ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا نقارہ بج چکا ہے، سیاسی جماعتوں نے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں، امیدواروں کا عوام کے پاس جانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے،لوگوں کی غمی اور خوشی میں شریک ہونے اور سماجی روابط بڑھانے کا موسم اپنے عروج پر ہے امیدو ار عوام کا دل جیتنے کیلئے کوشاں ہیں انکے مسائل کے حل کیلئے وعدےکیے جا رہے ہیں عوام کی مشکلات اور تکالیف دُور کرنے کیلئے دن رات ایک کردینے کی یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں کئی شہروں میں ترقیاتی کاموں پر بھی تیزی سے عملدرآمد ہو رہا ہے اور ہر جگہ عوام کی ہاں میں ہاں ملائی جا رہی ہے ہر جانب سیاسی ماحول اپنی گرمائش دکھاتا نظر آرہا ہے اور دوسری جانب عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ خوبصورت اور دلکش ماحول تو محض چند روزہ ہے یہ تو انتخابات کا انعقاد ہوتے ہی ختم ہو جائے گا ،قوم تو یہ بھی سوچ رہی ہے کہ ایسے وعدے تو اُن کے ساتھ ماضی میں بھی کئی مرتبہ ہوچکے ہیں ،ماضی میں بھی عوام سے بلند بانگ وعدے ہوئے تھے کہ اُن کے بچوں کو مفت تعلیم ملے گی ، صحت کی سہولتیں ملیں گی مناسب اور با عزت روزگار ملے گا ۔
اس قوم کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری ختم کرنے کے وعدے ماضی میں بھی وقتاً فوقتاً کیے جاتے رہے ہیں ان دعوئوں کا کیا بنا اور کتنے وعدے پورے ہوئے؟ یہ سوال ہر ذی شعور کے ذہن میں موجود ہے ۔عوام کو یہ بھی بخوبی اندازہ ہے کہ اب کی بار کیے جانے والے وعدے اور دعوے بھی بس ماضی ہی کی طرح محض خوشنما اور دلفریب الفاظ ہی ثابت ہوں گے مگر یہ بیچاری قوم آخر کیا کرے اور کہاں جائے، لوگوں کے بس میں آخر ہے ہی کیا؟یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انتخابات کے بعد عام آدمی کو کوئی پوچھتا تک نہیں، اس سے کیے گئے وعدے ہوا میں اُڑ جاتے ہیں وہ بے چارہ اپنے بچوں کی صحت، تعلیم اور مستقبل کی خاطر در بہ در ٹھوکریں کھاتا نظر آتا ہے شنوائی تو صرف اُن کی ہوتی ہے جن کی کوئی سیاسی وابستگی ہوتی ہے یا جنکی جیب میں کوئی خرچہ ہوتا ہے جمہوری نظام کی منشا تو ایسی ہر گز نہیں تھی ۔ اس نظام کی تعریف و توصیف کرنے والے کہتے تھے کہ جمہوریت سے مراد ہے عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کیلئے، مگر آج عملی طور پر حالات اور صورتحال اس تعریف سے خاصی پَرے نظر آتی ہے ۔ عوام کی حکومت کے نعرے کو اگر دیکھیں تو یہ بات بالکل عیاں ہے کہ عام آدمی تو بے چارہ انتخابات میںحصہ لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا عام آدمی تو دو وقت کی روٹی کے بھنور سے ہی نہیں نکل پا رہا ، تلخ حقائق تو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ نظام ہمارے ہاں’’ خواص کی حکومت، خواص کیلئے اور خواص کے ذریعے ‘‘ثابت ہو رہا ہے، اس نظام کی ایک بڑی خوبی تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ لوگ اپنے حکمران خود ہی منتخب کرتے ہیں مگر اس کی خامیاں بہت زیادہ بیان کی گئی ہیں۔
ہمارے سمیت ترقی پذیر ممالک میں جمہوری نظام کو اپنے ثمرات اور فوائد ثابت کرنے کیلئے کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں اور کئی طرح کی رکاوٹیں اس کی راہ میں حائل ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوری نظام کی مقبولیت نہ ہونے کی وجوہات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار ، وڈیرے ، جاگیردار اور تاجر اس نظام پر پوری طرح قابض ہیں جو نسل در نسل اس نظام کے ساتھ چلتے آرہے ہیں ۔ پارٹی کا ٹکٹ دیتے وقت قابلیت ، تعلیم وتربیت اور کردار پر نظر ڈالنے کا یہاں سرے سے کوئی رواج ہی نہیں، کئی سیاسی جماعتوں کو ملک کو درپیش مسائل اور اُنکے حل کا ادراک تک نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نظام آج تک عوام کو پینے کا صاف پانی تک نہیں دے سکا ۔ بلاشبہ مسئلہ نظام حکومت کا نہیںبلکہ اس نظام کو نافذ اور لاگو کرنے والی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا ہے، منتخب نمائندے اپنی جماعتوں میں اپنے حلقے کے عوام کی آرا کی نمائندگی، پاسداری اوروکالت کرنے میں بُری طرح ناکام نظر آتے ہیں ،اہم ترین سوال یہ ہے کہ اتنے بھاری بھرکم اخراجات کے نتیجہ میں ہونے والے انتخابات کا آخر عوام کو کیا فائدہ ہو گاکہ اگر عوامی مسائل حل نہ ہو سکےاور لوگوں کی توقعات اور اُمیدیں پوری نہ ہو سکیں، جمہوری نظام کی مضبوطی، بقااور ثمر آور ہونےکیلئے ضروری ہے کہ بڑے پیمانے پر اس نظام میں اصلاحات کی جائیں اور سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ صرف قابل، پڑھے لکھے اور اہل افراد ہی کو پارٹی ٹکٹ دیں، سیاسی جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے بھی جمہوری اصولوں اور روایات ہی کے مطابق بنائے جانے ضروری ہیں۔
ایسے کئی ممالک ہیں جہاں سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے قبل فکری اور شعوری تربیت کیلئےمختلف تھنک ٹینکس میں کورسز کروائے جاتے ہیں تاکہ آنے والی قیادت کو ملک میں درپیش مسائل سے آگاہ کیا جا سکے او ر اُن کے حل کیلئےطریقہ کا ر، پالیسی اور اقدامات کے حوالے سے تربیت دی جا سکے، اس بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ ووٹ کسی کی قابلیت کی دلیل ہر گز نہیں ۔پاکستان کو آنے والے وقت میں عالمی منظر نامے کے حوالے سے کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نبردآزما ہونے کیلئے ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو اہل اور با صلاحیت ہو۔ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سیا سی جماعتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو مایوسی اور نا اُمیدی سے بچائیںاور اپنے طرزِعمل و اقدامات سے ثابت کریں کہ یہ نظام واقعتاً عوام کی حکمرانی ہی کا نظام ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)