مولانا محمد راشد شفیع
دنیا کی تاریخ میں ظلم و بربریت کے کئی باب رقم ہوئے، مگر جو ظلم آج مظلوم فلسطینیوں پر ڈھایا جا رہا ہے، وہ انسانیت کے لیے ایک ناقابلِ برداشت داغ بن چکا ہے۔ خونِ ناحق کی ندیاں بہہ رہی ہیں، معصوم بچوں کے چہرے مٹی میں لپٹے ہیں، ماں باپ اپنے جگر گوشوں کے ٹکڑے اپنے ہاتھوں دفن کر رہے ہیں۔ مسجدِ اقصیٰ، جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے، آج بھی ظلم و جبر کی زد میں ہے۔
امّتِ مسلمہ کے دلوں پر زخم تو لگے، مگر ان زخموں سے کوئی عملی آواز ابھرتی دکھائی نہیں دیتی۔ وہ امّت جو ایک جسم کی مانند تھی، اب بکھرے ہوئے ذرّوں کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے بیانات تو ہیں، مگر ان میں حرارت و غیرت کا وہ رنگ مفقود ہے جو کبھی صلاح الدین ایوبیؒ کے دل میں موجزن تھا۔ قوموں کی غیرت اس وقت جاگتی ہے جب دلوں میں ایمان زندہ ہو، مگر آج ایمان کمزور اور مفادات غالب ہیں۔
اقوامِ عالم کی دوغلی پالیسی نے بھی اس زخم کو ناسور بنا دیا ہے۔ مظلوم کے لیے انصاف کے دروازے بند اور ظالم کے لیے تمام راہیں کھلی ہیں۔ عالمی میڈیا جھوٹ کی نقاب اوڑھے ہوئے ہے، حقائق مسخ کر کے ظلم کو دفاع کا نام دیا جا رہا ہے۔ امّت کے نوجوان اپنے دلوں میں سوال لیے پھر رہے ہیں کہ ہم کب جاگیں گے؟ کب اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں گے؟ کب قبلۂ اول کی آزادی کے لیے عملی قدم اٹھائیں گے؟ یہ سوالات ہر صاحبِ ایمان کے دل میں طوفان برپا کیے ہوئے ہیں، مگر بدقسمتی سے یہ طوفان ابھی تک عمل کے دریا میں نہیں بدلا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔(سورۃالحجرات:10)
اس آیت مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ تمام مسلمانوں میں باہمی اخوت کا رشتہ ہے، اسی رشتے کے ناطے مسلمانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے فلسطینی مسلمان بھائیوں اور بہنوں کا اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہ کر ساتھ دیں، ان کی ہر طرح اخلااقی،جانی،مالی اعانت ونصرت کریں۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد لازم ہے‘‘۔(سورۃالانفال: 72)
مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ وقتی آزمائش جتنی ہی سخت کیوں نہ ہو، لیکن ایک دن حق اور دین اسلام غالب آ کر رہتا ہے ارشاد باری ہے:’’اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کرو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو‘‘۔(سورۂ آلِ عمران: 139)
احادیث ِمبارکہ سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب کوئی ایک مسلمان تکلیف میں ہویا مصیبت کے اندر ہو، تو دیگر مسلمانوں کو بے پروا ہو کر نہیں رہنا چاہیے، بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے، ان کی مدد واعانت اور نصرت میں اپنا حصہ لینا چاہیے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)
دوسری جگہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مومنوں کی آپس کی محبت، رحم دلی اور ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بیداری اور بخار کے ساتھ اس کا احساس کرتا ہے۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم)ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔(صحیح مسلم)
فلسطین کا المیہ صرف ایک خطّے کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری امّتِ مسلمہ کے ایمان کا امتحان ہے۔ آج جب قبلۂ اول پر ظلم و بربریت کی آندھیاں چل رہی ہیں تو ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ امّت کو سب سے پہلے اپنے اندر ایمان کی حرارت اور غیرتِ دینی کو بیدار کرنا ہوگا۔ زبانی ہمدردی کے بجائے عملی اقدامات ضروری ہیں۔
دعا، صدقہ اور مدد کے ساتھ ساتھ فکری و اخلاقی بیداری بھی ناگزیر ہے۔ ہمیں اپنے گھروں، مدارس، مساجد اور اداروں میں فلسطین کے مسئلے کو زندہ رکھنا چاہیے ،تاکہ نسلِ نو کو احساس رہے کہ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ سیاسی اختلافات سے بالا ترہو کر ایک امّت بن کر سوچیں۔ امّت کا اتحاد ہی وہ قوت ہے جو ظلم کے مقابلے میں ڈھال بن سکتی ہے۔
اہلِ ایمان کو اپنی دعاؤں میں فلسطین کے مظلوموں کو یاد رکھنا چاہیے اور عالمی سطح پر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ سوشل میڈیا، قلم اور تقریر کے ذریعے حق کا پیغام عام کرنا بھی جہاد کی ایک صورت ہے۔ حکمران طبقے پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ امّت کے مفاد کو ذاتی و سیاسی مفادات پر ترجیح دیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اگر امّت نے ایمان، اتحاد اور عمل کا راستہ اختیار کر لیا تو فلسطین کی آزادی کوئی خواب نہیں رہے گی۔ یہ جدوجہد محض زمین کی نہیں، ایمان اور غیرت کی بقا کی جنگ ہے۔