• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کی شخصیت اس سے بلند ہے کہ سیاسی مفاد کیا ہے ۔ اس کی بنا پر وہ اب پاکستان سے کم کسی بھی چیز کو اپنی ترجیح قرار نہیں دیتے ۔نواز شریف نہ صرف کہ پاکستان بلکہ اگر ہم دور حاضر کی دنیا بھر کی جمہوری قیادتوں پر نگاہ دوڑائیں تو تب بھی ہم اتنا تجربہ کار رہنما تلاش نہیں کر سکیں گے ۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ وہم بھی پال لینا کہ نواز شریف کو اس سے خوف زدہ کیا جا سکتا ہے کہ طاقت ور طبقات وفاقی حکومت سے مسلم لیگ ن کو دور کردیں گے یا پنجاب میں بھی حق حکومت چھین لیا جائے گا اور یہ سب کرنے سے نواز شریف کے خیالات کو تبدیل ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہےخیالِ خام ہے ۔ اس مقام پر موجود ہونے کی وجہ سے نواز شریف یہ اچھی طرح سے جانتے ہے کہ ان پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور اس ذمہ داری کو ادا کرنے سے اسکی سیاسی قیمت بھی ادا کرنا ہو گی مگر اسکے باوجود وہ قدم پیچھے ہٹانے پر کسی طور آمادہ دکھائی نہیں دیتے ۔اسی سبب پی ایم ایل این میں گفتگو کی صلاحیت رکھنے والے افراد سعد رفیق ،خرم دستگیر ، رانا ثنااللہ اور جاوید لطیف جیسوں کو جان بوجھ کر ہرا دیا گیا کہ یہ لوگ پی ایم ایل این بیانیہ عوام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

خرم دستگیر کے خلاف سازش پر تو کسی دن علیحدہ سے گزار شات پیش کرونگا ۔ جب شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو اس وقت کے معاشی حالات سب کے سامنے تھے ۔ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ پی ٹی آئی حکومت نے کیا تھا اس معاہدہ کو اپنی حکومت کی نیا ڈوبتے دیکھ کرخود ہی پامال کر دیا تھا اور اس اقدام کو ان کے حامی بڑے فخر سے شہباز شریف حکومت کیلئے بارودی سرنگیں بچھانے سے تعبیر کرتے تھے ۔ مگر اس سب کے باوجود شہباز شریف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی حالانکہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس دور میں حکومت کی قیادت کرنے سے پی ٹی آئی کا سارا گند بھی خود ہی صاف کرنا ہوگا اور ظاہر ہے کہ اس سے اپنے ہاتھ تو ضرور مہنگائی کے گند میں رنگے نظر آئینگے ۔

اس وقت بھی مسلم لیگ ن کو دیگر اتحادی جماعتوں کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل تھیں چنانچہ وزارت عظمیٰ بھی اس کو ہی ملنا تھی اور آج بھی ایوان میں یہی صورت حال ہے ۔ حالانکہ اس وقت پی ایم ایل این کا خوف دکھا کر پی پی پی اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات جاری ہیں مگر پی ٹی آئی کی شرط یہ ہے کہ اسمبلی کے ذریعے بانی پی ٹی آئی کے تمام مقدمات کو ختم کردیا جائے اور وزارت عظمیٰ کا منصب بھی ان کو ہی دیا جائے ۔

پی پی پی پہلی شرط پوری کرنے پر تو آمادہ ہے مگر دوسری شرط میں وہ خود وزارت عظمیٰ کی طلبگار ہے اوریہی ڈیڈ لاک ہے ۔سوال یہ ہے کہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے دور رکھنے کی سازش کیوں تیار کی گئی ۔ اس سب کی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف تین امور پر کسی بھی طرح اپنے مؤقف سے دستبر دار ہونے کیلئے تیار نہیں اور وہ ان تین امور کو پاکستان کی معاشی رگ حیات تصور کرتے ہیں ۔ وطن عزیز کو عشروں سے دہشت گردی کے عفریت سے برسر پیکار ہونا پڑ رہا ہے اور یہ معاملہ صرف پاکستان کے اندر ہی سے نہیں پنپ رہا ہے بلکہ اس کے تانے بانے سرحدوں سے باہر بھی جا کے مل جاتے ہیں مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں طاقتور طبقات ملک کے اندر اور باہر کے گروہوں میں اس حوالے سے فرق کرنے لگ جاتے ہیں ،کوئی اچھا قرار دے دیا جاتا ہے اور کسی کو راندہ درگاہ ۔ نواز شریف کے خیال میں تمام کے تمام دہشت گرد عناصر کو چاہے وہ کسی دوسرے ملک میں صاحب اقتدار ہی کیوں نہ ہو گئے ہوں ایک ہی نظر سے دیکھنا چاہئے اور ایک ہی طرح سے ڈیل کرنا چاہئے ۔ دوئم معاملہ یہ کہ نواز شریف کے خیال میں ہمسایہ ممالک سے تعلقات نارمل کئے بنا معاشی اہداف کا حصول دشوار ہے ۔ جو مسائل بھی پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک سے ہیں انکو بھی اس وقت ہی طے کیا جا سکتا ہے جب باہمی گفتگو کا ماحول تشکیل دیا جائے اور وہ اس حوالے سے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کو مینار پاکستان کے سائے تلے کھڑا کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا بھی چکے ہیں اب بھی اگر نواز شریف ڈاکٹرائن کو خارجہ محاذ پر اپنا لیا گیا تو قوم دیکھے گی کہ وزیر اعظم مودی بھی پاکستان ضرور آئینگے جبکہ اعلیٰ چینی قیادت تو اس امید پر کہ نواز شریف ڈاکٹرائن پر عمل ہوگا جون میں پاکستان آنے کے پروگرام کو حتمی شکل دینے بھی لگی ہے ۔

تیسرا معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا مکمل ماحول تشکیل دیا جائے ، سی پیک کو حقیقی معنوں میں فعال ہونے دیا جائے اور سرمایہ کاری جہاں کہیں سے بھی آئے اس کا خیر مقدم کیا جائے ۔ چین اور کسی بھی دوسرے ملک کی سرمایہ کاری میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ مگر جان بوجھ کر ایسا ماحول بنایا گیا کہ گوادر میں وہ کامیاب ہو جائیں کہ جن کا سارا بیانیہ ہی سی پیک کی مخالفت ہے اور اب میڈیا پر بھی سی پیک کی مخالفت کا بیانیہ تشکیل دیا جا رہا ہے ۔ ان تمام نکات کا تعلق معیشت کے ساتھ ہے اور نواز شریف کا ایجنڈا معاشی ہے اور نواز شریف کو اسکے راستے سے ہٹایا نہیں جا سکتا ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین