• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دورانِ جماعت صفوں میں کرسی کہاں رکھی جائیں؟

تفہیم المسائل

سوال: اہلِ سنّت کی ایک مسجد میں کمیٹی نے صف بندی کے لیے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ پہلی صف میں دائیں جانب پانچ کرسیاں اور بائیں جانب صرف دو کرسیاں لگائی جاتی ہیں، بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ امام صاحب کے پیچھے صف بندی کرتے ہوئے صف کے دائیں یا بائیں جانب نمازی کم ہوتے ہیں اور کرسی پر بیٹھے ہوئے نمازی کا صف سے اتصّال نہیں ہوتا، درمیان میں جگہ خالی رہ جاتی ہے، جبکہ حدیث میں خالی جگہ پُر کرنے اورصفیں ملاکر بنانے کا حکم دیا گیا ہے، ایسی صورت میں کرسی والے حضرات کو کیا کرنا چاہیے؟

کیا امام صاحب کی طرف اپنی کرسی ملائیں، جبکہ نماز شروع ہوچکی ہے ، کیا انہیں صف بندی کا ثواب ملے گا؟ اگر تیسری صف میں کوئی نمازی نہ ہوصرف کرسی والا ایک نمازی ہوتو وہ کرسی کہاں رکھے گا؟ (محمد شریف قریشی، کراچی)

جواب: آپ کے سوال میں درج ذیل امور بیان کیے گئے ہیں:(۱) مسجد کمیٹی کادورانِ جماعت محدود تعداد میں کرسیاں دائیں اور بائیں جانب رکھ کر صف بندی کا اصول ۔(۲) صف سے متصل نہ ہونے والے نمازیوں کی جماعت میں شمولیت اور ثواب کا حکم ۔(۳) صف میں خلا ہو تو اپنی کرسی اٹھا کر صف سے متصل ہونا ۔(۴)کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کاصف میں تنہا ہونا۔ 

سب سے پیش تر تو یہ کہ مسجد انتظامیہ کا بنایاہوا اصول درست ہے، اس میں کوئی شرعی خرابی نہیں ہے، کیونکہ صف کے درمیان میں کرسی رکھنے سے صف میں انقطاع اور خلل واقع ہوتا ہے، صف کے درمیان میں کرسی رکھ کر نماز پڑھنے سے یہ خرابی لازم آتی ہے کہ اگر وہ کرسی نمازیوں کے ساتھ ملا کر رکھتا ہے، تو قیام میں وہ نمازیوں سے آگے ہوجائے گا اور اگر کرسی پیچھے کرکے بیٹھتا ہے تو نشست نمازیوں سے پیچھے ہوجائے گی اور پچھلی صف بھی متاثر ہوگی، دونوں صورتوں میں صف سے الگ ہوجائے گا اور درمیان صف میں کرسی رکھ کر بیٹھنے سے صف منقطع ہوجائے گی۔ 

یعنی اس طرح کرسی رکھی جائے کہ اس پر بیٹھا ہوا نمازی باقی نمازیوں کی سیدھ میں ہو، صف سے آگے بڑھا ہوا یا پیچھے نکلا ہوا نہ ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے نمازی کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے، وہ کھڑے ہو کر قیام نہ کرے، کیونکہ اس صورت میں اگر وہ قیام میں صف کے برابر ہو گا تو بیٹھنے میں صف سے پیچھے ہو جائے گا اور اگر بیٹھنے میں صف کے برابر ہو گا تو کھڑے ہونے میں صف سے آگے نکل جائے گا، حالانکہ صف کو سیدھا رکھنا واجب ہے۔

کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والوں کے لیے صف میں شامل ہونے کی دو صورتیں بنتی ہیں :

(۱)اگر کوئی شخص نماز میں قیام پر قادرہے اور رکوع وسجود کرسی پر بیٹھ کر کرتا ہے تو ایسی صورت میں اصل اعتبار قیام کے وقت دیگر مقتدیوں کے ساتھ برابری اور صف بندی کا ہوگا اور اس برابری کا معیار ایڑی کو بنایا جائے گا۔

شیخ الاسلام زکریا بن محمد بن زکریا انصاری مُتوفّٰی 926ھ لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’(صف بندی میں) آگے بڑھنے یا پیچھے ہونے میں کھڑے ہوئے شخص کے لیے معیار قدم کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی ہے، ٹخنہ نہیں ہے، (أَسْنی الْمَطالب فِی شرحِ رَوض الطّالب،جلد1،ص:222)‘‘۔

(۲) اگر معذور شخص پوری نماز یعنی قیام، رکوع، سجود اور قعدہ کرسی پر بیٹھ کر اداکرتا ہے، تو اس کے اور اس کے ساتھ کھڑے نمازیوں کے درمیان برابری کا اعتبار اس کے بیٹھنے کی جگہ یعنی سُرین سے ہوگا، قدموں سے نہیں، کیونکہ قیام کی حالت میں بدن کا استقرار قدموں پر ہوتا ہے، جبکہ بیٹھنے کی حالت میں سرین پر ہوتا ہے۔ اصل حکم قیام ہے اور جب قیام ممکن نہ ہو تو اس کا بدل قعود (بیٹھنا)اختیار کیا جاتا ہے۔

امام جمال الدین الاسنوی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پس اگر نمازی بیٹھ کر نماز پڑھے تو اعتبار اس کے بیٹھنے کی جگہ (یعنی سُرین ) کا ہوگا، یہاں تک کہ اگر اس نے اپنے دونوں پاؤں امام کے سامنے بڑھا دیے تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا، (اَلْمُہِمّات،جلد3،ص:321)‘‘۔

نیز اگر کسی نے کرسی اس طرح رکھ کر نماز پڑھی کہ اس سے قطع صف کی صورت بن رہی ہو، تو ایسا کرنے والا گنہگار تو ہوگا، لیکن اس کی اور دیگر نمازیوں کی نماز ادا ہو جائے گی، کیونکہ صف کا سیدھا ہونا، مکمل ہونا وغیرہ صف کے واجبات میں سے ہے، نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے۔

درج بالا تفصیل کی روشنی میں آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ کرسی پر بیٹھا ہواشخص اپنی کرسی دائیں یا بائیں جانب کنارے سے ملاکر رکھے ، اگر صف میں کھڑے ہونے والے نمازی اس تک نہ پہنچ سکیں، صف میں خلا رہ جائے ،تب بھی یہ اپنی کرسی اٹھا کر صف سے نہ ملائے، کیونکہ پھر اس کے بعد جو نمازی کھڑاہوگا، وہ صف سے منقطع ہوجائے گا۔

اگر کرسی کا حجم مسجد کی جگہ اور صفوں کے درمیان فاصلے کے لحاظ سے نامناسب ہو، جس کی وجہ سے وہ دوسرے نمازیوں کے لیے تنگی کا باعث بنے، تو بہتر یہ ہے کہ وہ صفوں کے پیچھے نماز ادا کرے یا ایسی جگہ کھڑا ہو، جہاں وہ نمازیوں کے لیے رکاوٹ نہ بنے اور ان کے لیے کسی قسم کی تکلیف کا سبب نہ بنے اور بہتر یہ ہے کہ کرسی کی جگہ اسٹول استعمال کیاجائے، کیونکہ اسٹول کرسی کی بہ نسبت کم جگہ گھیرتا ہے۔ 

آخری بات یہ کہ اسے جماعت کا ثواب ملے گا یانہیں؟تو چونکہ عذر کے سبب یہ صف کے کنارے پر یا پچھلی صفوں میں تنہا کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کررہا ہے، جماعت کے ثواب سے محروم نہیں ہوگا، شیخ احْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرْدِیرِ رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اگر صف میں شامل ہونا مشکل ہو توصف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا جائز ہے اور اگر شامل ہونا ممکن ہو تو مکروہ ہے، لیکن بہرحال اُسے مطلقاً جماعت کا ثواب حاصل ہو جائے گا، (شرح الکبیر ،جلد1،ص:334 )‘‘۔

علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ترجمہ:’’فنائے مسجد، مسجد کے حکم میں ہے حتیٰ کہ اگر کوئی فنائے مسجد میں ہے اور اس نے امام کی اقتداءکی تو یہ اقتداء صحیح ہے،اگرچہ نہ صفیں متصل ہوں اور نہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہو‘‘۔آگے چل کر لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اسی بناء پر جو مسجد کے دروازے کے اوپر چبوترے پر کھڑے ہوکر امام کی اقتداء کرے، اس کی نماز جائز ہے، کیونکہ یہ فنائے مسجد میں سے ہے اور مسجد کے ساتھ متصل ہے، ’’فتاویٰ قاضیخان‘‘ میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری،ج:1،ص:109)‘‘۔ (جاری ہے)

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

darululoomnaeemia508@gmail.com