مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی
مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ بیت المقدس سے مسلمانوں کا بڑا گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔ یہ رشتہ کئی اہم پہلوؤں مثلاً عقائد، عبادات، تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر مشتمل ہے۔ بیت المقدس کی یہ بابرکت اور مقدس سرزمین مسلمانوں کے لئے شروع سے ہی عقیدتوں کا مرکز رہی ہے، جو اسلام کے آغاز سے ہی مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو سب سے اہم ترین عبادت نماز کے لیے قبلہ بنانے، نماز پڑھنے اور دیگر فضیلتوں کے بیان سے واضح ہوتا ہے۔
قرآن مجید، احادیثِ نبویہ، سیرت اور تاریخ کے مطالعے سے مسلمانوں اور بیت المقدس کے یہ تمام رشتے سامنے آتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ دینی رشتے کے چند پہلو ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں کے عقیدے کی رو سے زمین کا یہ خطہ ان بے شمار انبیاءؑ کا قبلہ ہے جو نبی کریم ﷺ سے پہلے رہے۔ خود نبی کریم ﷺ کا پہلا قبلہ یہی ہے۔ خانۂ کعبہ سے پہلے آپﷺ اسی طرف اپنا روئے مبارک کر کے اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کرتے تھے۔ نماز کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ ماہ تک رخ کر کے نماز پڑھی۔
یعنی ایک سال اور پانچ ماہ تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا، جیسا کہ سیّدنا برا بن عازبؓ بیان کرتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر ہمارا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ (صحیح مسلم 525، صحیح بخاری 4492)
لیکن جب درج ذیل آیت نازل ہوئی:ترجمہ: ہم آپ ﷺکے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم آپﷺ کو اسی قبلے کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ ﷺ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو۔ (سورۃ البقرۃ 144)تو اس آیت کے نازل ہونے کے بعد خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ بن گیا، لہٰذا بیت المقدس مسلمانوں کا اوّلین قبلہ شمار ہوتا ہے۔
مسجد اقصیٰ میں 250 نمازوں کا ثواب
نماز دین کا اہم ستون ہے، رسول اللہ ﷺنے مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں : انہوں نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا کہ آیا بیت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں افضل ہے؟
تو رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز وہاں کی چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔(صحیح الترغیب 1179)چونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، لہٰذا مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر ہوا۔
ثواب کی نیت سےمسجد اقصیٰ کا سفر
رسول اللہ ﷺنے لوگوں کو عبادت کی نیت اور ارادے سے مسجد اقصیٰ کی زیارت کی ترغیب دی ہے، اور درج ذیل فرمان کے ذریعے مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام اور مسجد نبوی سے جوڑ دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یعنی مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دنیا کی کسی بھی جگہ کی طرف ثواب اور برکت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ (رواہ البخاری 1189 و مسلم 1397)
نماز پڑھنے کی بہترین جگہ
رسول کریم ﷺنے مسجد اقصیٰ کو نماز پڑھنے کی بہترین جگہ قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے مسجد اقصیٰ کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے، حشر نشر کی سرزمین ہے، اور عنقریب لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑے کے برابر جگہ یا آدمی کی کمان کے برابر جگہ، جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اس کے لئے ساری دنیا کی چیزوں سے بہتر اور محبوب ہو گی۔(صحیح الترغیب 1179)
مسجد اقصیٰ کی زیارت
رسول اللہ ﷺنے مسجد اقصی کی زیارت کی فضیلت بیان کی ہے، چنانچہ سیدنا ابو ذرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسّی کے بقدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو، جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ لے، اگر اتنی جگہ بھی مل گئی تو اس کےلیے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا پوری دنیا سے زیادہ افضل ہو گا۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 2902)
مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی منّت ماننا
رسول اللہ ﷺنے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر یا منت ماننے کو جائز اور درست قرار دیا ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپﷺ کے ہاتھوں مکہ مکرمہ کو فتح کروا دیا تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گا۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: یہیں نماز پڑھ لو۔ اس نے پھر سوال کیا اورآپ ﷺنے پھر یہی جواب دیا۔ اس نے پھر سوال کیا تو آپ ﷺنے فرمایا: تمہاری مرضی۔ (صحیح ابی داؤد 3305)
مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب
بیت المقدس شہر کے رہنے والے کو مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر کا ثواب ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہے گا اور اپنے دشمنوں کو مقہور کرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی، الاّ یہ کہ بطور آزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! یہ لوگ کہاں کے ہوں گے؟ تو نبی کریم ﷺنے جواب دیا: یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 4/599)
گناہوں کی معافی
رسول اللہ ﷺنے بیت المقدس میں نماز کو گناہوں کی معافی کا سبب قرار دیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں: جب سلیمان بن داؤد علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں: (1) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست) ہوں۔ (2) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے۔ (3) یا اللہ! جو آدمی اس مسجد اقصیٰ میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دو دعائیں تو قبول فر مالی ہیں (کہ ان کا ذکر تو قرآن مجید میں موجود ہے) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کر لی گئی ہو گی۔ (صحیح ابن ماجہ 1164 و صحیح الترغیب 1178)
برکت کی دعا
بیت المقدس اس لحاظ سے بھی بابرکت اور مبارک خطہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارضِ شام کا نام لے کر برکت کی خصوصی دعا کی ہے۔ بیت المقدس ارضِ شام کا ہی علاقہ ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے شام کےلیے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما۔ (صحیح البخاری 7094)
مذکورہ بالا تمام احادیث کا تعلق مختلف دینی عبادات اور اس کے ثواب سے ہے، اور ان ساری عبادتوں کا تعلق بیت المقدس سے جڑا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا بیت المقدس سے عبادت، بندگی کا ایک مضبوط روحانی تعلق اورانمٹ رشتہ ہے جو قیامت تک کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ جب تک کائنات میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے، عبادت کا یہ رشتہ بھی قائم و دائم رہے گا۔
بیت المقدس سے تاریخی رشتہ
جب 15 ہجری یا 638 عیسوی میں حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراحؓ کی قیادت میں اسلامی فوج نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ بیت المقدس شہر میں داخل ہوئے۔ کیوںکہ عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس نے یہ شرط رکھی تھی کہ بیت المقدس کی چابیاں لینے کےلیے عمر فاروقؓ خود بیت المقدس تشریف لائیں۔ چنانچہ کنیسۃ القیامہ میں عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس اور عمائدین روم نے بیت المقدس آمد پر سیدنا عمر فاروقؓ کا استقبال کیا اور بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کر دیں۔
جب سیدنا عمر بن خطابؓ بیت المقدس پہنچے تو آپ نے بیت المقدس کے باشندوں سے ایک معاہدہ کیا، جو عہدِ عمریہ کے نام سے تاریخِ اسلام میں مشہور ہے۔ (فتوح البلدان، للبلاذری ص 144)فتح بیت المقدس اور معاہدہ عمریہ طے پانے تک بیت المقدس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی تعلقات موجود نہیں تھے۔
معاہدۂ عمری تاریخ میں سب سے صاف واضح اور مشہور دستاویز ہے۔ (تاریخ طبری ج 3 ص 6.8/6.9)یہ معاہدہ بیت المقدس میں جابیہ کے مقام پر طے پایا۔ اس تاریخی معاہدے پر سیدنا خالد بن الولیدؓ، عمرو بن العاصؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ اور معاویہ بن ابی سفیانؓ نے دستخط کیے۔(فتوح البلدان ص 144)
مسلمانوں کی طویل حکومت
عربوں اور مسلمانوں نے اس شہر پر فتح عمری سے لے کر صدیوں حکومت کی، پھر وہ وقت آیا کہ جب بیت المقدس 88 سال کے عرصے تک یہودیوں کے قبضے میں رہا۔ پھر صلاح الدین ایوبی ؒ نے 583 ہجری بمطابق 1187 میں یہود کے جبر و تسلط سے آزاد کر دیا۔ عربوں اور مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اسلام کی برکت سے بیت المقدس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی، امن و امان کی بحالی، استحکام، اور شہریوں کی جان و مال کی سلامتی اور تحفظ ممکن ہوا۔
امّتِ مسلمہ کا فریضہ ایک طرف اس عظیم مسجد اور اس علاقے کے یہ فضائل اور مراتب ہیں، جس کا حق یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری اور افضل امّت کا اعزاز پانے والی امّتِ مسلمہ اس مقدس مسجد کی قدر کرتی، اس بابرکت مسجد کو دینی شعائر سے آباد رکھتی، اور ہر قسم کے کفر اور کفریہ تسلط سے پاک رکھتی، لیکن آج اسی ارضِ مقدس کے مسلمان سخت آزمائشوں کا شکار ہیں، انہیں وہاں ہر قسم کے تکلیف دِہ حالات کا سامنا ہے، یہودی ظالم انہیں بلڈوزروں سے روند رہے ہیں، بچوں کو قتل کر رہے ہیں، گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کی جا رہی ہے، یہ حالات تمام مسلمان رہنماؤں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات اور ملکی مفادات سے بالاتر ہو کر متفق و متحد ہو جائیں، اور ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے غم اور ان کے درد کو محسوس کریں اور جہاد کا پختہ عزم اور اعلان کریں، تاکہ ان کفار کی جارحیت کا منہ موڑ جواب دیا جائے ؎
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
اگر ہم سچے اور پکے مسلمان بن کر ایک جسم کی مانند ہو جائیں، جیسا اللہ کے پیارے نبی ﷺکا فرمان ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر ’’تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں‘‘ والا قصہ بن جائے گا۔
یا اللہ! مسجد اقصیٰ کو ظالموں، سرکشوں اور غاصبوں کے ناپاک قبضے سے پاک فرما، فلسطینی مسلمانوں کے ضعف اور کمزوری کو ختم فرما، انہیں قوت عطا فرما، ان کے دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام فرما۔( آمین یا ربّ العالمین)