• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل راحت فتح علی خان اور عمران خان کے ستارے گردش میں ہیں، قوم کے دونوں سپوتوں کا بُرا وقت چل رہا ہے، دونوں پر مفسدات میں ملوث ہونے کا الزام ہے، ایک صاحب کو تو ٹرائل مکمل ہونے کے بعد سزائیں بھی سنا دی گئی ہیں، جب کہ صاحبِ سُروسُرور کا ابھی (میڈیا) ٹرائل چل رہا ہے۔

پہلے راحت کا قصہ سن لیجیے۔ پچھلے ہفتے ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں راحت پُر حال دکھائی دیتے ہیں یعنی ’’ایں قدر مستم کہ از چشمم شراب آید بروں‘‘ والی کیفیت ہے، اور ایک شخص پر کفش کاری فرما رہے ہیں اور سختی سے پوچھ رہے ہیں کہ ’دوسری بوتل کہاں ہے ‘، منظر راحت کے گھر کا ہے اور مضروب ان کا ملازم نظر آتا ہے۔ حاسدوں نے فوراً یہ افواہ اُڑائی کہ خمر کی بات ہو رہی ہے، باقیوں نے جوتا ماری کو تذلیلِ انسانیت سے منسوب کیا، اور سب شروع ہو گئے راحت کو برا بھلا کہنے۔ رائے عامہ کے جائزے سے یہ ثابت ہوا کہ بوتل چور کو عوام کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے، غالباً چور کو مظلومیت کے ووٹ مل رہے ہیں۔ بہرحال ہمارے ایک دوست یہ ویڈیو دیکھ کر راحت کے اور بھی بڑے فین ہو گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ راحت نے شدید غصے کی حالت میں بھی ایک گالی تک نہیں دی، اور پھر راحت کون سا بلّے یا ہاکی سے مار رہے ہیں، وہ تو صرف ڈرانے کے لیے ایک کیوٹ سے سلیپر سے اپنا مالِ مسروقہ برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خیر، اگلے دن راحت نے ایک ویڈیو وضاحت جاری کی جس میں ’ملزم‘ ان کے پہلو میں کھڑا ہے۔راحت نے کہا یہ استاد اور شاگرد کا نجی معاملہ ہے، استاد کبھی شاگرد کی گوش مالی کرتا ہے اور کبھی پیار، شاگرد نے تائید کی اور وضاحت کی کہ گم شدہ بوتل میں پیر صاحب کا دم کیا ہوا پانی تھا۔ویسے ہماری اس میں کیا دل چسپی کہ بوتل میں دم والا پانی تھا یا دما دم والا، راحت فتح علی خان کسی دارالعلوم کے مہتمم ہوتے تو ہمیں ان کی بوتل کے کانٹنٹ بارے تجسس ہوتا، ایک گویے کی بوتل میںجو بھی ہو سو ہو، بہرحال اس موضوع کا حق ایاز امیر ہی ادا کر سکتے تھے جو اس وقت اپنے الیکشن میں مصروف ہیں۔ جس طرح راحت نے جوتا باری کو نجی معاملہ قرار دیا کچھ اسی طرح کے عقائد بانی صاحب بھی رکھتے ہیں، یعنی اگر ان سے ان کے بچوں کی تعداد پوچھی جائے، عدت کی شادی کا سوال کیا جائے، کسی اخلاق باختہ آڈیو کی وضاحت مانگیں تو وہ ہر سوال کا ایک ہی مسکت جواب عطا کرتے ہیں کہ ’’ یہ میرا نجی معاملہ ہے‘‘۔ آہستہ آہستہ بانی صاحب اتنے ’ہاتھ چُھٹ‘ ہو گئے کہ انہوں نے غالباً سائفر اور توشہ خانہ کو بھی کوئی نجی معاملہ ہی سمجھ لیا۔ توشہ خانہ کیس میں کم از کم دس مقام پر قانون ٹوٹتا نظر آتا ہے، اور یہ نقد رقم سے خدا جانے بانی صاحب کی کیا دل چسپی تھی کہ کروڑوں کے تحائف خریدتے بھی کیش پر تھے اور بیچتے بھی کیش پر تھے۔بہرحال ہم یہاں خود کو سائفر کیس تک محدود رکھیں گے کیوں کہ کاغذ کے اس پرزے نے ہمیں خوب گہرے چرکے لگارکھے ہیں۔ سائفر مقدمے میں ابو سائفر کو دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے، جس سائفر سے بانی صاحب ’کھیلنے‘ کا ارادہ رکھتے تھے وہی سائفر ان سے کھیل کھیل گیا ہے۔مقدمے کے قانونی اور سیاسی پہلوئوں پر بہت بات ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی، الیکشن سے پہلے یہ سزا کیوں ضروری تھی اس کا جواب بھی ہماری سیاسی تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے۔ہمارا موضوع یہ بھی نہیں ہے کہ پچھلے الیکشن سے پہلے نواز شریف کو سزا ملنے پرعمران خان اور ان کی پارٹی کے زعماء مٹھائیاں کھاتے بھی تھے اور مٹھائی خوری کی تصویریں میڈیا پر فخریہ جاری بھی کرتے تھے۔ نواز شریف کو کسی نے عمران کی سزا پر شیرینی تقسیم کرتے دیکھا ہے؟ کسی جلسے کی کسی تقریر میں نواز شریف نے ’مجرم عمران احمد خان نیازی کے دردناک انجام‘ پر کوئی فلک شگاف بڑھک ماری ہے؟ بہرحال، اس تحریر کا مقصد نواز شریف کی سیاسی بلوغت ثابت کرنا بھی نہیں ہے۔ہمارا مسئلہ سادہ سا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ابو سائفر کا سب سے بڑا گناہ نہ گھڑی فروشی ہے نہ القادر ٹرسٹ کی سینکڑوں ایکڑ زمین، نہ فارن فنڈنگ اور نہ گوگی فنڈنگ، ان صاحب کا گناہِ کبیرہ اپنی حکومت ختم ہونے سے پہلے آخری ہفتے میں پانچ مرتبہ آئین توڑنا تھا، اور اُس آئین شکنی کی بنیاد جس بودی اینٹ پر رکھی گئی تھی اس کا نام تھا ’’سائفر‘‘۔ اسی کاغذ کی بنیاد پر ابو سائفر نے قومی اسمبلی کی اکثریت کو غیر ملکی ایجنٹ اور غدار قرار دے کر ، عدم اعتماد کی تحریک کو رد کر کے، قومی اسمبلی کو توڑنے کی سازش کی تھی۔ بندیال عدالت نے اس غیر آئینی عمل کو غیر آئینی تو قرار دیا، مگر آئین شکن ٹولے کو باعزت بری کر دیا۔ یہ ہے ہماری نظر میں وہ بدترین گناہ جو سائفر کے نام پرکیا گیا۔ سائفر گم ہو گیا، سائفر جلسے میں لہرایا، سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی، امریکا سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی، یہ سب سنجیدہ باتیں ہیں مگر پھر بھی ہماری نظر میں ضمنی باتیں ہیں۔بانی صاحب، آئین شکنی نجی معاملہ نہیں ہوتا، یہ تو 25 کروڑ لوگوں کا اجتماعی مسئلہ ہوتا ہے۔ اپنی اصلاح کیجیے، آپ سے اب بھی لاکھوں لوگ توقعات باندھے ہوئے ہیں۔ اور راحت علی خان صاحب سے بھی عرض ہے کہ کسی دوسرے انسان کوزدوکوب کرنا تو کجا، چومنا بھی آپ کا نجی معاملہ نہیں ہے، لہٰذا آپ کیلئے برادرانہ مشورہ یہی ہے کہ آئینِ مجدِ انسانیت کی سختی سے پابندی کیجیے، خوب ریاض کریں، ردِ بلا کیلئے دم والا پانی پئیں، اور خوش رہیں۔

تازہ ترین