• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ملک میں طالبان سے مذاکرات کی داغ بیل ڈالی گئی ہے لیکن جو کمیٹیاں مذاکرات کے لئے تشکیل پائیں، وہ کس حد تک بااختیارہیں، اس کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ اگر حکومتی کمیٹی طالبان سے کوئی مطالبہ کرتی ہے تو طالبان کمیٹی اسے شوریٰ کی جانب بھیج دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح اگر طالبان کمیٹی کوئی مطالبہ سامنے لاتی ہے تو حکومتی کمیٹی اسے لے کر وزیر اعظم کے پاس جا پہنچتی ہے۔ کس طرح ممکن ہے کہ اس سنگین مسئلے کا حل یہ کمیٹی نکال سکے۔ دوسری جانب پنجاب کو چھوڑ کر ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کی وارداتیں جاری ہیں۔ قومی قیادت کمیٹی بنا کر اس مسئلے سے اپنے آپ کو عہدہ برآ سمجھ رہی ہے۔ ایک جانب پنجاب میں اور دوسری جانب سندھ میں ثقافتی فیسٹیول منعقد کئے جارہے ہیں جبکہ بلوچستان شورش کی آگ میں جل رہا ہے۔ ملک کا ساحلی شہر نہ جانے کس جرم کی سزا بھگت رہا ہے کہ اس شہر میں امن کے وقفے تو آئے لیکن پائیدار امن اسے نصیب نہ ہوا۔ گزشتہ پانچ ماہ سے اس شہر میں مبینہ طور پر ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے جس میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گرفتاریوں کے دعوے کئے گئے لیکن جیل کے اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ ماہ میں صرف 762افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک جانب پولیس، رینجرز اور فوج پر حملہ کرنے والے عناصر جو باالفاظِ دیگر ریاست سے لڑ رہے ہیں، ان سے مذاکرات کی سعی کی جارہی ہے۔ اسی طرح صوبہ بلوچستان میں بھی جو عناصر ریاست سے برسرپیکارہیں کل اگر ریاست ان کے ہتھیاروں کے آگے بھی بے بس ہوئی تو کیا ان سے بھی مذاکرات کئے جاسکیں گے؟
اس پس منظر میں اگر ہم دیکھیں تو وطن عزیز اپنے تخلیقی نظرئیے سے انحراف کرتے ہوئے تاریک راہوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس کو روکنے کے لئے اس سوچ کو سامنے لانا ہوگا جس کے تحت یہ وطن معرضِ وجود میں آیا ۔ملک میں ایک جانب دہشت گردی کی فضا ہے اور دہشت گردی کرنے والوں سے مذاکرات کرنے والوں میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی صفر ہے جبکہ بعض مبصرین کے نزدیک یہ مذاکرات طالبان اور طالبان کے مابین ہی ہو رہے ہیں۔ کراچی میں ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی اس سلسلے میں بعض شکایات کی تصدیق کرتے دکھائی دیئے اور اس ضمن میں صرف محکمہ جاتی کارروائی پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ کوئی آزاد کمیشن یا عدلیہ کے ذریعے ان شکایات کی تحقیق نہیں کی گئی۔ اس پس منظر میں قومی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کے بجائے اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں نسلی و لسانی بنیادوں پر تفریق کو مضبوط کر رہے ہیں تاکہ ان کا ووٹ بینک مستحکم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب بلاول زرداری سندھ کی ثقافت کا علم بلند کئے ہوئے ہیں اور ایک جانب پنجاب حکومت پنجاب فیسٹیول میں قومی پرچم لہرا کر یہ پیغام دے رہی ہے کہ پاکستان ہمارا ہے، جبکہ قومی وحدت کے لئے کوئی بھی رہنما کسی قسم کا فیسٹیول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ آج بھی علیحدگی پسندوں کی شورش ہے ،ایک صوبے پر مذہبی سوچ اپنے انداز میں یلغار کئے ہوئے ہے اور دو صوبے اپنی اپنی ثقافت اورفیسٹیول کو لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں محسوس یہی ہوتا ہے کہ ہم تاریک راہوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کو زمینی خدا سمجھنے والے حکمرانوں کے لئے آج جاری ہونے والا وہ بیان جو امریکی محکمہ خارجہ سے جاری کیا، لمحہ فکریہ ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت اپنے عوام کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ امریکہ نے پوری دنیا میں دہشت گردی ختم کرنے کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ کل تک دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی امن کا خطرہ تھی۔ آج مقاصد پورے ہوجانے کے بعد یہ پاکستان کا انفرادی مسئلہ قرار دے دیا گیا۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں پر ہی لڑتے رہیں گے یا آئندہ آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لئے کوئی خود ساختہ خارجہ پالیسی ترتیب دے سکیں گے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کس راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ تاریک راہوں کا یا ہم روشنی کی جانب بڑھیں گے۔
تازہ ترین