سپریم کورٹ آف پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کے دلائل جاری ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ آپ کو کرمنل پہلو پر سننا چاہتے ہیں۔
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے کہا کہ پہلے ایک آئینی پہلو آرٹیکل 186 کی تشریح کا ہے، گزارش ہے کہ مجھے ایسے سنا جائے جیسے آپ 1978ء میں اپیل سن رہے ہیں، مجھے سننے کے بعد فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہے، آپ شاید کہہ دیں کہ سارا ٹرائل قانونی تھا کچھ غلط نہیں تھا، ہو سکتا ہے کہ آپ اس کے برعکس رائے قائم کریں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو ایسے میجر پوائنٹس پر سننا چاہیں گے جو ضمیر جھنجھوڑ دینے والے ہوں۔
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اس کیس کی سمری تیار کی ہے، یہ واقعہ 11 اور 12 نومبر 1974ء کی درمیانی شب پیش آیا، یہ وقوعہ لاہور میں شادمان چوک میں پیش آیا تھا، تھانہ اچھرہ لاہور میں درج مقدمے پر تفتیش یہ کہہ کر بند کی گئی کہ ملزمان کا سراغ نہیں لگایا جا سکا، ذوالفقارعلی بھٹو مقدمے میں ملزم نامزد نہیں تھے، کیس کا ریکارڈ 8 اگست 1977ء کو دوبارہ تفتیش کے لیے لیا گیا، دوبارہ تحقیقات کے لیے مجسٹریٹ سے کوئی تحریری اجازت نہیں لی گئی، دستاویزات کے مطابق کیس کا ریکارڈ بعد میں لیا گیا، تفتیش پہلے ہی دوبارہ شروع ہو چکی تھی، 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے بھٹو کی سزا کے خلاف اپیل پرسماعت کی، سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو اور شریک ملزم کی سزا برقرار رکھی تھی، احمد رضا قصوری کی درخواست پر ہی مقدمہ درج کیا گیا تھا، قتل کی پہلی تفتیش بند اور دوبارہ شروع کیسے ہوئی یہ اہم ہے، پہلے تفتیش بند کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملزمان کا کچھ پتہ نہیں چلا، پولیس نے مجسٹریٹ سے کیس داخل دفتر کرنے کی استدعا کی تھی، مجسٹریٹ نے پولیس کی کیس بند کرنے کی استدعا منظور کی، مجسٹریٹ نے کیس بند کرنے کا باقاعدہ آرڈر جاری کیا، مجسٹریٹ کے اس آرڈر کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا، مجسٹریٹ کا آرڈر آج تک برقرار ہے مگر ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کچھ نہیں کہا؟
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے صرف لکھا، ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی، یہ صرف تعصب نہیں، بد دیانتی تھی۔
سابق جج جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے ارشاد قریشی کی جرح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پولیس سے ایف آئی اے کو تفتیش منتقل کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں تھی، یہ جرح اعترافِ جرم کرنے والے ملزم پر تھی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا یہ 164 کے تحت اعترافی بیان تھا؟ کیا اس بیان میں کہا گیا کہ بھٹو کی ہدایات پر قتل کیا گیا؟
عدالتی معاون سابق جج جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک نے کہا کہ ملزم نے کہا کہ ایف ایس ایف کے افسران میاں محمد عباس اور غلام حسین کی ہدایت پر قتل ہوا، میاں محمد عباس ڈپٹی ڈائریکٹر جبکہ غلام حسین انسپکٹر تھے، دوبارہ تفتیش کا کوئی حکومتی آرڈر موجود نہیں، تفتیشی افسر نے کہا کہ میں نے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیکھا مگر شاید لاہور آفس میں ہو، ذوالفقار علی بھٹو نے تعصب کا الزام لگایا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ تو ایک جج کی حد تک ہی الزام تھا۔
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک نے کہا کہ محاورہ ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، چیف جسٹس کو متعصب ہونے کا کہہ دیا جائے تو باقی سب جج شامل ہو ہی جائیں گے۔
جسٹس سردارطارق نے عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک سے سوال کیا کہ آپ ہاتھی کس کو کہہ رہے ہیں؟
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک نے جواب دیا کہ یہ میں تو نہیں کہہ رہا جس نے محاورہ بنایا اس نے کہا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہماری عدالت بہت جمہوری ہے، ہم آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک نے کہا کہ یہ تو بہت صحت مندانہ چیز ہے، اختلاف کرنے کا مطلب ہے کہ آپ زندہ ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو اختلاف کرتا ہے وہ ہاتھی کے پاؤں سے نکل جاتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک سے کہا کہ آپ کافی دیر سے کھڑے ہیں تھوڑا وقفہ کر لیں۔
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک نے کہا کہ سزائے موت کے کیس میں لازمی نہیں کہ اپیل دائر کی جائے، سزائے موت میں اپیل نہ بھی ہو تو عدالت کی ذمے داری ہے کہ ملزم کو سنا جائے، شفیع الرحمٰن ٹریبونل میں احمد رضا قصوری نے بھی بیان دیا، احمد رضا قصوری نے کہا کہ بھٹو صاحب کا نام دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ انہوں نے خود قتل کیا، انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ بھٹو صاحب کی بات سن کر کسی اور نے کر دیا ہو، تفتیش پولیس سے ایف آئی اے کو منتقل کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چلیں پہلے جو کیس ٹرانسفر والا نکتہ ہے وہ مکمل کر لیں۔
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک نے کہا کہ کہا گیا کہ احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش کی گئی، احمد رضا قصوری آج بھی زندہ ہیں، اللّٰہ انہیں لمبی زندگی دے، سیشن جج اعجاز نثار نے پبلک پراسیکیوٹر سے معاملے پر رپورٹ مانگی تھی، اگلے ہی روز کیس ہائی کورٹ کو منتقل ہو گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ تو آج تمام ٹی وی چینلز کی ریٹنگز بریک کر رہے ہیں، سنسنی اور سسپنس کی وجہ سے ہمیں انتظار رہتا ہے کہ آپ آگے کیا کہنے والے ہیں۔
اس کے ساتھ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کر دیا۔
صدارتی ریفرنس پر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 24 ستمبر 1977ء کو پہلی سماعت ہوئی اور اگلی سماعت پر شواہد طلب کیے گئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل پیش ہوئے تھے؟
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک نے جواب دیا کہ پہلی سماعت تھی، ابھی بھٹو کے وکیل پیش نہیں ہوئے تھے، قانونی عمل کی کھلی خلاف ورزی ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں آرڈر شیٹ دیکھ رہا ہوں، لگتا ہے جیسے کوئی سول کیس تھا۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ فردِ جرم تو 11 اکتوبر کو عائد کی گئی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کسی کے خلاف فردِ جرم کے لیے مواد ناکافی ہو تو کیا ہو گا؟
عدالتی معاون جسٹس ریٹائرڈ منظور احمد ملک نے کہا کہ ایسی صورت میں ملزم بری ہو جائے گا، بھٹو کیس میں فردِ جرم بھی ملزمان پر الگ الگ عائد کی گئی، اصول کو نظر انداز کیا گیا کہ ملزمان ایک سے زیادہ ہوں تو فردِ جرم ایک ہو گی، پہلے ہی دن ذہن بنا لیا گیا کہ بس ملزم آ گیا تو ٹرائل ہی کرنا ہے، پہلے ہی دن کہہ دیا گیا کہ شہادتیں طلب کرتے ہیں، سوال یہ بھی ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس کو کیس سننا چاہیے تھا؟ جب وہ لکھ چکے تھے وہ ناراض ہو گئے وہ پارٹی بن چکے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو پر جو پہلا چارج لگا اس کو ذرا دیکھیں، اس چارج میں قتل کی سازش کے عناصر تو ڈالتے، کچھ تو بتائیں پرائم منسٹر ہاؤس میں یہ سازش ہوئی، کہاں ہوئی، میں تو حیران ہوں، اس کیس میں تو قتل کی بنیاد سازش کہی گئی ہے۔