• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مقدسہ اور اسلامی تاریخ میں دو راتیں بڑی ہی فضیلت اور اہمیت کی حامل ہیں۔ پہلی رات وہ جس میں رسالت مآب ﷺ پر وحی کی ابتداء اور نزول قرآن کا آغاز ہوا اور آپ کو اعلانیہ نبوت عطا کی گئی جو امت میں ’’شبِ قدر‘‘ کے نام سے متعارف ہے، دوسری ’’معراج النبی ﷺ ‘‘ کی رات ، جسے ہم شبِ معراج کے نام سے جانتے ہیں۔

معراج النبی ﷺ کا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کومکہ میں اعلان توحید کرتے، دعوتِ دین دیتے اور غلبۂ دین کی جدوجہد کرتے ہوئے دس سال کا صبر آزما عرصہ گزر چکا تھا۔ اس دوران ایک طرف قریش کے مظالم سے تنگ مسلمانوں کو پہلی ہجرت حبشہ اور کفارِ مکہ کی جانب سے بنو ہاشم کے سماجی بائیکاٹ ’’شعبِ ابی طالب‘‘ میں طویل ’’محصوری‘‘ جیسے مصائب کا سامنا رہا تو دوسری طرف رسول اللہ ﷺ کو ذاتی اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر نبوت کے دسویں سال رسول اللہ ﷺ کے پیارے چچا، سرپرست جناب ابو طالب کے انتقال کا صدمہ اور پھر کچھ عرصے بعد عظیم رفیقۂ حیات اور غمگسار زوجۂ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی جدائی اور وفات کا غم اٹھانا پڑا۔ رسول اللہ ﷺ کے پیارے چچا کی سرپرستی سے محرومی کے بعد کفار مکہ اور مشرکین کی ہمت بہت بڑھ گئی اور کفارِ مکہ اب آپ کے قتل ، جلاوطنی یا قید کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے اور اس سازش کے تانے بانے بننے لگے۔ بظاہر حالات بہت سنگین ، سخت صبر آزما اور حوصلہ شکن تھے۔ 

رسول اللہ ﷺ اہلِ مکہ سے مایوس اور ناامید ہوچکے تھے، ان حالات میں آپ ﷺ کو طائف میں امید کی مدہم سی روشنی کی کرن نظر آئی، چنانچہ آپ حضرت زید بن حارثہؓ کے ہمراہ مکے سے طائف تشریف لے گئے۔ وہاں کے امراء اور سرداروں کو دعوت اسلام دی۔ طائف والے وعوت حق کو تو قبول کیا کرتے،بلکہ انہوں نے آپ ﷺ کو ایسی جسمانی تکلیف اور اذیت پہنچائی اور آپﷺ کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپ ﷺ دل برداشتہ ہو کر مکہ واپس لوٹ آئے۔ 

اب گویا کہ ان حالات میں آپ ﷺ کی دل جوئی، دل جمعی ،اطمینان اور سکونِ قلب کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو معراج کا شرف بخشا۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ اب اسلام کی سخت اور پُر خطر زندگی کا باب ختم ہونے کو ہے اور ہجرت کے بعد سے اطمینان و سکون کے ایک نئے دور کا آغاز ہونے والاہے تو وہ مبارک شب آئی جسے معراج سے موسوم کیا جاتا ہے ،جب حضور ﷺ کو سیر ملکوت سے نوازا گیا اور پیش گاہِ ربّانی سے احکامِ خاص کا اجراء اور نفاذِ عمل کا حکم صادرہوا ۔ 

نزول قرآن کی رات ’’شب قدر‘‘ سے اب تک پورے دس سال اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان جبرائیل ؑکی وساطت سے پیغام رسانی کا سلسلہ رہا اور ’’شب معراج‘‘ میں بات پیغام رسانی سے بڑھ کر اللہ اور اس کے بندۂ خاص کے مابین مہمانی اور میزبائی تک پہنچ گئی، اللہ تعالیٰ سے دس سال جبرائیل ؑکی وساطت سے پیغام رسانی ہوتی رہی، آج کی رات اس سے براہِ راست ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت ہمارا موضوع سفرِ معراج کی روداد، رسول اللہ ﷺ کے مشاہدات اور اس سے متعلق روایات و نظریات نہیں ہے ،بلکہ ہم اس پر گفتگو کریں گے کہ اس سفر معراج سے مقاصد و غایتِ الہٰی کیا تھی اور اس معراج کے ذریعے اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو کیا احکام و پیغام دینا چاہتا تھا۔

بشری کمالات کی لاتعداد صلاحیتیں اور استعداد جب آہستہ آہستہ اپنی روحانی اور مادی زندگیوں کے ادوار میں نشوونما پاکر پورے شباب کو پہنچ چکیں تو یہ معراج ان کی پرواز کی ایک اڑان تھی۔ اگر حقیقت بیں نظر سے دیکھا جائے تو معراج کے ذریعے خود انسان کو اس کی پوشیدہ استعداد اور صلاحیتوں کے کمالات اور اس کی حدود سے آگاہ کرنا مقصود تھا اور اسے کائنات کا مشاہدہ کرانا تھا جس پر اللہ نے اسے خلیفہ مامور کیا تھا، تاکہ انسان کو اپنی عظمت کا صحیح احساس اور ادراک ہو جائے۔

خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کو انسانِ کامل کی حیثیت سے معراج کے ذریعے معرفتِ حق کا سب سے ارفع مقام دکھایا گیا ۔ روایات سے قطع نظر معراج النبی ﷺ کی اہمیت اس بات میں ہے کہ اسی تقریب میں امتِ محمدیہ کو بارگاہِ الہٰی سے نماز کا تحفہ ملا۔ نماز ایک ایسا فریضہ ہے جس کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے لئے رسول اللہ ﷺ کو زمین سے آسمان پر مدعو کیا گیا اور بڑی عزت و تکریم اور اعزاز و اکرام کے ساتھ نماز کا تحفہ عطا کیا گیا ۔ یہ انسانی زندگی میں اُس فریضے کی تکمیل ہے جو انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔

قرآن کریم میں تقریباً دو سو مقامات پر نماز کی تاکید ، اس کے ادا کرنے پر خوشخبری اور نہ پڑھنے پر عذاب کی وعیدبیان کی گئی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’نماز در حقیقت ایسا فرض ہے کہ جو پابندیٔ وقت کے ساتھ ایمان والوں پر لازم کیا گیا ہے۔‘‘ نماز کی خصوصیت قرآن عزیز کے الفاظ میں یہ ہے ’’یقیناً نماز بے حیائی، برائی اور سرکشی سے باز رکھتی ہے۔ ‘‘ (سورۃ العنکبوت) ہر مومن پر لازم قرار دیا کہ وہ خود بھی نماز کا پابند رہے اور اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دے ۔ ’’اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کے پابند رہو۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ 132:)

رسول اللہ ﷺ نے نماز کی تاکید اتنی سختی کے ساتھ فرمائی کہ کسی اور حکم پر آپ نے اتنا زورِ کلام صرف نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’نماز دین کا ستون ہے۔‘‘ نماز جنت کی کنجی ہے، نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، کفر و اسلام (مومن و کافر) میں فرق صرف نماز کا ہے۔‘‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کو معراج کا اعزاز اور اپنے دیدار کا انعام عطا کرتے ہوئے آپ ﷺ کی امت کو بھی معراج کا تحفہ عطا کیا ،جسے رسول اللہ ﷺ نے یہ کہتے ہوئے امت کے حوالے کیا کہ ’’نماز مومن کی معراج ہے۔‘‘ اب تحفۂ معراج پر مومن کا عملی شکرانہ یہ ہے کہ ہم اس فرض کو پابندی سے ادا کریں، ان خوبیوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پیدا کر کے صحیح معنوں میں رسول اللہ ﷺ کے جانشین اور امتی بنیں اور غلبۂ دین حق کے اُس فریضۂ دعوت کو ادا کریں جو آپ ﷺ نے اپنی امت کو بطور امانت سپرد فرمائے۔

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق واقعۂ معراج میں دوسرے تحفوں کے علاوہ سورۃ البقرہ کی آخری آیات بھی امت کے لئے تحفۂ معراج ہیں۔ پیغام معراج میں وہ احکام وہدایات بھی شامل ہیں جو معراج سے واپسی پر ’’سورۂ بنی اسرائیل ‘‘ کی شکل میں آپ ﷺ کو نماز کے بعد دوسرے بہترین تحفۂ معراج کی شکل میں عطا کیےگئے، جس میں نصیحتوں اور ہدایتوں کے علاوہ وہ بڑے بڑے اصول بیان کئے گئے ہیں ،جن پر آئندہ اسلامی ریاست اور معاشرے کی تعمیر ہونی تھی۔

ہم شبِ معراج بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں ،لیکن ہماری زندگی نماز جیسی اہم ترین عبادت سے خالی ہوتی ہے۔ معراج کے موقع پر واقعہ معراج کو عظیم معجزہ کے طور پریاد کیا جاتا ہے (بے شک یاد کیا جانا چاہیے) لیکن اس کے مقصد اور پیغام پر دھیان نہیں دیا جاتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ امت کے لئے معراج کا سبق کلی طورپر بس یہی ہے کہ’’سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے’’الصلاۃ معراج المومنین ‘‘