تب میں پہلی دفعہ ’’مائی ِہیر‘‘ کے مزار پر گیا تھا۔ یہ ہجر و فراق سے بھی کسی اگلے اسٹاپ کا سفر تھا۔ جس میں ہجر کی آخری منزل قیامت تھی جبکہ فراق کا اگلا سِرا تقدیر کے کاتب نے سانس کی ڈوری کے ساتھ باندھ دیا تھا۔چار سال پہلے وطنِ عزیز کے غریب علاقوں میں سیلاب نے غریبوں کی بستیوں کو پامال کر دیا۔ میں نے امدادی قافلے کے ساتھ میاں محمد بخش کے پوٹھوہار سے نکل کر رانجھے کے تخت ہزارہ کا رُخ کیا۔ جہاں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ ندیم افضل چن مجھے پہلے جھاوریاں لے کر گئے۔ اُس روز سورج ڈھلنے سے پہلے ہماری آخری منزل جھنگ کی تحصیل اٹھارہ ہزاری تھی۔ تریموں کے پُل پر پہنچ کر یوں لگا جس طرح انتظامیہ علاقے سے سب سے پہلے بھاگی ہو۔ ٹریفک جام کی لمبی قطاروں سے رینگ کر پتہ چلا کہ سرمایہ داروں نے اپنی جائیدادوں، شوگر ملوں اور اثاثوں کو بچانے کے لئے انتظامیہ کو اغواء کر لیا ہے۔ غریب لوگ پناہ کی تلاش میں نیلے آسمان تلے اوپر والے کے آسرے پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اس فرینڈلی اغواء سے بچے کھچے سرکاری اہل کاروں اور چنیوٹ کے ایم این اے عنایت شاہ ایڈووکیٹ کے ساتھ میں ضرورت مندوں کے علاوہ پانی میں گھرے ہوئے علاقے کے عین درمیان واقع اعوان قبیلے سے تعلق رکھنے والے درویش منش شاعر حضرت سلطان باہو کے مزار تک پہنچا۔علاقے سے میرا دوسرا تعارف تب ہوا جب میں وزیرِ قانون کی حیثیت سے اِس ڈویژن کی بار ایسوسی ایشنز کی خدمت کے لئے پہنچا۔ آج تحصیل اٹھارہ ہزاری کے ایک اہلِ درد صاحبِ علم لیاقت علی نے پاکستان کے کروڑوں غریب عوام کے لاکھوں تعلیم یافتہ طالبِ علم بچوں کے انتہائی اہم مسئلے کو اُٹھا کر مجھے وفاقِ پاکستان کے نام ضلع جھنگ کی تحصیل اٹھارہ ہزاری کا وکیل بنا دیا۔ پہلے اُن کا ہاتھ سے لکھا ہوا خوش نویسی کا شاہکار خط ملاحظہ فرمائیں۔
"السلام علیکم.... درازیٗ عمر کی دُعا کے بعد گزارش ہے کہ میرا تعلق ضلع جھنگ کے ایک پسماندہ گائوں، بمقام پیر ولایت شاہ، موضع ساجھر سیال، ڈاکخانہ ماچھی وال، تحصیل اٹھارہ ہزاری سے ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ارض پاکستان کے تقریباً 70 فیصد لوگ دیہات میں آباد ہیں، جو مزدور اور محنت کش ہیں اور دو وقت کی روٹی کے لئے صبح سے شام تک جھلستی دھوپ میں کام کرتےہیں۔ان نامساعدحالات میں اِن والدین کا اپنے بچوں کو تعلیم دلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسے میں غربت، بے روزگاری اور خاندان کی کفالت کا بوجھ طالب علموں کے کندھوں پر آن پڑتا ہے۔ یہ طلباء تعلیم کے ساتھ ساتھ محنت مزدوری کرکے گھر کے اخراجات اُٹھاتے ہیں اور ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھتے ہیں۔ اس طرح یہ طلباء بمشکل 26-27 سال کی عمر میں ایم اے کرتے ہیں۔
پھر مقابلے کے امتحان (CSS)کی درست انداز میں آگہی نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً دو سال امتحان کی تیاری میں لگا دیتے ہیں۔ جب یہ دیہاتی طالب علم امتحان کی تیاری مکمل کرتے ہیں تو اس وقت پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور ان طلباء کی عمر سی ایس ایس کے امتحان کے لئے مقرر کردہ عمر کی بالائی حد28 سال سے تجاوز کر چکی ہوتی ہے۔ہمارے پڑوسی ممالک بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا میں مقابلے کے امتحان کے لئے بالائی حد(Upper Age Limit) 35 سال ہے حتیٰ کی UNO میں 33 سال ہے۔ اس کے برعکس وطنِ عزیز میں سی ایس ایس کے امتحان کے لئے عمر کی بالائی حد 28 سال ہے۔
واضح رہے کہ 1992ء تک سی ایس ایس کے امتحان کے لئے عمر کی بالائی حد 35سال تھی پھر 1992ء سے2000ء تک 30 سال رہی۔ اس کے بعد جنرل (ر) پرویز مشرف نے 2001ء میں اسے 30 سال سے کم کر کے 28 سال کر دیا جو تاحال 28 سال ہے۔ویسے بھی مسابقت کا اولین تقاضا تو یہ ہے کہ پہلے یکساں وسائل، یکساں مواقع فراہم کئے جائیں پھر اکھاڑے میں اُتارا جائے، مگر ٹاٹ اسکولوں میں بھینسوں کے ساتھ تعلیم پانے والے پسماندہ علاقے کے دیہاتی طالب علموں کو اعلیٰ اور مشہور تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے ساتھ مقابلے کے امتحان (CSS) میں بٹھا دینا اور اوپر سے عمر کا دائرہ تنگ کرکے قدغن لگا دینا کہاں کا انصاف ہے۔ قابلِ صد احترام! مقابلے کے امتحان (CSS) میں عمر کی بالائی حد جو کہ 28 سال ہے اسے بڑھا کر33 سال کیا جائے تاکہ جو طالبِ علم تعلیم کے ساتھ ساتھ اہلِ خانہ کی معاشی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں انہیں کم از کم اتنی رعایت تو ضرور ملنی چاہئے کہ وہ اس امتحان میں بیٹھ سکیں اور اپنے والدین کی توقعات پوری کر سکیں۔
محترم! میں آپ سے التماس کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ میری درجِ بالا گزارشات پر ہمدردانہ غور فرماتے ہوئے وطنِ عزیز کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے اس مسئلے کو حل کر دیں گے۔
آپ کے قلم کی ذرا سی جنبش اور آپ کی تھوڑی سی کوشش کئی طالب علموں کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے۔مجھے آپ پہ یقین ہے آپ مایوس نہیں کریں گے۔ لیاقت علی ۔
اسلامی اور جمہوریہ پاکستان میں مواقع کی برابری کے خواب دیکھنے والے اور دستور میں لکھی ہوئی مساوات کو پانے کی خواہش کرنے والے کس قدر مہذب یا کمزور ہیں۔ جن کی آواز بڑے ایوانوں تک کبھی نہیں پہنچ سکتی۔ پھر بھی یہ اپنا کلیجہ خود اپنی جگر پاش آہوں سے ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔ اپنے حق کے لئے یہ مخلوق نہ تو بولتی ہے نہ ہی احتجاج کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے وسائل پر قابض سرکاری اور سیاسی مافیا سمجھتے ہیں پاکستان اُن کا مفتوحہ علاقہ ہے۔ غریب عوام اُن کے خریدے ہوئے غلام ہیں۔ میں لیاقت علی کو شاباش دینا چاہتا ہوں جس نے اپنی ذات، فرقے اور مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے طبقے کے لئے پاکستان کے طبقاتی نظام کے منہ پر تحریری طمانچہ دے مارا۔ میں نے ٹوئٹر پر اس خط میں اٹھائے گئے مسئلے کا ذکر کیا۔ اگر وفاق کی سرکار یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ کتنے نوجوانوں کا مسئلہ ہے تو وہ اس موضوع پر ہونے والی ٹوئٹس ، ری ٹوئٹ، بحث و تجاویز پڑھ لیں۔ جن دنوں آغازِ حقوقِ بلوچستان کی تیاری میری ذمہ داری تھی تب بلوچستان کے بے روزگار نوجوانوں کو قومی وسائل میں شریک بنانے کے لئے سرکاری ملازمت میں عمر کی بالائی حد 35سال کی گئی۔ صرف وفاقی ڈویژنوں میں 25000ملازمتیں ایسی نکلیں جن پر بلوچستان کے عوام کا صوبائی کوٹہ سیاسی بیوروکریسی کا عفریت نے کھایا تھا۔ صوبائی کوٹے کی نوکری کا اشتہار روزنامہ چارپائی یا پھر ماہ نامہ اُڑن کھٹولہ قسم کے اخباروں میں شائع کرایا جاتا ہے۔ جنہیں ایڈیٹر، پبلشر اور غالباً پرنٹر کے علاوہ نہ کوئی پڑھتا، نہ کوئی دیکھ سکتا ہے۔ بیوروکریسی آسانی سے کہتی ہے پسماندہ علاقے کی سیٹ پر کوئی امیدوار نہیں آیا۔ اس طرح نوکری دینے والے اپنی سالی کے بھتیجے یا سہیلی کے بہنوئی کو حاتم طائی کی طرح یہ کوٹہ الاٹ کرتے ہیں۔ آج کل وفاق عوام کو زندگی سمیت چاردیواری کا تحفظ دینے میں شرما رہا ہے۔ عوام اپنا حق مانگنے میں مت شرمائیں۔ ہم میں سے کون ہے جو نئی دہلی کے سابق وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال سے بھی زیادہ کمزور ہے...؟ سب مل کر چاہیں تو اُمید کے پھول کھلا سکتے ہیں:۔
تم ،راہ دیکھنا میری ، مانند ِ شاخِ گل
میں پھول بن کے آئوں گا فصلِ بہار میں