• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8 فروری 2024ء کے الیکشن میں سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے سمجھنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ یہ الیکشن ہمیں استحکام، خوشحالی اور امن کی طرف لے جا سکتا ہے۔ دوسری صورت میں وہی ہو گا، جو آج تک ہوتا چلا آ رہا ہے۔ تعصب، تقسیم، بغض و عناد اور باہم متصادم جتھے۔ اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ ملک کا سب سے مقبول سیاستدان جیل میں پڑا ہے۔ اس کے نکاح نامے غلط ثابت کرکے تذلیل سے گزارا جا رہا ہے۔ نوجوان اس بیانیے کو کسی صورت ماننے کو تیار نہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ الیکشن نتائج نہیں، جو عمران خان کے آزاد ہوتے ہوئے، بلے کے نشان پر الیکشن لڑنے سے حاصل ہونا تھے۔ بہرحال تحریکِ انصاف اب پھر اسمبلیوں میں واپس آئے گی اور اس طرح کا انتقام شاید اب جاری نہ رہ سکے، جو ہم پچھلے نو ماہ سے دیکھ رہے ہیں۔ جو الیکشن کمیشن 90 دن کی آئینی مدت میں الیکشن نہ کرا سکا، اس نے مقبول ترین جماعت کے الیکشن مسترد کرتے ہوئے بلے کا نشان چھین لیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ یوں یہ الیکشن پہلے دن سے متنازع بنا دیا گیا۔ پارٹیوں میں اگر صحیح الیکشن ہو رہے ہوتے تو باچا خان، مفتی محمود، شریف اور بھٹو خاندان کی تیسری اور چوتھی نسل پارٹی کو لیڈ کر رہی ہوتی؟

الیکشن کمیشن کی دوسری ناکامی یہ ہے کہ 9فروری کی دوپہر ہو چکی اور کوئی جامع نتیجہ ہمارے سامنے نہیں۔ یہ اس ملک کا حال ہے جو 62ہزار ارب روپے کا مقروض ہے۔ اسے عوام کی اجتماعی رائے سے قیادت چننے نہیں دی جا رہی۔ شریف اور زرداری خاندان، ابھی 2021ء تک اسٹیبلشمنٹ جن کی کرپشن کے ثبوت خود میڈیا کو دیا کرتی تھی، ان کے کیسز معاف کر کے ایک بار پھر تخت پہ بٹھانے کی کوشش ہے۔ جیتنے والوں کا تعلق اگر نون لیگ سے ہوتا تو 8فروری کی رات ہی وکٹری سپیچ سارے چینلز سے نشر ہو جاتی۔ الیکشن سے قبل عمران خان کی بیوی کے سابق شوہر کو اس کے خلاف میدان میں اتارا گیا۔

ہماری فوج کا قابلِ قدر کردار سرحدوں پر اس کی دلاوری ہے۔ وہ بھارتی فوج کو پاکستان پہ چڑھ دوڑنے سے روکتی ہے۔ 65ء کی جنگ لڑتی ہے۔ کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرتی ہے۔ ابھینندن کا جہاز گراتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہولناک جنگ جیتتی ہے۔ اس کا یہ کردار ہماری سر آنکھوں پر۔ اسٹیبلشمنٹ کا دوسرا کردار وہ ہے، جس میں بھٹو کو اس نے سیاست میں اتارا اور پھر پھانسی پہ لٹکایا۔ اس کانتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ پھر بھٹو خاندان کے خلاف نواز شریف کو میدان میں اتارا گیا۔ کبھی نواز شریف کو تخت پہ بٹھایا، کبھی جیل میں ڈالا۔ کبھی جہاز سے باندھ کر جدہ پہنچایا گیا۔ آج پھر اسی نواز شریف کو واپس لا کر تخت پہ بٹھانے کی کوشش کی گئی۔ پی ڈی ایم میں بھٹو اور شریف خاندان اکٹھا کر دیا۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کو اب سیاست سے کنارہ کشی نہیں اختیار کر لینی چاہئے؟

اس وقت جب بھارت چاند پہ پہنچ چکا ہے اور جہاں الیکٹرانک ووٹنگ ہوتی ہے، ہم دو دن تک الیکشن نتائج کا اعلان ہی نہیں کر سکتے۔ وجہ؟ تاکہ تحریکِ انصاف کو قتل کیا جا سکے۔ ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کو دیوار سے لگانے کا نتیجہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے دور میں ڈالر اور پٹرول کی قیمتیں قریب دو گنا ہو گئیں۔ مجھے جنرل حمید گل مرحوم نے بتایا تھا کہ نواز شریف کو ہم نے ایک بھولا بھالا نوجوان سمجھ کرمنتخب کیا تھا۔ آئی جے آئی میں، بے نظیر مخالف سیاستدانوں میں پیسے بانٹے گئے۔ عمران خان کو پہلے 2018ء کے الیکشن میں سپورٹ کیا اور پھر اس پر توشہ خانہ، سائفر اور عدت میں نکاح جیسے مقدمے بنوائے۔اسٹیبلشمنٹ ہر الیکشن میں یہ اندازہ لگاتی ہے کہ کس کے الیکشن جیتنے کا چانس زیادہ ہے۔ پھر وہ اس سے معاملات کرتی ہے۔ عمران خان نے جب 2018ء میں فوج سے ڈیل کی تو میں نے کپتان پر بڑی تنقید کی۔ آج مگر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان یہ کام نہ کرتا تو جنرل قمر باجوہ نواز شریف سے ہاتھ ملا لیتے۔ سر تسلیم خم نہ کرنے پر الٹا عمران خان کے دشمن ہو جاتے۔ نواز شریف کو پاکستان سے بھگانے میں بھی جنرل باجوہ نے بھرپور کردار ادا کیا۔ جواباً جنرل قمر باجوہ کو ایکسٹینشن دلانے میں نواز شریف نے ان کی مدد کی اور زرداری صاحب نے بھی۔

جس الیکشن پہ اس غریب اور مقروض قوم کے 47ارب روپے خرچ ہوئے، اسے دو دن تک نتائج ہی نہیں مل رہے۔ اس لیے کہ تجربے کرنیوالوں کو اپنی جیب سے تو کچھ نہیں دینا پڑتا۔ یہ 47ارب ان سے وصول کیے جائیں تو آئندہ ایسا نہ ہو۔ رہے جہانگیر ترین اور پرویز خٹک، تو میں الیکشن سے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ ان کے ساتھ چوہدری نثار کی جیپ والا حال ہونا ہے۔ پیپلز پارٹی نون لیگ سے بہتر رہ گئی ہے۔ نون لیگ کا حال تو یہ ہے ۔’’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ...نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے‘‘

اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں اور عوام، تینوں کو اپنی ادائوں پہ غور کرنا چاہئے۔ تحریکِ انصاف سے بلے کا نشان چھین کر بہت بڑی زیادتی کی گئی۔ 71ء کے سانحے سے سبق نہیں سیکھا گیا۔ عمران خان کو بھی ملکی مفاد میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔نواز شریف اب گھر کے ہیں اور نہ گھاٹ کے۔ اب فرار ہونا بھی اتنا آسان نہیں ہو گا۔ عمران خا ن کے خلاف ٹھوس کرپشن کا ایک بھی کیس نہیں۔

تازہ ترین