25؍فروری کو لاہور کے معروف تجارتی مرکز اچھرہ بازار میں ایک خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ شاپنگ کے لیے آئی ہوئی تھی جس کے لباس پر کچھ عربی حروف لکھے ہوئے تھے ۔ عوام نے انہیں قرآنی آیات سمجھ کر اس خاتون کو جان سے مارنے کی کوشش کی جسے ایک لیڈی پولیس اے ایس پی شہر بانو نے بڑی مشکل سے ہجو م کے نرغے سے آزاد کرایا،یہ ہے اکیسویں صدی کے پاکستان کی تصویر ۔ جہاں مذہبی تعصّب اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کبھی سیالکوٹ میں سری لنکن انجینئر کو زندہ جلا دیا جاتا ہے ، کبھی گرجا گھروں اور مسجدوں پر خود کش حملے کئے جاتے ہیں اور کبھی توہینِ رسالت کے جھوٹے الزام میں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے والوں پر اگر جھوٹ یا کذب بیانی کے حوالے سے مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تواسے بھی توہینِ مذہب قرار دیکر احتجاج شروع کر دیا جاتا ہے ۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کے گروہ تعلیمی اداروں میں دندناتے پھرتے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے جھوٹے الزامات کے تحت خود ہی عدالت بن کر سزا سناتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کر دیتے ہیں جیسے کے پی میں مشال خان جیسے نوجوان کو ہجوم کے ذریعے بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔کیا دنیا کا کوئی ضابطہ ء اخلاق یا مذہب خصوصاََ اسلام جس کا مطلب ہی سلامتی اور امن ہے ، اس قسم کی یکطرفہ اور ظالمانہ کاروائیوں کی اجازت دیتا ہے؟ ۔ عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور توہین ِ رسالت کی سزا ،’’سر تن سے جدا‘‘ جیسے نعروں کی آڑ میں بیگناہوں کا خون بہانے کا یہ خوفناک رجحان ہمیں جس لاقانونیت اور خانہ جنگی کی طرف لے جا رہا ہے کیا اس کا کوئی کو تدارک ہے؟ہم پہلے ہی ہر لحاظ سے تباہ ہو چکے ہیں۔ اگر اس مذہبی انتہا پسندی اور منافرت کو نہ روکا گیا تو ہم کسی بڑے سانحے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کرنے والے یہ گروہ غزہ میں بیگناہ فلسطینی بچوں کے قتلِ عام پر تو غیض و غضب میں نہیں آتے ۔ ان کی حمایت میں تو یورپ کے غیر مسلم مظاہرے کر رہے ہیں۔ کل ہی ایک حاضر سروس امریکی فوجی نے واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف خود سوزی کر لی ہے۔ لیکن وہ چاہے کشمیر ی مسلمانوں پر ظلم و ستم ہو یا فلسطینیوں پر ۔ ہمارے مذہبی انتہا پسندوں کا نشانہ صرف ہمارے ہم مذہب ہی بنتے ہیں اور تو اور مسلمان ریاستیں آپس میں دست وگریباں ہیں۔ طالبان کی اسلامی حکومت پاکستان کے خلاف نبردآزما ہے۔ یہی حال پاکستان ایران اور سعودی عرب کا ہے۔ اس سے ایک بات تو طے ہے کہ دنیا کی تاریخ میں آج تک مذہب کی بنیاد پر ریاستوں کا قیام ممکن نہیں ہو سکا۔ دنیا میں کوئی دور ایسا نہیں گذرا جب ایک ہی مذہب کو ماننے والے کئی ممالک موجود نہ تھے اور آپس میں دست وگریباں نہ رہے ہوں۔ آج بھی 50سے زائد مسلم ممالک اور 100سے زیادہ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے ممالک پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی اکثر بڑی جنگیں ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے ممالک کے درمیان ہوئیں مسلمانوں میں سب سے زیادہ دردناک جنگ جس میں پانی کے حوالے سے سفاکیت کی انتہا نظر آتی ہے جنگِ کربلا ہے جس کا ماتم ہم ہر سال کرتے ہیں۔ اسی طرح ہندو تاریخ کی سب سے بڑی جنگ مہا بھارت ایک ہی خاندان یعنی کوڑوں اور پانڈئوں کے درمیان لڑی گئی جو نہ صرف ہم مذہب بلکہ آپس میں کزن بھی تھے۔ اسی طرح نہ صرف عیسائیوں نے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان خونر یز تصادم دیکھے بلکہ دنیا کی کی پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم میں بھی متحارب ملکوں کی اکثریت ایک ہی مذہب یعنی عیسائیوں کے درمیان لڑی گئی جس میں کروڑوں انسان مارے گئے۔ ایک عام خاندان جس میں رہنے والے افراد کا نہ صرف مذہب اور فرقہ ایک ہوتا ہے بلکہ خاندان ، ذات پات اور رشتے دار تک سانجھے ہوتے ہیں ۔ وہ بھی اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب اس میں ظلم اور نا انصافی آجاتی ہے۔ اس میں مذہب کا کوئی قصور نہیں، مذہب تو انسانوں کو انصاف ، ہمدردی اور بھائی چارے کی تربیت دیتا ہے۔ لیکن دنیا کے تمام مذاہب میں فرقوں کی تشکیل کے بعد ہر گروہ اپنے اپنے فرقے کی تشریح الگ الگ کر تا ہے۔ جسکی وجہ سے ایک ہی مذہب میں مختلف فرقے ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جا تے ہیں۔ یوں مذہب صرف ایک جذباتی ہتھیار بن کر رہ جاتا ہے۔ جسے اہلِ اقتدار اپنے اقتدار کو طول بخشنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انقلاب ِ فرانس سے پہلے پوری عیسائی دنیا بھی اسی مذہبی بلیک میلنگ کا شکار ہو کر آپس میں دست وگریباں تھی۔ انہوں نے تو خود کو مذہبی رواداری یعنی سیکولرازم سے جوڑ کر اپنے معاشروں کو اعتدال پسند معاشروں میں تبدیل کر لیا لیکن ہم ابھی تک سیکولرازم کو ایک ہوّا بنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی تشکیل کے بارے میں اسے مذہبی ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ 71میں بنگلہ دیش کے قیام نے اسے غلط ثابت کر دیا ہے ۔ بنگلہ دیش نے بھی سیکولرازم اختیار کرکے ترقی کی نئی منازل طے کرلی ہیں ۔ ہم ابھی تک پولیو کے قطرے پلانے والوں پر تشدّد کر رہے ہیں۔ خدارا ہو ش میں آئیں اور مذہب کو بلیک میلنگ کا ذریعہ نہ بنائیں ۔ مذہب خدا اور انسان کا معاملہ ہے اسے گلیوں اور بازاروں میں نہ اچھالیں ورنہ ہم پھر کسی حادثے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔