پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کام شروع کر د یا ہے۔انہوں نے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اسمبلی میں تفصیلی تقریر کی،بہت وضاحت کے ساتھ اپنے نکات کو بیان کیا۔ تقریر عمدہ تھی۔ بڑے بڑے دعوے کئے گئے۔ مثبت بات انکا اپوزیشن کے حوالے سے رویہ تھاکہ وہ صرف ن لیگ کی نہیں بلکہ پوری اسمبلی کی وزیراعلیٰ ہونگی، اپوزیشن کے ساتھ اچھا رویہ اپنایا اور انکے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ایک طرح سے یہ ان کاپہلا رائونڈ تھا جو انہوں نے جیت لیا۔اسے مگر پہلا رائونڈ ہی سمجھنا چاہیے، یہ کھیل متعدد رائونڈز پر مشتمل ہے۔پچھلے چند دنوں میں مریم نواز بہت ایکٹو رہی ہیں۔وہ مختلف جگہوں کا وزٹ بھی کررہی ہیں، تیزی سے فیصلے اور ان پر فوری عملدرآمد بھی ہورہا ہے۔تاہم اب اس پرانے اسٹائل آف گورننس سے کام نہیں چل سکتا، انہیں ساتھ مقبول عام بیانیہ بھی تخلیق کرنا پڑئے گا۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کو غور کرنا چاہیے ۔مریم بی بی کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک انصاف کی اصل قوت اس کا بیانیہ ہے، پرفارمنس کی بنیاد پر انہوں نے ووٹ نہیں لئے۔اس لئےانہیں اور انکی ٹیم کو غورکرنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کابیانیہ کیا ہے اور وہ انہیں دوسری جماعتوں سے کس طرح مختلف بناتا ہے؟ ہرپارٹی کا اپنا ایک بیانیہ ہے اور وہی اسکی قوت یا کمزوری بن جاتا ہے۔ ن لیگ اپنا بیانیہ پرفارمنس اور بڑے پراجیکٹس پر بناتی ہے، بڑے شہروں میں میٹرو بس، اورنج ٹرین، فلائی اوورز ، موٹرویز ، سڑکیں، ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں ادویات کی فراہمی وغیرہ۔شہروں کی تاجر برادری اور بزنس کلاس کو وہ مطمئن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسکے ساتھ سیاسی طور پر ہر ضلع میں طاقتور اور تگڑے الیکٹ ایبلز اپنے ساتھ ملا کر رکھنا۔ لیپ ٹاپ وغیرہ بانٹنے کا فائدہ کچھ خاص نہیں ہوا۔ نوجوانوں نے لیپ ٹاپ لے لئے اور پی ٹی آئی کو ووٹ ڈال دیا۔تحریک انصاف کا بیانیہ سادہ ہے، وہ چونکہ کم عرصے کیلئے اقتدار میں رہے ، اس لئے ان کا فوکس زیادہ عرصہ اقتدار میں رہنے والی دونوں بڑی جماعتوں پر تنقید،ان کو ملک کے تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانے اور احتساب کے ساتھ لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لانے کے وعدوں کے گرد رہتا ہے۔ سب سے زیادہ وہ کرپشن کیخلاف بات کرتے ہیں اور نظام بدلنے، اس میں ریفارمز لانے کا ایجنڈا شو کرتے ہیں۔ پاکستانی یوتھ اسیلئے وہ تحریک انصاف کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔مریم نواز شریف اگر کامیاب ہونا چاہتی ہیں تو انہیں اس نکتہ کو سمجھنا ہوگا۔ انکی ٹیم کو لگتا ہے کہ اسی طرح مختلف جگہوں کے دورے کر کے ، عملے کو فوری معطل اور تیز رفتار ایکشن دکھانے سے لوگوں کو خاص کر نوجوانوں کو متاثر کیا جا سکتا ہے تواس سوچ کا پھر سے جائزہ لینا چاہیے ۔ ن لیگ کو لگتا ہے کہ شایدان کے کام کے طریقہ میں نقص نہیں بلکہ اسے سوشل میڈیا پر ٹھیک سے پیش نہ کرنے کی وجہ سے نقصان ہوا۔ وہ اسلئے اب کی بار زیادہ بہتر سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ اسمارٹ اسٹرٹیجی اپنانا چاہتے ہیں۔مریم نواز بے شک ایکٹو رہیں، ہر جگہ خود پہنچیں، ہسپتالوں کے دورے کریں، دور دراز علاقوں کے ہیلتھ سنٹروں، اسکولوں وغیرہ پر چھاپے ماریں، غیر حاضر اور نااہل اہلکار معطل کریں، یوتھ کو مزید لیپ ٹاپ، مزید سکالرشپس دیں، ٹیکنالوجی پارک وغیرہ بنا دیں، مگر یہ سب کافی نہیں ہوگا۔ انہیں روایتی سیاست کے گورننس ماڈل سے دوقدم آگے نکلنا ہوگا۔ مریم صاحبہ نے اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں کرپشن کے خلاف زوردار طریقے سے بات کی۔ بہت اچھا ہے، انہیں اپنی انتظامیہ کو کرپشن فری بنانا ہوگا، بیوروکریسی اور پولیس میں اچھے ایماندار افسر لگائیں۔ انہیں اختیار دیں اور سیاسی مداخلت سےآزاد کر دیں۔ جب عوام کی مشکلات کم ہوں گی تو انہیں خود بخود نئی وزیراعلیٰ بہت مختلف اور بہتر لگیں گی۔ مسلم لیگ ن پران کے مخالفین کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں ، مریم نواز کی صوبائی حکومت میں اگر کرپٹ افسروں کو پوسٹنگ نہ ملے، کرپٹ اور طاقتور مافیاز پسپا ہو جائیں، کرپشن کیلئے زیرو ٹالرنس ہو تو خود بخود ان الزامات کا زور کم ہوجائیگا۔ صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کو سیاسی اثر سے پاک کر کے موثر بنائیں۔ کرپشن کےخلاف نعرہ تحریک انصاف کا ہے ، وزیراعلیٰ اسےچھین کر اپنا سکتی ہیں۔ صحت کارڈ بنیادی طور پر میاں نواز شریف کا آئیڈیا تھا جسے تحریک انصاف نے اپنا برانڈ بنا لیا۔ صحت کارڈ سے عام آدمی کو فائدہ پہنچا ہے، مریم بی بی نے اسمبلی تقریر میں کہا کہ اسے ری ڈیزائن کر کے پھر سے فعال بنائیں گے۔ یہ کام ضرور ہونا چاہیے ، نام کچھ بھی ہو، مگر عام آدمی کو صحت کے حوالے سے ریلیف ملے گا۔ پچھلی حکومت میں سٹیزن پورٹل شروع کیا گیا، اچھا ڈیجیٹل منصوبہ تھا، بیوروکریسی نے ناکام بنا دیا۔ ن لیگ اگر اچھے فالو اپ کے ساتھ اس طرح کا کوئی بھی منصوبہ صوبے میں شروع کرے تو بہت اچھے نتائج ملیں گے۔ یوتھ سب سے زیادہ ڈیجیٹل فورم پر ایکٹو رہتی ہے، اگر انہیں ڈیجیٹلی سہولت ملے اور وہ اپنی آنکھوں سے عام آدمی کے کام ہوتے دیکھیں گے تو یقینی طور پر ان کی سیاسی سوچ تبدیل ہوگی ۔مریم صاحبہ کی کابینہ پر سب کی نظر ہے، کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں اہل اور متحرک لوگوں کو شامل کیا جائے۔ جوچندنام سامنے آ رہے ہیں، وہ بہتر لگ رہے ہیں۔ شیخوپورہ سے ن لیگ کے ایم پی اے پیر اشرف رسول کے وزیراوقاف بننے کی خبر آ رہی ہے، یہ بھی مثبت فیصلہ ہوگا۔ پیر اشرف رسول پرانے لیگی رہنما ہیں، چوتھی بار ایم پی اے بنےہیں،انہوں نے الیکشن میں ابوذرچڈھر کو ہرایا ہے، یہ وہی ابوذر چڈھر ہیں جنکے حوالے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی ایک مبینہ آڈیو لیک سامنے آئی تھی۔ مریم نواز کی صوبائی حکومت کے پاس ماہرین کی کمی نہیں، اہل دانش سے تجاویز مانگیں، جو قابل عمل ہوں، ان پر کام کریں۔ بس یہ یاد رکھیں کہ انکی اپنی انفرادیت ہے، اپنی منفرد شخصیت، انہیں گورننس کا بھی منفرد ماڈل پیش کرنا ہوگا۔ کام آسان نہیں، ان پر بہت بوجھ ہے،ن لیگ کا، الیکشن کا ، موروثی سیاست کے الزام کا۔ ان سب کو وہ اپنی کارکردگی اور اسمارٹ بیانیہ سے ہی ختم کر سکتی ہیں۔