تفہیم المسائل
سوال: ایک عرصہ قبل میں نے اپنا مکان اپنی بہو کے نام کردیا تھا، وجہ یہ تھی کہ میرے بیٹے نے دوسری شادی کرلی تھی اور پہلی بیوی سے تعلق ختم کردیا تھا، ہم نے محض اس لیے کیا کہ بہو اور بچے ہمارے گھر سے نہ جائیں اور اسی گھر میں سکون واطمینان سے رہیں، مکان کے کاغذات میرے پاس ہی ہیں۔
میرے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، ایک بیٹے نے حصہ لینے سے منع کردیا ہے، وہ بیرون ملک مقیم ہے، میں یہ چاہتا ہوں کہ اس مکان کو اپنی زندگی میں اپنی بیٹیوں اور صرف بہو کے نام کردوں اور اس بیٹے کو کچھ نہ دوں، کیا شرعاً میں ایسا کرسکتا ہوں ؟ (ابراہیم ، فیصل آباد )
جواب: آپ کے بقول آپ نے اپنا مکان اپنی بہو کے نام کیا، لیکن اُسے قبضہ نہیں دیا، مکان کے کاغذات بدستور آپ کے پاس ہیں، محض نام کرنے سے وہ مکان کی مالک نہیں ہوں گی جب تک کہ انھیں اس کا قبضہ نہ دے دیاجائے۔ شرح مَجَلَّۃ الأَحْکَام میں ہدایہ ، جَوَاہَرالْفِقْہ اور ابوسعود کے حوالے سے مذکور ہے: ترجمہ:’’ہبہ کی ہوئی چیز (Gifted Item) پر موہوب لہٗ(Donee)کی مِلکیت کاثابت ہونا اُس شے پر موہوب لہٗ کے قبضہ کرنے پر موقوف ہے، یہی وجہ ہے کہ قبضے سے پہلے ہبہ کا کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا بلکہ وہ مالِ موہوب بدستور واہب (Donor)کی مِلکیت میں باقی رہتا ہے ،(جلد2،ص:398، مطبوعہ: دارعالم الکتب،سعودیہ)‘‘۔
جائیداد کو ہبہ(Gift) کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہبہ کرنے والا ہبہ شدہ چیز کو موہوب لہٗ کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل قبضہ و تصرُّف بھی دیدے، چنانچہ ہمارے عرف میں غیر منقولہ اَموال پر قبضے کا مفہوم یہ ہے کہ رجسٹریشن کے کاغذات دوسرے کے نام منتقل کرکے تمام کاغذات اس کے سپرد کردیے جائیں، دیہی علاقو ں میں یہ انتقال محکمۂ مال کے کاغذات میں اور تحصیلدار یا مختار کاریہ کام کرتے ہیں اور کراچی میں رجسٹرار کے ہاں باقاعدہ ہبہ کی دستاویز (Gift Deed) کی رجسٹری ہوتی ہے اور اس کی باقاعدہ فلم بھی بنتی ہے تاکہ آئندہ نزاع کی گنجائش نہ رہے۔
عبدالرحمن بن محمد شیخی زادہ حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اشیائے منقولہ میں کامل قبضے سے مراد اُس شے کے مناسب قبضہ مراد ہے اور اشیائے غیر منقولہ مثلاً جائیداد میں بھی اُسی کے مناسب قبضہ مراد ہے، پس ہبہ شدہ مکان کی چابی لے لینا کامل قبضے کے حکم میں ہے، (مَجمَعُ الأَنھر، جلد2،ص:354)‘‘۔
پس آپ مذکورہ مکان کو اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو دینا چاہتے ہیں، تو تمام اولاد یعنی بیٹے اور بیٹیوں کو برابر برابر دیں، جتنا حصہ آپ کے بیٹے کو ملے گا، وہ اپنی بہو (یعنی اُس بیٹے کی بیوی ) کو دیدیں اور اس بار محض نام نہ کریں بلکہ ہر ایک کو اس کا قبضہ دیدیں، اگر پورشن کی صورت میں ممکن نہ ہو تو مکان فروخت کرکے تقسیم کریں۔ آپ کا جو بیٹا بیرونِ ملک ہے اور ہبہ شدہ جائیداد میں سے حصہ لینے سے انکاری ہے تو اس سے تحریر لے لیں تاکہ بعد میں کوئی تنازعہ یا بدگمانی پیدانہ ہو۔
زیادہ بہتر یہ ہے کہ پہلی بہو کے نام کے ساتھ اس کے بچوں کے نام بھی ڈال دیں اور ان کو اُن کا سرپرست بنادیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بچوں کے بالغ ہونے تک ان کی والدہ ان کے حصے میں تصرُّف نہیں کرسکیں گی اور ان کا حصہ محفوظ رہے گا۔اصولی طور پر تو ہبہ میں ساری اولاد (بیٹے بیٹیوں) کو برابر حصہ دینا چاہیے، لیکن چونکہ ایک بیٹا خود برضاورغبت اپنے حصے سے دستبردار ہوچکا ہے، اس لیے آپ پر اس کا کوئی مؤاخذہ نھیں ہوگا۔
(واللہ اعلم بالصواب)
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
darululoomnaeemia508@gmail.com