی میں موٹر سائیکل سواروں میں سے ساٹھ فیصد اور کار ڈرائیورز میں سے نصف کے لگ بھگ ڈرائیونگ لائسنس رکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ۔ البتہ پولیس کے ہتھے چڑھنے پر ’مک مکا‘ سے کام چلالیا جاتا ہے لیکن کراچی کے عوام نے لائسنس نہ بنوانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر ایک دو مقامات کے سو ا کہیں بھی سڑکوں پرنہ زیبرا کراسنگ اور نہ ہی مارکنگ یا لائنیں دکھائی دیتی ہیں جس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے موٹر سائیکل سوار زِگ زَیگ کرتے ہوئے نہ صرف خود کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ ٹریفک کے قانون کی مکمل پاسداری کرنے والےشخص کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈالتےہیں۔موٹر سائیکل سوارپٹرول کی بچت کی خاطرپہلے فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل چڑھاتے ہیں اور پھر وہیں سے ٹرن لیتے ہوئے فٹ پاتھ سےنیچے اُترکر سڑک کی دوسری جانب جانے کو اپناحق سمجھتے ہیں۔کراچی کی ٹریفک میں سب سے خطر ناک کام جس پر کسی کی جان کسی بھی وقت جا سکتی ہے دو رویہ سڑکیں ہونے کے باوجود موٹر سائیکل والے اور گاڑیوں والےجس راستے گاڑیاں وغیرہ گزر رہی ہوتی ہیںاسی راستے پر سامنے سے آکر( بجائے اوپر سے چکر لگاکر اور یو ٹرن سے موڑ کر پیچھے سے آئے) ایسی خطر ناک صورتِ حال پیدا کرتے ہیں کہ جس کی افریقی ممالک سمیت دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
کراچی میں انسانوں کی طرح زندگی گزارنے اور بے ہنگم ٹریفک پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سب کو ایک سے تین ماہ کی سخت ٹریننگ دینے ، ان کا میڈیکل چیک اپ کروانے اور امتحان پاس کرنے اور میرٹ پر پورا اترنے کے بعدنئے لائسنس جاری کئے جائیں اور پھر ان لائسنسوں کی بھی ہر دو سال بعد تجدید کی جائے۔جس سے کراچی میں کم از کم بے ہنگم ٹریفک جو نہ صرف عام باشندوں بلکہ غیرملکیوں کےلیے دردِ سر بنی ہوئی ہے پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور روشنیوں کے شہر کی روشنی کی بحالی کے امکانات رو شن ہونگے۔