• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے اڈیالہ جیل سے پاکستان کی معیشت دھماکے سے اڑانے کے لئے ایک اور بارودی سرنگ بچھانے کا عندیہ دے دیا۔اس سلسلے میں عمران خان نے IMF کو ایک خط لکھا ہے جس میں پاکستان اور پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے "کمک" کی درخواست کی ہے۔ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو بانی چیئرمین کے عزائم، مقاصد، عقیدہ اور مشن واضع طور پر سامنے آ جاتے ہیں۔شخصیت کی تشخیص کے لئے بروئے کار لائے جانے والے ان تمام ذرائع اور وسائل میں یہ قدر مشترک ہے کہ ان کے خمیر میں بغاوت کے آثار موجود ہیں جن میں ان کے بغاوت ان کی فطرت کا بنیادی جزو ظاہر ہوتا ہے، ان کے ان مقاصد اور مشن سے بارود کی بو آتی ہے جس کا آغاز انہوں نے 2014 کے دھرنے میں اعلان بغاوت کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا تھا اور قومی نشریات معطل کروا دی تھیں، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس سمیت کئی ریاستی اداروں پر یلغار کر کے انہیں بے توقیر کیا اور اعلان کیا کہ ان کے نزدیک ریاست اور ریاستی اداروں کی کوئی وقعت نہیں۔یہ عہد آگے بڑھا 2018 میں اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں بیٹھ کر اقتدار میں آنے والوں پر تنقید کرنے والے عمران خان نے اقتدار کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں کا انتخاب کیا اورالیکشن کی بجائے سلیکشن کے ذریعے جمہوری عمل کو مسترد کرکے آمریت کے راستے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کر لی۔اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے نیچے کرسی تک پہنچنے والے عمران خان نے ایوان اقتدار میں قدم رکھتے ہی فلاحی اور عوامی بھلائی کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں سمیت 50 لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ پورا کرنے کی بجائے عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ شروع کردیا اور حکومت کی باگ ڈور بشریٰ بی بی، فرح گوگی اور عثمان بزدار کے حوالے کر دی جس کے بعد انصاف، انتظام اور میرٹ اس "ٹرائیکا" کی منڈیوں میں بکنے لگا،اپنے سیاسی حریفوں کو چور کے نام سے مخاطب کرنے والا "القادر ٹرسٹ" میں 190 ملین پاؤنڈ سٹرلنگ کے غبن میں پھنس گیا۔ گوگی ٹرئیکا اور القادر ٹرسٹ سکینڈل نے تحریک انصاف کی حکومت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا جو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر منتج ہوا تو خان صاحب نے پھر اسٹبلشمنٹ کو مدد کے لئے پکارنا شروع کردیا لیکن دوسری جانب سے " نیوٹرل" رہنے کے فیصلے کے اعلان پر عمران خان نے توپوں کے رخ اسٹبلشمنٹ کی جانب موڑ کر انہیں جانور قرار دے دیا اور تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد فوج مخالف مہم شروع کردی، یہاں تک کہ فوج کو تقسیم کرنے کی سازش کی اور شہباز گل اور فواد چوہدری نے ٹی وی چینلوں پر پریس کانفرنسز کے ذریعے عوام میں فوج کے خلاف نفرت پھیلائی جس کے نتیجے میں 9 مئی کا سنگین واقعہ پیش آیا اور کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو سمیت حساس فوجی تنصیبات پر حملوں کے علاوہ ملک بھر میں شہداء کی یادگاروں پر حملے کئے اس دوران تحریک انصاف کے کئی کارکن اور لیڈر گرفتار ہوئے اور کئی آج تک مفرور ہیں لیکن عمران خان اس قومی سانحہ پر شرمندگی کا اظہار کرنے کی بجائے انتخابات کے دوران "لیول پلینگ فیلڈ" کا مطالبہ کرتے رہے۔پی-ٹی-آئی نے انتخابی مہم آپس میں لڑتے جھگڑتے گزار دی۔یہ لوگ شہباز شریف کا مقابلہ ہی نہیں کرنا چاہتے تھے-انہیں زعم تھا کہ عوام انہیں ان کے گھروں میں آکر ووٹ دیں گے لیکن حقیقت ان کی توقعات سے برعکس نکلی اور پارٹی قیادت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، نتیجتاً پی-ٹی-آئی کی وکلا قیادت نے ان مایوس کن نتائج اور ان سے پیدا ہونے والی صورتحال کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنا شروع کردی جو پارٹی کے اندرونی انتشار اور گروپ بندی تک پہنچ گئی یہاں تک کہ منتشر قیادت نے ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ایک دوسرے پرکیچڑاچھالنا شروع کر دیا۔اس دوران پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور تحریک انصاف کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار گوہر ایوب خان نے تحریک انصاف کے عبوری چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کے بارے متنازعہ بیان دینے پر پارٹی رولز کے مطابق پارٹی راہنما شیرافضل مروت کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے دو روز میں گوہر خان سے معذرت کرنے کی ہدائت کی تو شیرافضل مروت نے ٹی وی پر ٹاک شو میں یہ کہتے ہوئے اپنا پیغام اعلیٰ قیادت تک پہنچا دیا کہ "نوٹس بازی کی سیاست مجھے پسند نہیں، یہ لوگ میری عوامی مقبولیت سے جلتے ہیں۔

تازہ ترین