• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکست کے بعد مسلم لیگ(ن)کو سمجھ نہیں آرہی کہ حالیہ انتخابات میں ناکامی کا ذمہ دار کسے قرار دیا جائے؟ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ کھل کر جیت کا جشن منایا جاسکا اور نہ ہی ہار پر سینہ کوبی کی جاسکی ۔ احساس دانش نے شاید ایسی ہی ناقابل بیان کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاـ:

زخم پہ زخم کھاکے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی

آہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں

اس نامراد عشق نے مسلم لیگ(ن) کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔شوق حکمرانی میں سیاست کے بجائے ریاست بچاتے ہوئے برباد ہوگئے اور دل ناداں کی لن ترانیاں دیکھئے چوٹ کھانے کے بعد پھر سے کوئے جاناں کی طرف جانے کی تیاریوں میں مگن ہیں۔مگر یہ معمہ حل نہیں ہوپارہا کہ آخر بنا بنایا کھیل کس نے بگاڑ ڈالا۔گاہے میڈیا پر برستے ہیں کہ ریٹنگ کی دوڑ میں وقت سے پہلے نتائج کا اعلان کرکے لٹیا ڈبودی توبسااوقات دبے لفظوں راولپنڈی سرکارسے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگتے ہیں کہ شاید انہیں اعتبار اُلفت نہیں آیا یا پھر ہمارے اظہار عقیدت میں کوئی کمی تھی کہ بندہ پروری کا حق ادا نہ ہوا؟ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں جو کچھ لکھا، وہ دراصل راولپنڈی سرکار کی سوچ اور فکر تھی۔ یادش بخیر، میں نے خبردار کیا تھا کہ اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے انکے نتائج سے متعلق خفیہ اداروں کے تخمینے کبھی درست ثابت نہیں ہوئے تو کیا اس بار توقعات پوری ہوں گی؟ اور وہی ہوا ،عوام نے ووٹ کی طاقت سے سب کچھ درہم برہم کردیا۔

میرا خیال ہے مسلم لیگ (ن) کو حالیہ انتخابات کے بعد اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ یہ دن کیوں دیکھنا پڑا۔ میڈیا ہو یا اسٹیبلشمنٹ کسی اور کو اپنی غلطیوں کا ذمہ دار قرار دینے کے بجائے خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہئے۔ حالات سازگار ہونے کے باوجود مسلم لیگ(ن) نے انتخابی مہم کا آغاز بہت تاخیر سے کیا، میرا خیال ہے انتخابی مہم ختم ہونے سے ایک ہفتہ پہلے منشور لایا گیا۔ بیشتر رہنما اس زعم میں مبتلا رہے کہ ’’ساڈی گل ہوگئی اے‘‘ اور اپنے ووٹر کو گھر سے باہر نکالنے کی کوشش نہیں کی۔ کارکن بھی اس مغالطے کا شکار ہوئے کہ تحریک انصاف کی کمر توڑ دی گئی ہے، انتخابات کی حیثیت تو محض رسمی کارروائی کی سی ہے، ہماری حکومت آکر رہے گی ،تو پھر مہم چلانے کی کیا ضرورت ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی جتنی کوشش کی جاتی رہی، لوگوں میں ہمدردیاں اُتنی ہی بڑھتی چلی گئیں اور کارکن بھی متحرک و فعال ہوتا چلا گیا۔ پاکستان میں 19کروڑ موبائل فون استعمال ہوتے ہیں، 9کروڑ افراد کو انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، 7کروڑ لوگ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں، یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، ٹوئٹر، فیس بک اور اس طرح کے دیگر پلیٹ فارمز نے دیگر ممالک کی طرح پاکستا ن میں بھی لوگوں کیلئے آنکھ اور کان کا کردار ادا کیا ہے۔ اب لوگ اخبار پڑھنے یا ٹی وی دیکھنے کے بجائے ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے حالات حاضرہ سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کو شروع سے ہی اس شعبہ پر اجارہ داری حاصل رہی ہے اور حالیہ انتخابات میں بھی اپنی آواز اور پیغام لوگوں تک پہنچانے کیلئے اسی میڈیم کو استعمال کیا گیا۔ ووٹ ڈالنے کے دن سے کم ازکم 20دن پہلے مسلسل یہ صورتحال رہی کہ ہر ویڈیو میں پی ٹی آئی کی طرف سے دیئے گئے اشتہار میں بانی پی ٹی آئی نمودار ہوتے اور ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے نکلنے کی اپیل کرتے۔ دیگر سیاسی جماعتیں چونکہ اس میدان میں کئی نوری سال پیچھے ہیں اسلئے انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کو درخور اعتنا نہیں گردانا۔ بالخصوص مسلم لیگ (ن)تو اب بھی پرانے زمانے میں جی رہی ہے ۔جب نوے کی دہائی میں میاں نوازشریف نے مقبولیت حاصل کی تو وہ اپنے ہم عصر سیاستدانوں کے مقابلے میں نیا پن لیکر آئے۔ مثال کے طور پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک دن میں کئی جلسے کرنے ،اخبارات میں نمایاں کوریج کے ذریعے بھرپور انتخابی مہم چلانے اور امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے پہلے سروے کروانے کا رجحان انہوں نے متعارف کرایا۔ مگر اب نہ صرف ان کی جماعت بہت پیچھے رہ گئی ہے بلکہ وہ تحریک انصاف کے مقابلے میں روایتی سیاستدان محسوس ہوتے ہیں۔ مریم نواز شریف نے کچھ بہتری لانے کی کوشش ضرور کی لیکن خوشامدی اور چاپلوس مگر نااہل افراد جنہیں عصر حاضر کے میڈیا کی اہمیت کا اندازہ نہیں ان پر اکتفا کرنے کے باعث یہ حالت ہوگئی ہے۔

تحریک انصاف نے بہت چالاکی سے پہلے یہ تاثر دیا کہ لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا نہیں کی جارہی، ان کے امیدواروں پر ستم ڈھائے جارہے ہیں اور پھر پولنگ ختم ہوتے ہی ابتدائی نتائج کی بنیاد پر یہ بیانیہ بنانے میں کامیاب رہی کہ اس کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدواروں نے بساط الٹ دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نامساعد حالات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اُمیدواروں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن یہ حالات کتنے کٹھن تھے اور کتنی اچھی کارکردگی دکھائی گئی ،اس حوالے سے مبالغہ آرائی کی گئی۔ مسلم لیگ(ن)کی قیادت جو دوتہائی اکثریت کی اُمید لگائے بیٹھی تھی (حالانکہ انتخابی مہم سادہ اکثریت والی بھی نہیں چلائی گئی) جب اسے محسوس ہوا کہ مطلوبہ نتائج نہیں آرہے تو سب دل برداشتہ ہوکر گھروں کو چل دیئے۔دعویٰ کیا گیا کہ ماڈل ٹائون ہیڈکوارٹر میں بہت بڑا میڈیا سیل بنایا گیا،لیکن رات بھر جب تحریک انصاف کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا تو کوئی متبادل بیانیہ سامنے نہیں آیا۔ رات تین بجے احسن اقبال اور پھر خواجہ آصف ٹی وی چینلز پر نمودار ہوئے۔ مریم نواز صاحبہ اگلے روز ٹوئٹر پر سرگرم ہوئیں ،اسحاق ڈار صاحب 9فروری کی شام دکھائی دیئے اور پھر میاں نوازشریف نے فاتحانہ تقریر کی۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح 2013ء میں رات دس بجے وکٹری اسپیچ کی گئی تھی ،اسی طرح 8فروری کو یہ اعلان کیوں نہ کیا گیا کہ گو نتائج ہماری توقعات کے مطابق نہیں مگر سادہ اکثریت حاصل کرکے حکومت ہم ہی بنائیں گے؟ اس موقع پر نہ تو آپ کا ڈیجیٹل میڈیا کہیں دکھائی دیا، نہ الیکشن سیل فعال نظر آیا اور نہ ہی مرکزی سیکریٹری اطلاعات نے معاملات کو سنبھالنے کی زحمت کی۔ پراسرار خاموشی کے باعث آپ کی بچی کھچی کامیابی بھی مشکوک ہوگئی اور سیاسی مخالفین یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ یہ جو چند نشستیں مسلم لیگ (ن)کو ملی ہیں ،یہ بھی نتائج میں ردوبدل کرکے عنایت کی گئی ہیں۔

تازہ ترین