مسلم لیگ ن کے پنجاب میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کی بنیاد پر پارٹی قائد نواز شریف کی طرف سے سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے مریم نواز کے وزیراعلیٰ ہونے کا اعلان کیا ہےجو پنجاب کی پہلی خاتون سربراہ حکومت ہونگی۔مسلم لیگ ن کی قیادت سے بلاول بھٹو اور آصف زرداری کی ہونے والی ملاقاتوں میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن صدر مملکت اور وزیراعظم کی نامزدگی کیلئے ایک دوسرے کی حمایت کریں گے۔اسطرح آئندہ حکومت میں آصف علی زرداری صدر اور شہباز شریف وزیراعظم ہونگے۔ادھر پی ٹی آئی ترجمان رئوف حسن نےدعویٰ کیاہے کہ مرکز اورپنجاب میں وہ مجلس وحدت المسلمین جبکہ خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گےجبکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے علی امین گنڈا پور کو خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کیلئے نامزد کیا ہے۔مسلم لیگ ن نےایم کیو ایم کی حمایت کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے حکومت میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہےجس کے مطابق اسے وفاقی کابینہ میں چار وفاقی وزرا، ایک وزیرمملکت اور ایک مشیر کا عہدہ دیا جائے گا۔وزارتوں میں آئی ٹی، اوورسیزپاکستانی،جہازرانی ، اور صحت شامل ہیں۔انتخابی نتائج کی روشنی میں اب تک کا سیاسی منظرنامہ یہی ہے کہ مرکزمیں کسی جماعت کے پاس سادہ اکثریت نہیں ہے جبکہ صوبوں کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن، سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بننے جارہی ہیں۔ 9فروری کو انتخابی نتائج واضح ہونے کے بعد نوازشریف نے حکومت بنانے کے ضمن میں پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ شہباز شریف کو بات چیت کرنے کا ٹاسک سونپا تھااور اسی رات آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ انکی بات چیت شروع ہوئی جسمیں بعد ازاں مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری شجاعت حسین، ایم کیو ایم کے خالد مقبول اور دیگر سرکردہ رہنما بھی شامل ہوئے ۔اسطرح منگل کے روز اسلام آباد میں چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میں ڈیڈلاک کا خطرہ ٹل گیااور مفاہمت کی راہ ہموار ہوئی ۔سیاسی رہنمائوں کی طرف سے اس بات پر اتفاق رائے سامنے آیا کہ ہم سب نے مل بیٹھ کر حکومت بنانے اور ملک کو بحرانوں سےنکالنا ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی بھی مفاہمت کے اس عمل کا حصہ بنے اور ہم سے بات کرے۔شرکا کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے پاس اکثریت ہے تو وہ لے آئے، ہم اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے۔سابق وزیراعظم شہباز شریف کے پیش کردہ نکات میں قرضوں اور مہنگائی کو کم کرنا سرفہرست ہے۔ ماضی میں پیدا ہونے والی تلخیوں اور رکاوٹوں کے تناظرمیں نئے پارلیمانی دور کا یہ ایک اچھا آغاز دکھائی دے رہا ہے جس کا برقرار رہنا شرط ہے۔چار دن کی ملاقاتوں میں وفاقی اور صوبائی حکومت سازی کی بڑی حد تک صورتحال واضح ہوئی ہے۔پارٹی مفادات بالائے طاق رکھتے ہوئےاور معیشت کی آبیاری میں اسے اولین ترجیح دیتے ہوئے سیاسی جماعتیںجسطرح سر جوڑ کربیٹھی ہیں ،سیاسی تجزیہ کار پہلے ہی اس کی ضرورت اجاگر کر چکے ہیں ۔کسی بھی ملک کی پارلیمان میں سیاستدان عوامی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کیلئے ان کا مسلسل رابطے میں رہنا ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ملکی سیاست میں ایسے مواقع بہت کم آئے ہیں جب سیاستدانوں میں مفاہمتی رویے اجاگر ہوئے ہوں ،زیادہ تر ان کے درمیان واضح تقسیم دیکھنے کو ملی جس سے ہمیشہ دوسروں کو نیچادکھانے کا تاثر ملا،عدم برداشت کوئی مثبت پہلو نہیں ،برداشت و مفاہمت ہی صحت مند معاشرے کے قیام اور جمہوریت کی روح ہے۔