السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
صبروتحمّل کا مظاہرہ
کیا کہوں کہ گزر گیا 2023ء بھی، لوگوں نے کیا کیا تجربات حاصل کیے، یہ تو لوگ ہی جانیں، مگر ہمیں آپ کی محنتوں، کاوشوں پر قطعاً کوئی شک نہیں کہ سنڈے میگزین کو اتنے کم صفحات اور اِن حالات میں بھی اس قدر عُمدگی سے چلاتے رہنا آپ اور آپ کی ٹیم ہی کا خاصّہ ہے۔ تو چلیں چلتے ہیں، اس سال کے آخری سنڈے میگزین کی طرف۔ ؎ یہ زرد پتّے، یہ سردموسم، کہر میں لپٹی اداس شامیں… سرِورق پرماڈل کا سوئیٹر بہت خُوب صُورت تھا اور اندر بھی زبردست سوئیٹرز دیکھنے کو ملے۔ 2024ء انتخابات کا سال ہے، تو اس پر بس نو کمنٹس۔ کیوں کہ ہر مُلک میں تو لوگ واقعتاً حقِ رائے دہی استعمال کرتےہیں اوراُسی کے مطابق نتیجہ بھی آتا ہے، جب کہ ہمارے مُلک میں لوگ ووٹ تو ڈالتے ہیں، مگر آگے جو ہوتا ہے، وہ اللہ ہی جانے کہاں سے اور کیسے ہوتا ہے۔
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے متعلق تو قلم کو بیان کی سکت ہی نہیں، واہ واہ کیا کیا نہ معلوماتِ اسلامی مل گئیں ہم کو۔ ’’انٹرویو‘‘پورا نہیں پڑھ سکی۔ بقول، ڈاکٹرعبدالرحمٰن بروہی ’’کتابیں محفوظ نہیں، اُن کو دیمک کھارہی ہے‘‘۔ ہاں، کمپیوٹیشنل فنانس کی اہمیت و افادیت سے متعلق سعدیہ کرن نے خُوب لکھا، تو اگلے صفحے پر ڈاکٹر عریزہ انجم تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں اخلاق سنوارتی نظر آئیں۔ اور جی ہاں، اِس اتوار مولی، آلو دونوں کے پراٹھے بھی بنے اور بڑا ہی سواد آیا۔ ہم کینوکھاتے توبہت ہیں، مگر اتنے فوائد کا علم نہیں تھا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میرا پسندیدہ ترین صفحہ ہے، مگر پتا نہیں میری اپنے سرکاشف سے متعلق لکھی تحریر کا نمبر کب آئے گا۔
ہمایوں ظفر صاحب! پلیز اِک نگاہ کرم اِدھر بھی۔ ڈاکٹرصائمہ اسماء کا سفرنامہ کمال ہی تھا کہ کسی مطالعاتی دورے کو اس بہترین انداز سے رقم کرنا بھی اپنی مثال آپ ہے۔ طارق بلوچ صحرائی بھی ’’بھرم‘‘ کے ساتھ چھاگئے۔ ’’غزہ کی مٹّی پکارتی ہے‘‘ بہت خوب نظم تھی۔ مدثراعجاز کی تحریر ’’ماورائے زمین زندگی‘‘ بھی پڑھی۔ اب پتا نہیں، یہ حقیقت یے یا فسانہ۔ چترال، گلگت کے وخی قبائل بھی دیکھے۔ حتٰی کہ ناقابلِ اشاعت میں اپنا نام تک ڈھونڈنے کی کوشش کی، مگرنہیں ملا۔ ہا ہا ہا… (یہ تو گُڈ ہوگیا ناں) اورپھر…اس ہفتے کی چٹھی پر چاچا چھکن کو براجمان پایا۔ ویسے اس بار آپ نےسارے خطوط کے جوابات بہت صبروتحمّل سے دیئے۔ اُمید ہے کہ ایسے ہی صبروتحمّل کا مظاہرہ میرے خط پر بھی کیا جائے گا۔ ہا ہا ہا… تبصرہ تو ہوگیا، اب ایک آخری بات، نرجس جی! آئی ریئلی لائیک یو، پتا نہیں کیوں، مجھے آپ بہت اپنی اپنی سی لگتی ہیں، اب کیا کروں…؟؟ (نازجعفری، بفرزون، کراچی)
ج: خیر سے اس بزم میں تو ایسے ایسے خطوط نگار آ گئے ہیں کہ بخدا تمھارا خط پڑھ کے تو باقاعدہ سُکون کی ٹھنڈی سانس لی جاتی ہے کہ’’شُکر، ہمارے قارئین میں ایسے ہوش مند بھی موجود ہیں۔‘‘ جس قدرصبروتحمّل کا مظاہرہ ہمیں خادم ملک، شہنازسلطانہ وغیرہ کے خطوط پڑھ کے کرنا پڑتا ہے، تم تصوّر بھی نہیں کر سکتیں۔ کچھ اور بھی بقراط ہیں، جن کا یہاں داخلہ تو ممنوع ہوچُکا ہے، لیکن وہ پھر بھی لمبی لمبی رام کہانیاں لکھ بھیجنے سے باز نہیں آتے۔اورہاں، الیکشن سےمتعلق بھی تمھارا تجزیہ کیسا سو فی صد درست ہے، حالاں کہ تم نے یہ خط 6 جنوری کو لکھا تھا۔
والد کا کلام؟
میرے والد صاحب شاعر تھے۔ اُن کی اردو شاعری کی ایک کتاب ’’تعلق‘‘ کے نام سے 1999ء میں شائع ہوئی تھی اور 2001ء میں والد صاحب کی وفات ہوگئی۔ مَیں اُن کی لکھی دو عدد نعتیں ارسال کر رہا ہوں، اُمید ہے کہ آپ صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ضرور جگہ دیں گی اور کیا کبھی کبھی مَیں آپ کو اُن کا کلام ارسال کر سکتا ہوں۔ نیز، میرے پاس تھوڑا سا پنجابی کلام بھی ہے، کیا وہ بھی شائع ہوسکتا ہے۔ (طاہر گرامی، ٹوبہ ٹیک سنگھ)
ج: آپ کے والد صاحب کی نعتیں اختر سعیدی صاحب کو چیک کروائی جائیں گی، اگر تو اوزان اور معیار کے مطابق درست ہوئیں تو باری آنے پرشائع بھی ہوجائیں گی۔ لیکن براہِ مہربانی جب تک یہ شائع نہ ہوجائیں، مزید مت بھیجیں۔ اور ایک اُردو جریدے میں پنجابی کلام کی اشاعت ممکن نہیں۔
تخلیق کردہ، پسندیدہ اشعار
عرض ہے کہ اپنے چند تخلیق کردہ اور پسندیدہ اشعار ارسال کررہی ہوں، نوک پلک درست کر کے ضرور شائع کردیں۔ مَیں روزنامہ جنگ اور خاص طور پر ’’سنڈے میگزین‘‘ بہت ذوق و شوق سے پڑھتی ہوں اور لکھتی بھی ہوں میرے خیال میں آپ کا جریدہ بہترین ہے۔ (کوثر بنتِ اقبال، کراچی)
ج:آپ کی تحریر میں املا کی اتنی غلطیاں ہیں کہ ہم اشعار، کسی شاعر کو چیک کروائے بغیر بھی پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناقابلِ اشاعت ہیں۔ فی الحال، اپنی نثر پر توجہ دیں اور شاعری کی نوک پلک درست نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ شاعر یا تو ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا۔ یہ بین بین والا معاملہ نثر میں تو پھر بھی چل جاتا ہے، شاعری میں نہیں کہ اس معاملے میں تو ایک نقطہ محرم سے مجرم کرجاتا ہے۔
جریدے کا شیدائی
آپ کی اور آپ کی پوری ٹیم کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں۔ دُعا ہے کہ اللہ پاک روزنامہ جنگ اور’’سنڈے میگزین‘‘ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ سنڈے میگزین کی ٹیم لیڈراوراِس کے دیگر شان دار قلم کاروں، خصوصاً منور راجپوت، عرفان جاوید، سلمٰی اعوان، وحید زہیر، رئوف ظفر، منور مرزا اور محمود میاں نجمی کو لمبی عُمر عطا کرے اور یہ سب لوگ اِسی طرح اپنے قلم سے علم کے موتی بکھیرتے رہیں۔ بخدا، مَیں تو شیدائی ہوں اس جریدے کا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام کو یک جا کرنے کا سہرا اِسی کےسر ہے۔ میری دُعا ہے کہ یہ ظلم کے ایوانوں میں اِسی طرح صدائے حق بن کر گونجتا رہے۔ مظلوموں، بےکسوں کی صدائیں روزنامہ جنگ تیرے ساتھ ہیں۔ (راؤ ندیم جاوید، بہاول پور)
ج: آپ کی اس قدر محبّت و عقیدت کے جواب میں ہم صرف اظہارِ تشکّر ہی کرسکتے ہیں غالباً آپ جیسے مخلص،بے لوث قارئین کی دُعائوں ہی کے سبب اِن نامساعد حالات میں بھی جریدہ جیسے تیسے شائع ہو ہی رہا ہے۔
اختصار و جامعیت کا بہترین نمونہ
سالِ گزشتہ اپنے دامن میں کئی نشیب و فراز سمیٹے رخصت ہوگیا۔ سالِ نو کی کرنوں نے رو ئے زمین کو منوّر کیا اور ایک نیا سال انسانی تاریخ کا حصّہ بننے کو آمادہ پیکار ہوا۔ حسبِ روایت ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ بڑی عرق ریزی سے تیار کیا گیا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق سالِ گزشتہ کے چیدہ چیدہ واقعات کو زیرِ قلم لانا اور اُنہیں ایک مربوط شکل میں شائع کرنا بلاشبہ کسی کارنامے سے کم نہیں اور آپ اور آپ کی ٹیم یقیناً اس کارنامے پر بہت مبارک باد کی مستحق ہے۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ آپ کی قلمی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
الفاظ کے خُوب صُورت تسلسل کے ساتھ سالِ گزشتہ کو گویا ایک صفحے میں سمودیا۔ نعیم کھوکھر نے سال 2023ء میں عالمِ اسلام میں پیش آنے والے اہم واقعات کا مختصر جائزہ پیش کیا۔ محبوب حیدر نے سالِ گزشتہ کے افواجِ پاکستان کے اہم امور کا جائزہ لیا، تو منور مرزا حسبِ روایت اہم عالمی سیاسی واقعات پر رقم طراز تھے۔
محمّد اویس یوسف زئی نےعدالتی کارروائیوں کو بخوبی قلم بند کیا، تو بلال غوری ’’خارزارِ سیاست‘‘ کے تحت سیاسی حالات و واقعات کی عکس بندی کررہے تھے۔ اللہ ہی جانے کہ 2024ء میں مُلکی سیاست کیا رُخ اختیار کرتی ہے۔ ’’کلکس‘‘ کا جواب نہ تھا۔ سال 2023ء کے تمام تر اہم حالات و واقعات اِس تصویری شکل میں سمٹ گئے۔ فاروق اقدس نے شہر اقتدار کے سیاسی ایوانوں کا ذکر کیا۔ صوبوں سے متعلق مضامین بھی بہت جامع اور احسن انداز میں رقم کیے گئے، تو ’’آپ کا صفحہ‘‘ قارئین کے دل چسپ خطوط سے مزیّن تھا۔ غرض یہ کہ سالِ نو ایڈیشن (حصّہ اوّل) جامعیت اور اختصار کا بہترین نمونہ ثابت ہوا۔ (عائشہ ناصر، دہلی کالونی، کراچی)
ج: اور … بے شک، آپ کی چٹھی بھی اختصار و جامعیت کا بہترین نمونہ ہے۔ شاباش، ویل ڈن۔
کچھ قدر کیا کریں
اُمید ہے، آپ اور آپ کے ساتھ کام کرنےوالی ٹیم بخیریت ہوگی۔ منور مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ کے تحت بھرپوررہنمائی فرماتے ہیں۔ انہوں نے امریکی اور چینی صدور کی بیٹھک کو بہت اہم قرار دیا اور مُلکی رہنمائوں کو اس ملاقات سے سبق سیکھنے کی ہدایت کی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ’’قصص القران‘‘ سلسلے میں محمود میاں نجمی ’’قصّہ قومِ لوطؑ پرعذابِ الہی کا‘‘ بیان فرما رہے تھے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس واقعے سے عبرت پکڑنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال کہتے ہیں، ’’روبوٹ ہمارادوست ہے، دشمن نہیں‘‘ لیکن ہم اُن کی اِس بات سے متفق نہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر مقبول لانگو بلوچستان میں کانگو وائرس کے متعلق کافی تشویش انگیز رپورٹ لائے۔
توصیف احمد، بہاول پور میں کشتی رانی کا ذکر کر رہے تھے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر نے یارجان بادینی سےاچھی بات چیت کی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلے میں صائمہ فرید، پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ قاضی سے اپنی محبّت و انسیت کا احوال بیان کر رہی تھیں۔ اللہ پاک شہلا الیاس کی سہیلی، عائشہ کی مغفرت فرمائے اور حافظ محمّد حامد انصر کی والدہ اور والد کے درجات بلند کرے۔ ’’متفرق‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر حفصہ صدیقی نے جدّہ کی خُوب سیر کروائی۔ خنساء سعید کا افسانہ ’’خاموش احتجاج‘‘ پسند آیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا بھی خط شامل تھا، بہت شکریہ۔ اور اب بات اگلے جریدے کی ہوگی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں مسلمانوں اورحُکم رانوں کی توجّہ ہالینڈ میں تارکینِ وطن مسلم ممالک کے خلاف قوم پرست پارٹی کی فتح کی طرف مبذول کروائی گئی۔
منور مرزا نے اِس موضوع کے ہرہرپہلو پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ونگ کمانڈر(ر) محبوب حیدر سحاب نے سقوطِ ڈھاکا پر شعرا کی شاعری کا ذکرکیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ بی بی مریم بنتِ عمران علیہ السلام‘‘ بیان کیا گیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کا مضمون بہت معلوماتی تھا۔ ’’شخصیت‘‘ میں عرفان جاوید جینٹلمین، ضیا محی الدین کا ذکرِ خیر کر رہے تھے، تو ’’پیارا گھر‘‘میں حکیم حارث سوہدروی نے موسمِ سرما کی سوغات کی بات کی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں قیصر قصری کے فلسطین سے متعلق قسط وار افسانے کی توکیا ہی بات ہے۔
محمّد بشیر جمعہ نے مشترکہ خاندانی کاروبار کی خُوبیاں،خامیاں بیان کیں، تو’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں شبینہ گل انصاری کا واقعہ سبق آموز تھا۔ ڈاکٹر زیب مظہر نے بھی نوزائیدہ بچّے کو کیا خُوب چھت کی سیر کروائی۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا خط تو شامل نہیں تھا، البتہ بے کار ملک کا خط جگمگا رہا تھا۔ یقین کریں، پورے جریدے میں اِس سے اچھی تحریر اور کوئی نہیں تھی۔ میرا تو مشورہ ہے کہ آپ ایسے خطوط نگاروں کی کچھ قدر کیا کریں۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)
ج: جی بالکل، اس بزم میں قدردانی کے لائق صرف دو ہی توشخصیات ہیں۔ ایک آپ اور ایک آپ کے بے کار ملک صاحب۔
فی امان اللہ
نرجس جی، کیسی ہو؟ اُمید ہے، اچھی ہوگی۔ سیّدہ سعدیہ علی نے تصوّر بھی نہ کیا ہوگا کہ کوئی کبھی اُس کی تصویرکشی کے لیےبھی اِس طرح ساحر لدھیانوی جیسے رومانٹک شاعر کی بیاض سے منتخب کردہ خُوب صُورت لفظوں کی مالا پروئے گا۔ مَیں جب بھی تمہارا منتخب کردہ کلام پڑھتی ہوں، تو سوچتی ہوں کہ کسی سرکاری اسکول کی سخت گیر ہیڈ مسٹریس جیسی محترمہ کی شخصیت کا ایک خُوب صُورت رُوپ یہ بھی ہے۔ منور مرزا عالمی صورتِ حال پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں، لیکن اِس وقت فلسطین کی صورتِ حال پر اُن کی خاموشی بالکل اچھی نہیں لگ رہی۔ گزشتہ چار میگزین میرےسامنے ہیں۔
پہلے بائیڈن، شی جن پنگ بیٹھک، پھر ہالینڈ، تارکینِ وطن مخالف پارٹی، پھر کوپ 28، اوراُس کے بعد پولینڈ میں تبدیلی۔ منورصاحب! فلسطین پر پوری دنیا میں سخت مظاہرےاوراحتجاج ہورہے ہیں، تو پھرآپ کا قلم کیوں خاموش ہے؟ ’’قصص القرآن‘‘ میں حضرت عیسٰی ابنِ مریم پڑھا، میگزین کے اِس ہر دل عزیز سلسلے میں بزرگ محقّق و مورخ محمود میاں نجمی نے اپنی تحقیقی عرق ریزی کے نتیجے میں قرآن فہمی کو اِس قدر عام کردیا ہے کہ اب جنگ کے قاری کو قرآن کی ہر سورت کا مطلب و مقصد صاف صاف سمجھ آنے لگا ہے۔ یہ سلسلہ میگزین کی جانب سے اپنے پڑھنے والوں کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ بابائے قوم کی پیدائش پر رائو محمّد شاہد اور پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل کی فکر انگیز تحریریں پڑھنے کو ملیں۔
ڈاکٹر انجم نوید لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان میں تیس فی صد بچّے کان کے امراض میں مبتلا ہیں۔‘‘ پتا نہیں، ڈاکٹر صاحب نے یہ ہول ناک اعداد وشمارکس سروے سے لیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے، لیکن اس طرح کی تحریروں سے بیرونِ مُلک پاکستانیوں کی صحتِ عامہ سے متعلق بہت منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ ’’لاڈلے‘‘ کے ایک وزیر نے پاکستانی پائلٹسں کی ڈگریوں کو جعلی کہہ دیا تھا اور قوم آج تک اُس بیان کےمنفی اثرات بھگت رہی ہے۔ یورپ میں قومی ایئرلائن کی بندش سے پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
ہماری ایک عزیزہ، جوکچھ سال پہلے چلڈرن اسپتال میں سینئر ڈاکٹر تھیں، آج کل امریکا میں ہیں۔ انہوں نے اس رپورٹ کے حوالے سے اپنے سخت تحفّظات کا اظہارکیاہے۔ میری رائےمیں توایسے خطرناک اعدادوشمارکامستندحوالہ بہت ضروری ہے، صرف ’’حالیہ سروے‘‘ کہہ دینا ہرگزکافی نہیں۔ لاہور کی ڈاکٹر صائمہ اسما کی تحریر بہت دل چسپ اوراندازِبیاں انتہائی خُوب صُورت تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز عُمر کا واقعہ پڑھا، سیکریٹری تعلیم، خالد حیدر شاہ کے لیے بہت ساری دُعائیں،احترام اور سلام۔ اے کاش!اِن ہی کی طرح بیورو کریسی کے دیگرتمام ’’فرعون‘‘ بھی انسان بن جائیں، تو یہ مُلک کیساجنّت نظیر ہوجائے۔ (شاہدہ تبسم، ڈی ایچ اے، کراچی)
ج: جن پچھلےچارشماروں کی آپ نے بات کی، اُن سے بھی پہلے، بلکہ شاید سب سے پہلے منور صاحب نے’’مسئلۂ فلسطین‘‘ پر بہت جامع اورمکمل تجزیاتی رپورٹ پیش کی۔ دیگر لوگوں کو جس مسئلے پر بات کرنے کا ہوش، پانی سَر سے گزرنے کے بعد آتا ہے، منور صاحب اُس پر نہ صرف بروقت بلکہ مسلسل بات کرتے رہتےہیں اور وہ برسوں سےاپنےتئیں یہ فریضہ محض اپنی قومی و اخلاقی ذمّے داری سمجھتے ہوئےاداکررہے ہیں، وگرنہ نہ تو اُنھیں حکومتی ایوانوں سے کسی ستائش، پذیرائی، ایوارڈ کی توقع ہے اور نہ ہی ہم سے کسی معاوضے کا لالچ۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ اس مُلک و قوم سے حد درجہ اِخلاص و ہم دردی ہی کے سبب پوری تَن دہی سے ایک فریضہ ادا کیےجارہے ہیں۔ اور رہی بات، ڈاکٹر انجم نوید کی، تو وہ خاصے سینئر کنسلٹنٹ ہیں، ہم نے آپ کی شکایت اُن کے گوش گزار کی، تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ اعدادوشمار سو فی صد درست ہیں، صورتِ حال اِس سے بُری تو ہو سکتی ہے، اچھی نہیں اور تحریر میں جو کچھ لکھا گیا، پوری ذمّےداری سے ٹھیک لکھا گیا۔
* آپ کے توسّط سے جنگ کی انتظامیہ سے درخواست کی جاتی ہےکہ ’’مراسلات‘‘ کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے، جو کافی عرصے سے منقطع ہے۔ چوں کہ سنڈے میگزین کے صفحات انتہائی کم ہوتے ہیں، اوراکثرعوامی مسائل کی بروقت نشان دہی اِن کے ذریعے ممکن نہیں ہو پاتی۔ اُمید ہے، آپ کے توجّہ دلانے پر انتظامیہ مراسلات کاسلسلہ دوبارہ شروع کرنےپر ضرور غور فرمائے گی۔ (خواجہ تجمّل حسین، نارتھ کراچی، کراچی)
ج: ’’ہا ہا ہا…ایڈی مَیں انتظامیہ دی چہیتی!!‘‘ اللہ آپ کی خُوش گمانی سلامت رکھے۔ بہرحال، آپ کی شکایت متعلقہ شعبے تک پہنچا تو دی ہے۔
* ’’سنڈے میگزین‘‘ میرا مَن پسند جریدہ ہے۔ کئی تحریریں پڑھ کے تو آپ لوگوں کے لیے دل سے دُعائیں نکلتی ہیں۔ ہمیں اس قدرمفید معلومات بہم پہنچانے کا بےحد شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بہت خوش رکھے اور آپ کے رجب المرجب کو شعبان المعظّم اور رمضان المبارک سےمِلا دے۔ آمین۔ (صاعقہ سبحان)
ج:جزاک اللہ خیراً کثیرا واجراً کبیرا۔ بلاشبہ، اِس سے خُوب صُورت دُعا کوئی نہیں ہو سکتی تھی۔
* آپ کا کہنا ہے کہ لغت کے اعتبار سے درست لفظ ’’منہگائی‘‘ ہے، مہنگائی نہیں۔ مَیں آپ کو ایک لغت ہی کا عکس بھیج رہی ہوں، جس کے مطابق درست لفظ ’’مہنگائی‘‘ ہے۔ اب آپ کیا کہتی ہیں۔ (تبسّم خورشید)
ج: اِس ضمن میں ماہرین کی متضاد آراء موجود ہیں۔لیکن بہرحال، مستند ماہرینِ اردو کے مطابق اصل اور سو فی صد درست لفظ ’’منہگائی‘‘ ہی ہے، جب کہ مہنگائی غلط العام ہے۔ جیسا کہ مہندی، طوطا، قلفی اور فلیتہ وغیرہ بھی قطعاًغلط تلفّظ کے ساتھ لکھے، بولے جارہے ہیں۔ صحیح الفاظ منہدی، توتا، قفلی، فتیلہ ہیں۔ نیز، قمیض نہیں، قمیص، نقصِ امن نہیں، نقضِ امن اور بدامنی نہیں، بےامنی درحقیقت درست الفاظ ہیں۔ بہرحال، ہمارے خیال میں آج کے لیے اتنا ہی سبق کافی ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk