• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند ماہ پہلے سعودی وزیرِ خارجہ محترم سعود الفیصل پاکستان آئے ،تو مجھے اُن کے والد ماجد اور عالمِ اسلام کے بہت بڑے مدبر شاہ فیصل کا وہ انٹرویو یاد آیا جو میں نے جدہ میں اکتوبر 1967ء میں لیا تھا۔ میرے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا تھا ’’ہم پاکستان سے اسلامی رشتوں میں منسلک ہیں اور میرے خیال میں یہ روحانی اور تہذیبی رشتے مادی روابط کے مقابلے میں بہت پائیدار اور سب سے زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔ ہمیں عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور مشترکہ اقتصادی اور دفاعی منصوبے تیار کرنا ہوں گے جو پورے خطے میں دوررس تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ پاکستان ہمارا ایک قابلِ اعتماد بھائی ہے۔‘‘اُن کے اِن الفاظ کے ساتھ وہ ماحول بھی میری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح آتا گیا جس میں یہ انٹرویو لیا گیا تھا جو اپنائیت کی خوشبو سے معطر اور باہمی اعتماد کی روشنی سے منور تھا ۔ یہ فضا دونوں برادر ملکوں کے مابین دیر تک قائم رہی ،یہاں تک کہ زرداری حکومت میں سردمہری غالب آتی گئی۔ نوازشریف برسراقتدار آئے تو صدرِ مملکت جناب ممنون حسین سعودی عرب کے دورے پر گئے ،تو وہاں کے فرماں رواؤں اور حکام نے اُن کا پُرجوش خیرمقدم کیا اور اُن سے دل کی باتیں کیں۔عزت مآب شاہ عبداﷲ نے اپنا خصوصی پیغام اُن کے ہاتھ وزیراعظم نوازشریف کے نام بھیجا اور معزز مہمان کو یقین دلایا تھا کہ ہم پاکستان کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھتے ہیں اور برادرانہ تعلقات کے فروغ میں آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ پُرخلوص جذبات کے تبادلے سے تعلقات کا ایک نیا باب وا ہوا۔ جناب سلمان بن عبدالعزیز جو ولی عہد اور وزیرِ دفاع ہیں اور تمام امورِ مملکت سنبھالے ہوئے ہیں، دو بار پاکستان تشریف لا چکے ہیں جو اِس امر کا بین ثبوت ہے کہ تعلقات میں ایک قابلِ رشک گرمجوشی پیدا ہوئی ہے۔ اِس بار وزیراعظم نے شہزادے کا ایئرپورٹ پر خیرمقدم کیا اور اُن سے تنہائی میں بھی ملاقاتیں کیں۔ سعودی ولی عہد پاکستان کی ہر سطح کی قیادت سے طویل تبادلۂ خیال کرتے رہے۔ اِن ملاقاتوں میں پاکستان کے علاوہ خطے کے مسائل اور بین الاقوامی معاملات زیرِ غور آئے۔ اُن کے ساتھ ایک بڑا وفد بھی آیا تھا جس نے دوطرفہ مفادات کے حوالے سے دیرپا تعاون اور اشتراکِ عمل کے امکانات کا گہری نظر سے جائزہ لیااور دہشت گردی ، توانائی بحران سے نمٹنے اور دفاعی اور اقتصادی تعاون کے منصوبوں پر مشتمل معاہدے کیے۔ اہلِ پاکستان سعودی عرب کے ممنونِ احسان ہیں کہ اُس نے بھٹو دور میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی مفاہمت پیدا کرنے کی مخلصانہ کوشش کی تھی اور شریف خاندان کو مشرف آمریت کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھنے میں ایک ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ پاکستان کو اِس حقیقت کا بھی گہرا ادراک ہے کہ ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے بعد سعودی عرب کو شرقِ اوسط میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور اِس اہمیت کو قائم رکھنے میں اُس کے ساتھ فوجی تعاون ناگزیر ہو گیا ہے۔
وہ عناصر جو مسلم اُمہ میں انتشار پھیلانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں ، اُنہوں نے ایران اور پاکستان کے مابین ایک تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ جیش العدل کے نام سے ایک عسکری تنظیم ایران میں سرگرم ہے ،اُس نے پانچ ایرانی گارڈز اغوا کر لیے تھے۔ اِس پر ایرانی وزیرِ داخلہ نے اِن مغویوں کی بازیابی کے لیے پاکستان کے اندر فوج داخل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اِس بیان پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ ایف سی نے پورا علاقہ چھان مارا ہے اور اُسے کہیں بھی اغوا شدہ گارڈز نہیں ملے۔ ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ بین الاقوامی سرحد کا احترام عالمی قانون کی رُو سے ہر ملک پر لازم آتا ہے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایران ایک طرف گیس پائپ لائن کے معاملے میں بہت حساسیت کا شکار ہے اور دوسری طرف اُسے یہ احساس ہو چلا ہے کہ سعودی عرب سے تعلقات مستحکم کرتے وقت پاکستان اُسے نظر انداز کر رہا ہے۔ پاکستانی قیادت کو سیاسی فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے ایک توازن قائم رکھنا اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینا ازحد ضروری ہے۔ دراصل پاکستان کے داخلی حالات سے وہ تمام جنگجو فائدہ اُٹھا رہے ہیں جو ریاست کو کمزور کر دینا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں یک لخت بی ایل اے بہت سرگرم ہو گئی ہے اور اُس نے ریلوے ٹریک اور گیس پائپ لائن دھماکے سے اُڑانا شروع کر دی ہے تاکہ مواصلات کا نظام درہم برہم رہے اور توانائی کا بحران مزید گہرا ہو جائے، چنانچہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ریاست کے جملہ ادارے اور تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور کامل یکسوئی ٗ غیر معمولی دانش مندی اور پوری جرأت کا ثبوت دیں۔
خونریزی سے بچنے کے لیے حکومت نے تحریکِ طالبان پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش قبول کرتے ہوئے ایک چار رکنی مذاکراتی کمیٹی بھی بنا دی تھی۔ گزشتہ تین ہفتوں میں پیغام رسانی اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا جو کراچی میں درجنوںپولیس اہلکاروں اور مہمند ایجنسی میں 23ایف سی جوانوں کے گلے کاٹنے کے اعلان کے بعد تعطل کا شکار ہو گیا ہے اور عوام کے اندر طالبان کے خلاف شدید ردِعمل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ فوجیوں کو ذبح کرکے اُنہوں نے اسلامی تعلیمات ،پختون روایات اور انسانی اقدار کی بدترین خلاف ورزی کی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ تعطل عارضی ثابت ہو گا اور طالبان پُرتشدد کارروائیاں بند کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ بات چیت کا سلسلہ شروع ہو جانے سے قدرے مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اِس بار خفیہ بات چیت کے بجائے ایک کھلا مکالمہ شروع ہوا ہے۔ دوسری بات یہ کہ فریقین میں مذاکرات آئین کے دائرے میں کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ تیسری یہ کہ نفاذِ شریعت کو موضوعِ گفتگو بنانے سے گریز کیا گیا ہے۔ چوتھی اہم بات یہ کہ سماج کے اندر طالبان کی پذیرائی میں حیرت انگیز طور پر کمی آئی ہے اور یہ حقیقت پوری طرح اُجاگر ہو گئی ہے کہ طالبان کے علاوہ بھی طاقت ور گروپس سرگرم ہیں اور اُنہیں بھی مذاکرات کے دائرے میں لانا ضروری ہو گیا ہے۔
بات چیت میں باربار تعطل بھی آئے گا اور مذاکرات کے عمل سے ناراض گروپ دہشت گردی کی وارداتیں بھی کرتے رہیں گے۔ اِن حالات میں اِس دشوار گزار اور کٹھن راستے پر پیش قدمی اور سفارت کاری کے ذریعے دوستوں سے مدد کا حصول ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ اب یہ کھلا راز ہے کہ جب تک لیبیا اور امریکہ میں آباد آئرش باشندے آئرش ریپبلکن آرمی کو مدد فراہم کرتے رہے ،اُس وقت تک مذاکرات کا عمل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا تھا۔ اِن دونوں ذرائع کی طرف سے امداد بند ہوتے ہی مفاہمت کی منزل جلد حاصل ہو گئی تھی۔ ارجنٹائن اور کولمبیا میں بھی دہشت گردی کی ناقابلِ تصور وارداتیں کئی عشروں تک ہوتی رہیں اور لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن گئے ،مگر حالات نے قاتلوں ، رہزنوں اور دہشت گردوں کو تشدد سے باز آنے پر مجبور کر دیا تھا۔اِس عمل میں چند مہینوں کے بجائے چار پانچ سال لگے تھے۔ حکومت ِپاکستان کو اپنی مذاکراتی کمیٹی میں ردوبدل پر غور کرنا چاہیے۔ موجودہ ٹیم کے ذمے یہ کام لگایا جائے کہ دنیا کے شورش زدہ ملکوں میں دہشت گردی کیسے ختم ہوئی ،کیا کیا عسکری اور سیاسی اقدامات کیے گئے اور مذاکرات کاروں کی صلاحیت کس درجے میں تھی۔ ہمہ پہلو تحقیق کے نتیجے میں جو نکات سامنے آئیں، اُن کی روشنی میں ایک ایسی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جائے جس میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے ماہرین اور مذاکرات کے ہنر شناس اور سیاسی دماغ اور وہ علماء شامل ہوں جن کا طالبان میں اثرورسوخ پایا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ امریکہ، ملاعمر اور حامدکرزئی سے بھی بات چیت کرنا اور اپنی سول انتظامیہ کے اندر ایک نئی روح پھونکنا ہو گی۔ عزم پختہ ہو گا ، تو یقینا اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔
تازہ ترین