ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
آج سے تقریباً پانچ ہزار سال قبل حِجرکے علاقے میں مشہور عرب قبیلہ ’’ثمود‘‘ رہتا تھا۔ یہ قبیلہ قوم ِعاد کی نسل سے ہے۔ حضرت ہود علیہ السلام اور قوم عاد میں سے جو مومنین اللہ کے عذاب سے بچ گئے تھے ،قوم ثمود اُن کی اولاد تھی۔ اس قوم میں بھی رفتہ رفتہ بت پرستی آگئی تھی۔ اِس وقت یہ علاقہ سعودی عرب میں ہے جو ’’مدائن صالح‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مدائن مدینہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں شہر، جب کہ صالح مشہور نبی حضرت صالح علیہ السلام کی طرف منسوب ہے، یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی بستیاں۔
مدائن صالح مدینۂ منورہ اور تبوک کے درمیان مدینہ منورہ سے تقریباً ۳۸۰ کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے خیبر تقریباً ۱۸۰ کلومیٹر دور ہے جو مدینہ منورہ اور مدائن صالح کے درمیان واقع ہے۔ بعض لوگ اس جگہ کی زیارت کے لیے جاتے ہیں، اگرچہ اس کی زیارت کوئی ترغیبی عمل نہیں ہے۔ آج بھی صبح سے شام تک حجر یعنی مدائن صالح کی زیارت کی جاسکتی ہے، لیکن رات میں اس مقام میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی وثقافتی مشہور ادارہ ’’یونیسکو‘‘نے بھی مدائن صالح یعنی حجر کی تاریخی حیثیت تسلیم کی ہے۔
مدینہ منورہ سے جاتے ہوئے مدائن صالح سے ۲۲ کلومیٹر پہلے العلانام کا ایک خوبصورت شہر آباد ہے، جہاں لیموں، سنترہ، انگور اور آم کے علاوہ گیہوں اور جو کی بھی خوب کھیتی ہوتی ہے، لیکن العلا شہر سے صرف ۲۲ کلومیٹر کے فاصلے پر مدائن صالح واقع ہے،جہاں پانچ ہزار سال گزرنے کے باوجود آج بھی زندگی کا کوئی آثار دور دور تک موجود نہیں ہیں، حتیٰ کہ پینے کے لیے پانی بھی موجود نہیں ہے ،کیونکہ اس سرزمین میں سرکش قوم پر اللہ تعالیٰ کا دردناک عذاب نازل ہوا تھا ۔ اسی لیے جو حضرات مدائن صالح جاتے ہیں وہ پانی جوس وغیرہ العلا شہر سے ہی لے کر جاتے ہیں۔
حجاز مقدس کے تجارتی قافلے اسی راستے ملک شام جایا کرتے تھے۔ عثمانی حکومت نے ۱۹۰۷ء میں مدائن صالح میں ایک ریلوے اسٹیشن بھی بنایا تھا جو مدینہ منورہ کے بعد دوسرا بڑا ریلوے اسٹیشن تھا۔مدینہ منورہ سے خیبر اور مدائن صالح ہوتی ہوئی ٹرین دمشق (سوریا) جایا کرتی تھی، مگر سلطنت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی یہ تاریخی ٹرین بند ہوگئی۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی اکرم ﷺ اِس علاقے سے گزرے تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو یہ آثار قدیمہ دکھاکر وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحب بصیرت شخص کو حاصل کرنا چاہئے کہ یہ اُس قوم کی بستی ہے جس پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ، لہٰذا یہاں سے جلدی گزر جاؤ۔ یہ سیر گاہ نہیں، بلک رونے اور عبرت پزیری کا مقام ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بہت پہلے حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل سے ہیں۔ انہیں قوم ثمود کے لیے نبی بناکر بھیجا گیا تھا۔ یہ قوم بہت طاقت ور تھی اور پہاڑوں کو تراش کر گھر بنایا کرتی تھی۔ یہ لوگ بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو حتیٰ الامکان سمجھانے کی کوشش کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، صرف وہی عبادت کے لائق ہے، اسی نے پوری کائنات کو پیدا کیا ہے، لیکن قوم ثمود نے اللہ کے نبی حضرت صالح علیہ السلام کی بات نہیں مانی۔
ایک مرتبہ انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ ہمارے سامنے کے پہاڑ سے کوئی اونٹنی نکال کر دکھادیں گے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح علیہ السلام نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑ سے اونٹنی بھی نکال کر دکھادی۔ جس پہاڑی سے اونٹنی نکلی اسے فج الناقہ کہا جاتا ہے۔ اس معجزے کے با وجود چند لوگوں کے علاوہ قوم ثمود کی بڑی تعداد ایمان نہیں لائی، لیکن چونکہ انہوں نے اس معجزے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اس لیے وہ کسی قدر اُس اونٹنی کا احترام کرتے تھے، حضرت صالح علیہ السلام کے فیصلے کے بعد کنویں سے پانی پینے کی باری مقرر کردی گئی۔ ایک دن اونٹنی کنویں کا پانی پیتی اور دوسرے دن قوم ثمود کے لوگ۔
مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اونٹنی کو ستانا شروع کردیا، حضرت صالح علیہ السلام نے ایسا کرنے سے منع کیا، لیکن ایک دن قوم ثمود کے کچھ شریروں نے اونٹنی کو مار ڈالا۔ حضرت صالح علیہ السلام سمجھ گئے کہ اب اللہ کا عذاب نازل ہوگا، چناںچہ انہوں نے بتادیا کہ تین دن میں اللہ کا عذاب نازل ہوجائے گا۔ اس کے باوجود اس ضدی قوم نے توبہ کرنے کے بجائے حضرت صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النمل آیت ۴۸ و ۴۹ میں ذکر کیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں راستے ہی میں ہلاک کردیا اور اُن کا منصوبہ دھرا رہ گیا۔ آخر کار تین دن گزرنے کے بعد شدید زلزلہ آیا، اور آسمان سے ایک ہیبت ناک چیخ کی آواز نے ان سب کو ہلاک کرڈالا۔ اس طرح قوم ثمود اپنی پوری طاقت اور قوت کے باوجود ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی اور اُن کی بستی قیامت تک کے لوگوں کے لیے عبرت بن گئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا ذکر متعدد مرتبہ قرآن میں فرمایا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کا نام نامی بھی ۹ جگہ پر قرآن کریم میں آیا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام اوراُن کی قوم کا تفصیلی ذکر سورۃ الاعراف (۷۳۔۷۹)،سورۂ ہود (آیت ۶۱۔۶۸)، سورۃ الشعراء (آیت ۱۴۱۔۱۵۹)، سورۃ النمل (آیت ۴۵۔۵۳) اور سورۃ القمر (آیت ۲۳۔۳۱) میں ہوا ہے۔ نیز سورۂ حجر، سورۂ فصّلت، سورۂ ذاریات، سورۂ نجم، سورۂ حاقہ اور سورۂ شمس میں بھی ان کے مختصر احوال ذکر کیے گئے ہیں۔ چند آیات کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
انہوں (یعنی حضرت صالح علیہ السلام) نے کہا: ’’ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو۔ اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آچکی ہے۔ یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے نشانی بن کر آئی ہے۔ اس لیے اسے آزاد چھوڑ دو کہ وہ اللہ کی زمین میں چرتی پھرے، اور اسے کسی برائی کے ارادے سے چھونا بھی نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں ایک دکھ دینے والا عذاب آ پکڑے۔ اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم عاد کے بعد جانشین بنایا، اور تمہیں زمین پر اس طرح بسایا کہ تم اُس کے ہموار علاقوں میں محل بناتے ہو، اور پہاڑوں کو تراش کر گھروں کی شکل دے دیتے ہو۔
لہٰذا اللہ کی نعمتوں پر دھیان دو، اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔‘‘ اُن کی قوم کے سردار نے جو بڑائی کے گھمنڈ میں تھے، اُن کمزوروں سے پوچھا جو ایمان لے آئے تھے کہ ’’ کیا تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا : ’’بے شک ،ہم اُس پیغام پر پورا ایمان رکھتے ہیں جو اُن کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔‘‘ وہ مغرور لوگ کہنے لگے: ’’ جس پیغام پر تم ایمان لائے ہو، اُس کے تو ہم سب منکر ہیں‘‘، چنانچہ انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا، اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرکشی کی، اور کہا: ’’صالح! اگر تم واقعی ایک پیغمبر ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس کی ہمیں دھمکی دیتے ہو۔‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں زلزلے نے آپکڑا، اور وہ اپنے گھر میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ اس موقع پر صالح اُن سے منہ موڑ کر چل دئیے، اور کہنے لگے: ’’اے میری قوم! میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچایا، اور تمہاری خیر خواہی کی، مگر (افسوس کہ) تم خیر خواہوں کو پسند ہی نہیں کرتے تھے۔ (سورۃ الاعراف ۷۳۔۷۹)
اور قوم ثمود کے پاس ہم نے اُن کے بھائی صالح کو پیغمبر بناکر بھیجا۔ انہوں نے کہا: ’’ اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اُسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا،اور اُس میں تمہیں آباد کیا۔ لہٰذا اُس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو، پھر اُس کی طرف رُجوع کرو۔ یقین رکھو کہ میرا رب (تم سے) قریب بھی ہے، دعائیں قبول کرنے والا بھی۔‘‘ وہ کہنے لگے: ’’ اے صالح! اس سے پہلے تو تم ہمارے درمیان اس طرح رہے ہو کہ تم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ (یعنی نبوت سے قبل حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم میں عظیم مقام رکھتے تھے) جن (بتوں) کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں، کیا تم ہمیں اُن کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہو؟ جس بات کی تم دعوت دے رہے ہو، اُس کے بارے میں تو ہمیں ایسا شک ہے جس نے ہمیں اضطراب میں ڈال دیا ہے۔‘‘ صالح نے کہا: ’’ اے میری قوم! ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے آئی ہوئی ایک روشن ہدایت پر قائم ہوں، اور اُس نے مجھے خاص اپنے پاس سے ایک رحمت (یعنی نبوت) عطا فرمائی ہے، پھر بھی اگر میں اُس کی نافرمانی کروں تو کون ہے جو مجھے اللہ (کی پکڑ) سے بچا لے؟ لہٰذا تم (میرے فرائض سے روک کر) بربادی میں مبتلا کرنے کے سوا مجھے اور کیا دے رہے ہو؟ اور اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی بن کر آئی ہے۔
لہٰذا اسے آزاد چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے، اور اسے برے ارادے سے چھونا بھی نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں عنقریب آنے والا عذاب آپکڑے۔‘‘ پھر ہوا یہ کہ انہوں نے اسے مارڈالا۔ چنانچہ صالح نے کہا : تم اپنے گھروں میں تین دن اور مزے کرلو، (اُس کے بعد عذاب آئے گا، اور) یہ ایسا وعدہ ہے جسے کوئی جھوٹا نہیں کرسکتا۔‘‘ پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے صالح کو اور ان کے ساتھ جو ایمان لائے تھے، اُنہیں اپنی خاص رحمت کے ذریعے نجات دی،اور اُس دن کی رُسوائی سے بچالیا۔ یقیناً تمہارا پروردگار بڑی قوت ، بڑے اقتدار کا مالک ہے۔ اور جن لوگوں نے ظلم کا راستہ اپنایا تھا، اُن کو ایک چنگھاڑنے آپکڑا، جس کے نتیجے میں وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (سورۂ ہود ۶۱۔۶۷)