مفتی محمد داؤدرحمانی
اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کو افراط و تفریط سے پاک، ایک معتدل دین بنایا ہے۔ جو عدل و انصا ف اور حکمت و دانائی پر مشتمل ہے۔ اسلام نے جہاں عبادات میں اعتدال کا راستہ اختیار کیا ہے، وہیں معاملات اور قوانین میں بھی ایک عادلانہ نظام وضع کیا، تاکہ انسانی معاشرہ امن و سکون، محبت و اخوت اور عدل و انصاف کا گہوارہ بن سکے۔
کسی کو ناحق قتل کرنا ایک سنگین اور قبیح جرم ہے۔ سورۂ مائدہ میں ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ سورۂ نساء کی آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ جو مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
رسول اللہ ﷺکے اس شنیع جرم سے متعلق بےشمار ارشادات موجود ہیں، حتیٰ کہ صحیح مسلم میں ہے بعض جنگوں میں غلط فہمی میں کچھ لوگ قتل ہوگئے، رسول اللہ ﷺنے اس موقع پر بھی سخت ناراضی کا اظہار فرمایا اور فرمایا :تم نے اس کا دل چیر کا دیکھ لیا ہوتا کہ وہ کلمہ پڑھنے میں سچے تھے یا نہیں، اور بار بار یہ جملہ ارشاد فرماتے رہے۔
اسلام نے اس جرم کے انسداد اور معاشرے کو اس کی ہلاکت خیزیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک جامع، متوازن اور معتدل قانون پیش کیا، جس میں نہ صرف مقتول کے ورثاء کے حقوق کا لحاظ رکھا گیا ہے، بلکہ قاتل کو بھی ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
دیگر آسمانی مذاہب میں اس سلسلے میں احکامات جدا تھے ۔ دینِ موسوی میں قاتل کو لازمی طور پر قتل کرنا متعین تھا، دینِ عیسوی میں قاتل کو لازمی طور پر معاف کرنا ضروری تھا، قصاص یا دیت کا کوئی حکم موجود نہ تھا۔
اسلام نے دونوں انتہاؤں کے درمیان ایک معتدل راہ اختیار کی اور مقتول کے ورثاء کو تین اختیارات عطا کیے۔1۔ قاتل سے قصاص لینا۔2۔ مالی مصالحت کے طور پر دیت (خون بہا) لینے پر راضی ہونا۔3۔ بلا معاوضہ قاتل کو معاف کرنا۔ سورۂ بقرہ کی آیت 187 میں یہی ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی واضح ارشاد ہے کہ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لیں، یا دیت پر راضی ہوں یا قاتل کو معاف کر دیں۔
سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے :” رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جس شخص کو خون (یعنی کسی کے قتل) یا زخم (جسمانی نقصان) کا نقصان پہنچا ہو، تو وہ تین چیزوں میں سے کسی ایک کا اختیار رکھتا ہے (یا تو وہ قاتل و جانی سے قصاص لے، یا اسے معاف کر دے، یا پھر اس سے دیت (خون بہا) وصول کرلے، پھر اگر وہ ان تین میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے بعد چوتھے (یعنی ناجائز انتقام یا زیادتی) کی طرف بڑھے، تو لوگوں کو چاہیے کہ اسے روکیں۔“
غرض قتل کے سلسلے میں اسلام ایک متوازن، عادلانہ اور جامع نظامِ قانون فراہم کرتا ہے، جس میں مقتول کے اولیاء (ورثاء)کو قصاص لینے، دیت قبول کرنے یا قاتل کو معاف کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ علاوہ ازیں قاتل نےاگرچہ قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، تب بھی اسلام مقتول کے اولیاء کو قاتل پر ظلم و زیادتی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، بلکہ انصاف اور رواداری کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عفو و درگزر کی ترغیب بھی دیتا ہے۔
مقتول کے اولیاء کو قاتل سے قصاص لینے کا حق دیا ہے لیکن باجماعِ امّت انہیں اپنا یہ حق نہیں کہ خود ہی قاتل کو مار ڈالیں، زیادتی و انتقام کی فضا بنے، بلکہ اس حق کے حاصل کرنے کے لیے مسلمان حاکم یا اس کے کسی نائب کا حکم ضروری ہے، مقتول کے اولیاء اپنے غصّے میں مغلوب ہو کر سزا دینے میں زیادتی کے مرتکب بھی ہوسکتے ہیں، اس لیے حقِ قصاص حاصل کرنے کے لیے اسلامی حکومت کی طرف رجوع کرنا لازم قرار دیا۔
اسی طرح مقتول کے اولیاء (یعنی جو اس کے شرعی وارثین ہوں، ان) میں سے اگر کوئی ایک فرد بھی اللہ کی رضا کے لیے قاتل کو معاف کردے، یا اس سے خون بہا لینے پر راضی ہوجائے تو قاتل سے قصاص ساقط ہوجاتا ہے، باقی ورثاء اس سے قصاص لینے کا حق نہیں رکھیں گے، ایسی صورت میں انہیں صرف دو اختیار ہوں گے: یا تو وہ بھی معاف کردیں یا پھر مال پر راضی ہوجائیں۔ جیساکہ کتب فتاویٰ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
دینِ اسلام نے جہاں مقتول کے اولیاء کو قاتل سے قصاص لینے کا حق دے کر معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی ضمانت دی ہے، وہیں انہیں قاتل کو معاف کرنے کا اختیار بھی دے رکھا ہے، تاکہ دلوں میں نفرت و عداوت کے بجائے باہمی بھائی چارگی اور محبتیں پیدا ہوں۔
بالخصوص جب قاتل اپنے عمل پر نادم و پشیمان ہو، اور اپنے عمل سے توبہ تائب ہوچکا ہو، تو ایسی صورت میں اسلام نے معافی و درگزر کو افضل قرار دیا ہے اور اس کی ترغیب بھی دی ہے۔ خود رسول اللہ ﷺسے کئی مواقع پر یہ ثابت ہے کہ آپ نے بعض خطاکاروں کی پردہ پوشی کا حکم دیا، ایک صحابی سے خطا کا صدور ہوا، معاملہ دربارنبوی میں پیش ہوا، اس پر شرعی حد جاری ہوئی، آپ ﷺنے ان کے سرپرست سے فرمایا: "اگر تم اسے اپنے کپڑے میں چھپالیتے (یعنی اس کی پردہ پوشی کرتے )تو تمہارے لیے بہتر تھا"،اس لیے جو عادی مجرم نہ ہو، اپنی خطا پر نادم ہو، اسے معاف کرنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔
معجم طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ چند لوگوں کو قیامت کے دن یہ اختیار ہوگا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہیں داخل ہوں ، ان میں ایک وہ آدمی بھی ہوگا جو قاتل کو معاف کردے ۔ سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے رسول اللہ ﷺنے ایک مقتول کے اولیاء کو قاتل کے بارے میں قصاص، دیت اور معافی کا اختیار دیا، پہلے پہل مقتول کے اولیاء معاف کرنے پر راضی نہ تھے، تیسری بار میں رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: خبردار! اگر تم اسے معاف کر دو تو (اس کے گناہوں کے ساتھ) وہ تمہارا اور تمہارے مقتول کا گناہ بھی لے جائے گا (یعنی تمہارے لیے بھی کفارہ بنے گا)، چنانچہ اُس شخص (مقتول کے ولی)نے اسے معاف کر دیا، اور آپ ﷺنے قاتل کو آزاد فرما دیا۔راوی کہتے ہیں: پھر میں نے اسے (قاتل کو) دیکھا کہ وہ اپنی چمڑے کی رسی گھسیٹ رہا تھا (یعنی وہ آزاد ہوکر جا رہا تھا)۔“
علامہ آلوسی نے اپنی مشہور تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ:”اللہ تعالیٰ کے فرمان: " ”پھر جو شخص اسے صدقہ (یعنی معاف) کر دے، تو وہ (صدقہ کرنا) اس کے لیے کفّارہ بن جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو قصاص کا حق رکھنے کے باوجود مجرم کو معاف کر دے، وہ معافی اس شخص کے لیے کفارہ بن جاتی ہے (یعنی اس کے گناہوں کا ازالہ کر دیتی ہے)۔ تو قرآن نے معاف کرنے کو ”تصدق“ (صدقہ دینے) سے تعبیر کیا، تاکہ اس کی ترغیب اور فضیلت خوب واضح ہوجائے۔
فقہ وفتویٰ کی معروف کتاب فتاویٰ شامی میں ہے کہ مقتول کے ولی کا معاف کردینا مال پر صلح سے افضل ہے اور مال پر صلح کرلینا قصاص سے افضل ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے قتلِ ناحق جیسے سنگین جرم کے انسداد کے لیے جو نظامِ قانون دیا ہے، وہ دنیا کے کسی اور مذہب یا قانون میں نہیں ملتا۔ اس نے مقتول کے ورثاء کو عدل (قصاص)، صلح (دیت) اور فضل (معافی) کے تین راستے دیے۔ یہی اسلام کی عدل و حکمت پر مبنی اعتدال پسندی ہے۔ اسلام کا یہ قانون جہاں ایک طرف مجرم کو سزا دیتا ہے، تاکہ معاشرے میں جرائم کا سدّباب ہو، وہیں دوسری طرف عفو و درگزر اور صلح و محبت کی راہ بھی کھولتا ہے۔
یہی وہ حسین امتزاج ہے جو اسلام کو امن، رحمت اور انسانیت کا حقیقی دین بناتا ہے، اور اسے دیگر ادیان سے ممتاز کرتا ہے۔ لہٰذا اگر مقتول کے اولیاء قاتل کو معاف کریں یا باہمی مصالحت و رضامندی سے قاتل سے قصاص کے عوض خون بہا وصول کریں، تو شریعت میں انہیں اس کی اجازت ہے۔ اس میں اولیاءِ مقتول کے لیے کسی قسم کا ہرگز عار نہیں ہے، بلکہ یہ معافی ان کے لیے گناہوں کا کفّارہ اور دنیا و آخرت میں عزت و رفعِ درجات کا باعث ہوگا۔