اب جبکہ حکومت سازی پر اتفاق ہوگیا ہے ،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ملکر حکومت بنانے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے تو کیوں نہ سنجیدگی سے یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ حالیہ عام انتخابات میں کیا انہونی ہوئی ؟ابلاغ کے جدیدترین ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے فیک نیوز کی بنیاد پر کیسے پانسہ پلٹنے کی کوشش کی گئی؟کیا اس نوعیت کے مسائل کا سامنا صرف پاکستان کو ہے یا پھر دنیا بھر میں جمہوری نظام خطرات سے دوچار ہے؟
جمہوریت میں غلط ہونا بھی استحقاق ہوتا ہے، میں ان ووٹروں کو برا بھلا کہنے کا روادار نہیں جو کھوکھلے سیاسی نعروں اور بیانیے کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ لیکن کیا کسی کو یہ اجازت دی جانی چاہئے کہ وہ تلبیس اطلاعات کے جدید ترین آلات بروئے کار لاتے ہوئے جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرے اور پورے نظام کو یرغمال بنانے میں کامیاب ہو جائے؟ مثال کے طور پر ایک سیاسی جماعت کا ایجنڈا لیکر چلنے والے دو افراد صحافیوں کا بھیس بدل کر لکشمی چوک کے ایک پرنٹنگ پریس جاتے ہیں، ویڈیو بناتے ہیں اور دکھاتے ہیں کہ وہاں بیلٹ پیپر پرنٹ کئے جا رہے ہیں تاکہ NA-15مانسہرہ جہاں سے میاں نواز شریف کو شکست ہوئی، وہاں ووٹ پورے کر کے دھاندلی کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے قائد کو کامیاب کروایا جا سکے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہے۔ پلانٹڈ ویڈیو بنانے والے حضرات تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور تردید کر دیتے ہیں مگر اس وقت تک تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ پرنٹنگ پریس پروپیگنڈا کرنے والی سیاسی جماعت کے ہی ایک فرد کی ملکیت ہے۔ انتخابات کی ساکھ پر سوال اُٹھانے کی غرض سے بیلٹ پیپر چھاپ کر ویڈیو بنائی گئی جب ٹی وی چینلز پر نہیں چلی تو از خود ہی سوشل میڈیا پر ریلیز کردی گئی۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد بھی 35پنکچر کا بیانیہ بنایا گیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ اردو بازار میں بیلٹ پیپر چھاپ کر دھاندلی کی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکریٹری افضل خان کو بطور گواہ سامنے لایا گیا۔ بعد ازاں یہ سب باتیں جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئیں۔ 35پنکچر والے الزام پر معافی مانگ لی گئی، بیلٹ پیپر کی اشاعت کا دعویٰ درست ثابت نہ ہوا، جوڈیشل کمیشن سے یہ بات واضح ہو گئی کہ منظم دھاندلی نہیں ہوئی اور جناب افضل خان بھی اپنی باتوں سے پیچھے ہٹ گئے۔ اب وہی فلم ایک نئے انداز میں چلائی گئی۔ فارم 45 کا غلغلہ، کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کی پریس کانفرنس اور پھر لکشمی چوک میں بیلٹ پیپر پرنٹ کرنے والی ویڈیو۔ انتخابات کے انعقاد سے متعلق ابتدائی معلومات رکھنے والے لوگ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ ہر حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد کے برابر بیلٹ پیپر ہوتے ہیں یعنی اگر کسی حلقے میں 3لاکھ ووٹر ہیں تو اس سے کچھ زیادہ بیلٹ پیپر الیکشن کمیشن کے پاس دستیاب ہوتے ہیں جبکہ ٹرن آئوٹ 50فیصد کے آس پاس ہوتا ہے یعنی اگر دھاندلی کرنی ہی ہو تو کاسٹ کئے گئے تمام ووٹوں کے برابر بیلٹ پیپر موجود ہوتے ہیں نئے سرے سے پرنٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ کرنسی نوٹ کی طرح بیلٹ پیپر بھی ایک مخصوص کاغذ پر شائع ہوتا ہے اور اسے کسی عام پرنٹنگ پریس سے نہیں چھپوایا جا سکتا۔ مگر جب جھوٹ کی بنیاد پر ایک تاثر بن جاتا ہے تو پھر اسے دلائل یا شواہد کی بنیاد پر زائل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ غلط معلومات کی بنیاد پر تاثر بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
دنیا بھر کے ماہرین کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کی حشر سامانیاں جمہوریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے محض لوگوں کی ملازمتیں، اور کمپنیوں کا مستقبل ہی خطرے میں نہیں ہے بلکہ سب کچھ دائو پر لگ چکا ہے، انسانی تہذیب مٹ جانے کا اندیشہ ہے، جمہوریت خطرے میں ہے، پارلیمانی نظام اس کی زد میں آ چکا ہے اور اب اس کی مدد سے کسی بھی ملک میں انتخابی عمل پر اثر انداز ہو کر اسے عدم استحکام سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ فیک نیوز تو تلبیس اطلاعات کے نظام کا محض ایک ہتھیار ہے ورنہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹولز کے ذریعے پورے سسٹم کو یرغمال بنایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا ایپ صارفین کی نقل و حرکت، مزاج، عادت واطوار اور پسند ناپسند پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ معلومات انتخابی مہم کیلئے فراہم کی جاتی ہیں، سیلولر کمپنیاں اپنے صارفین کا ڈیٹا بیچتی ہیں، یوں آپ لوگوں کے رجحانات کے مطابق ان کے جذبات و احساسات کا استحصال کر کے اپنے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔ اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کچھ عرصہ قبل ہمارے ہاں سیاستدان انتخابی مہم چلاتے ہوئے جیسا دیس ویسا بھیس کی پالیسی اختیار کیا کرتے تھے مثلاً پنجاب میں ہیں تو سرپر پگڑی رکھ لی، جنوبی پنجاب میں ہیں تو وہاں کے لوگوں کے احساس محرومی کی بات کی، صوبہ جنوبی پنجاب کی بات کر کے لوگوں کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ سندھ میں داخل ہوتے ہی سندھی ٹوپی اور اجرک پہن لی، انتظامی بنیادوں پر صوبے بنانے کا موقف ترک کر کے ’’مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ اب یہی حکمت عملی ایک نئے انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے اختیار کر کے ووٹروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے بجائے فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کو یہ سہولت دستیاب ہے کہ جس علاقے میں جس مزاج اور عادات و اطوار کے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں ،آپ کا اشتہار صرف انہی کو دکھایا جائے۔ مثلاً لاہور میں یوحنا آباد کا علاقہ مسیحی کمیونٹی کیلئے مشہور ہے۔ا ٓپ ایک اشتہار بنا کر صرف وہاں کے لوگوں کو دکھائیں اور انہیں بتائیں کہ ہم تو آپ کے بہت بڑے خیرخواہ ہیں، دیگر جماعتوں کی حکومت آئی تو انہوں نے آپ کا استحصال کیا۔ آپ کے دعوے سچ ہیں یا جھوٹ لیکن چونکہ آپ کا مخصوص پیغام مخصوص افراد تک پہنچ رہا ہے اس لئے رائے عامہ آپ کے حق میں ہموار ہو گی۔ یہی سب کچھ اس الیکشن میں ہوا ہے۔ مائیکرو مینجمنٹ اور ٹارگٹ آڈینس کی بنیاد پر انتخابی مہم چلانا کیوں غلط ہے اور کیا باقی دنیا میں بھی اس پر بات ہورہی ہے۔ کوشش کروں گا کہ اگلے کالم میں یہ تفصیل آپ کے سامنے رکھوں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)