(گزشتہ سے پیوستہ)
پروفیسر ڈاکٹر فقیر حسین ساگا مرحوم نے جس مور ڈانس کا آغاز کیا تھا وہ مور ڈانس آج بھی مقبول ہے۔ڈاکٹر فقیر حسین ساگا اپنےا سٹوڈنٹس میں بڑے مقبول تھےاور ہنس مکھ تھے۔مگر اپنے جواں سال بیٹے کی موت کے بعد وہ مرجھا گئے تھے۔پھر کسی نے ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی ہم سے ان کا بڑا تعلق تھے۔ ہمارا گھر چونکہ گھوڑا اسپتال کے تیسرے گیٹ کے تقریبا سامنے تھا چنانچہ ہمارا گھوڑا اسپتال اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ خیر اس وقت یہ سارا علاقہ لاہور کے تمام علاقوں سے صاف ستھرا اور ایلیٹ کلاس کا تھا قریب ہی حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک بھی ہے۔ قطب روڈ کے ساتھ ساتھ کھیت تھے اور گھوڑا اسپتال کے پچھلی طرف بھی کھیت تھے ہم کبھی ان کھیتوں کی پگڈنڈی پر سائیکل چلا کر راوی دریا جایا کرتے تھے اور کشتی رانی کیا کرتے تھے ہائے کیا دل فریب و خوبصورت زمانہ تھا ہم نے چاند کی چاندنی میں بھی کشتی رانی کی ہے۔ اب کسے پتہ اور کون یاد کرے گا۔ اس حسین زمانے کو۔ اس حسین زمانے میں کئی خوبصورت یادیں ہیں کسی کے پیار نے ہمارا لاہور کے ساتھ پیار کوآ ج بھی زندہ رکھا ہوا ہے جس سے پیار ہے وہ تو پردیس چلی گئی مگر اپنا پیار لاہور کی ان گلیوں اور کوچوں میں ہمارے لیے چھوڑ گئی۔ خیر بات کہاں سے کہاں چلی گئی آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف، گھوڑا اسپتال کی پچھلی طرف میدان میں کبھی گورے برف بھی بنایا کرتے تھے۔اس طریقے کار پر ہم پھر بات کریں گے رات 10بجے کے بعد یہ سارا علاقہ سنسان اور خاموشی میں ڈوب جاتا تھا کبھی کبھار ٹیپ روڈ پر کسی تانگے کے گھوڑوں کی ٹاپ دور تک سنائی دیتی تھی پھر دور کہیں ریڈیو پر محمد رفیع کا انڈین گانا بھی سنائی دیتا تھا ۔آج کی نسل کو ہم جب اس لاہور کے بارے میں کسی یونیورسٹی یا کالج میں جا کر لیکچر دیتے ہیں تو وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمیں دیکھتے ہیں جیسے ہم الف لیلیٰ کی داستان سنا رہے ہیں،آج ہماری حکومت راوی دریا کے کناروں پر راوی شہر جو بسانے جا رہی ہے کیا یہ راوی شہر اس لاہور شہر کا مقابلہ کر سکتا ہےچودہ دروازوں کے اندر ہے ارے باباوہ 14دروازوں کے اندر بسنے والا شہر اور اس کے اصل باسی بھی اب دھیرے دھیرے کہیں اور جا کر بس رہے ہیں ثقافتی طور پر لاہور کبھی بہت rich شہرتھا۔2002ءپروفیسر منظور احمد( پرنسپل) پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا (وائس چانسلر) اور پروفیسر ڈاکٹر نسیم احمد( وائس چانسلر) کی کوششوں سے ونٹرنری کالج یونیورسٹی بن گیا اس ادارے کو بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی بنانے میں پروفیسر ڈاکٹر طلعت نصیر پاشاہ کی گراں قدر خدمات ہیں۔ خیر ہم اس گھوڑا اسپتال کے تعمیراتی حسن پر بات کر رہے تھے۔ گھوڑا اسپتال کا آغاز چھجو بھگت کے چوبارے سے ہوا تھا چھجو بھگت کا چوبارہ بھی فنی تعمیر کا ایک نادر نمونہ تھا اس وقت جو موجودہ صورتحال ہےچوبارہ کبھی بھی ایسا نہیں تھا ۔چھجو بھگت کے چوبارہ کی پہلے اور دوسری منزل کی چھت کو دور کوٹھا کہا کرتے تھے۔ تو کسی بدذوق ایم ایس میں ہسپتال نے گرا دیا اس کے بعد ایک اور بدذوق ایم ایس نے جو بھگت کے چوبارے کے ارد گرد تھی اس جگہ اور باغ کی تباہی کر ڈالی اور اس کے ارد گرد ایک این جی او کو مختلف بدصورت عمارت تعمیر کرنے کی اجازت دے دی حالانکہ میو اسپتال کے اندر کئی اور جگہوں پر بھی تعمیرات ہو سکتی ہیں اسی طرح رائے بہادر امرناتھ چیسٹ انسٹیٹیوٹ کی بھی اصل شکل و صورت کو بگاڑ دیا یہ میو اسپتال کا ٹی بی وارڈ ہے میو اسپتال کے اندر بے شمار تاریخی عمارتیں اور کئی جگہوں پر گوروں کے ناموں کی تختیاںآج بھی نصب ہیں پھر کسی ظالم ایم ایس نےلارڈ میو کا مجسمہ جو ہم نے میواسپتال کے گھڑی والے ہال کے اندر دو طرفہ سیڑھیوں کے درمیان ایک زمانے میں خود دیکھا تھا وہ غائب کر دیا گیا آج تک اس تاریخی مجسمے کا پتہ نہیں کہ وہ اب کہاں ہے لاہور میں کئی تاریخی مجسمے تھے ان کے بارے میں آئندہ آپ کو بتائیں گے اب صرف ایک ہی مجسمہ پنجاب یونیورسٹی کے باہرڈاکٹروولنز کا رہ گیا ہے باقی سب مجسمے تو کب کے غائب کر دیئے گئے دوسری طرف علامہ اقبال کا مجسمہ الحمرا ہال میں چند سال پہلے نصب کیا گیا ضرورت اس امر کی ہے کہ لاہور میں دو لوگوں جنہوںنے اس شہر کو خوبصورت بنانے میں قیام پاکستان سے قبل کام کیا تھا اور ان کے مجسمے رکھے ہوئے تھے تو ان کو دوبارہ اپنی جگہوں پر رکھا جائے گھوڑا اسپتال کے اندر لال اینٹوں کی ایک بڑی خوبصورت بہت بڑی پانی کی ٹینکی ہے یہ پانی کی ٹینکی بہت خوبصورت ہے اس کو دیکھنے کے لیے اب تک کئی غیر ملکی بھی آ چکے ہیں ہم خود بھی اس کے فن تعمیر سے بہت متاثر ہیں یقینا ًپورے لاہور میں بلکہ شاید بر صغیر میں اس سے خوبصورت پانی کی ٹینکی کوئی نہیں ہوگی ہم تو یہ کہیں گے کہ بینک آف بنگال کی ملکیت اس لال اینٹوں کی انتہائی خوبصورت ٹینکی کا کوئی ثانی عمارت نہیں 120 برس سے یہ پانی والی ٹینکی کام کر رہی ہے اور پورے گھوڑا اسپتال کو اس سے پانی مل رہا ہے معروف ماہر تعمیرات یاسمین لاری کا تو اب یہ کہنا ہے کہ اس واٹر ٹینک کو جو کہ 120برس سے کام کر رہا ہے اس کو ایک تاریخی ورثہ قرار دینا چاہئے کیونکہ ایسی تعمیرات اب نہیں ہوتیں گوروں نے لاہور میں جتنے بھی تعلیمی ادارے بنائے ان کو لال اینٹ میں ہی تعمیر کیا اور ان عمارتوں کو ان کے لال اینٹ کے اصل رنگ کے ساتھ ہی رکھا یہ عمارت ایک سو بیس برس قدیم ہے مگرآج بھی ان کا تعمیراتی حسن برقرار ہے ہم تو حکومت سے کہیں گے کہ گھوڑا اسپتال میں اسی کی مرکزی عمارت کے علاوہ جو چند ایک پرانی عمارتیں آج بھی اپنی اصل شکل و صورت میں ہیں ان کو محفوظ کر لینا چاہئے بجائے اس کے کہ ان کو گرایا جائے۔ (جاری ہے)