السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اتنی منہگائی میں فیشن کو فروغ؟؟
سنڈے میگزین کا معیار دن بدن گرتا جارہا ہے۔ براہِ مہربانی اِس کا معیار بلند کریں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں کھانا پکانے کی ترکیبیں بہت عرصے سے شائع نہیں ہورہیں، اِس صفحے پر تراکیب لازماً شائع کیا کریں اور براہِ مہربانی سنڈے میگزین میں خواتین کی ماڈلنگ فوراً بند کردیں۔ عوام، منہگائی، غربت کے ہاتھوں پریشان ہیں، ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے اورآپ لوگ فیشن کو فروغ دے رہے ہیں، فوری طور پر ماڈلنگ کے یہ صفحات ختم کردیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: تو پھر آپ کے وہ چُوڑی دار پاجامے، کُھسّے اور پان کی گلوری والے شُوٹ کا کیا بنےگا۔
دنیا میں حُوریں بھی ہیں…؟؟
ہائے، آپ کی ماڈل مقدّس سعید کو دیکھ کے تو مَیں انگشت بدنداں ہی رہ گئی کہ اِس دنیا میں حُوریں بھی ہیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ سے پتا چلا کہ امریکی اور چینی صدور کی ملاقات ہوئی، جنہوں نے ہرموضوع پر بات کی، مگر مقبوضہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پرخاموشی ہی سادھے رہے، کیوں کہ خونِ مسلم ارزاں جو ہے۔ محمود میاں نجمی ’’قصّۂ قومِ لوطؑ‘‘ بیان کررہے تھے اور دل آٹھ آٹھ آنسو رو رہا تھا کہ حالات تو آج بھی اُسی نہج پر ہیں۔
راؤ محمّد شاہد رُوبوٹس کا قصہ لائے۔ بلوچستان میں کانگو وائرس اور بہاول پور میں کشتی رانی کا احوال بھی پڑھا۔ ڈاکٹر حفصہ صدیقی ’’جدّہ‘‘ سے متعلق کچھ بتا رہی تھیں، ذکر ہی دل و دماغ معطّر کر گیا۔ گوتم بدھ کی تعلیمات پر بابر سلیم کا مضمون معلوماتی تھا۔ اور…آپ کا صفحہ کے سب ہی لکھاری بہترین خطوط کے ساتھ آئے۔ ویسے سب سے زیادہ مزہ یہی صفحہ پڑھنے میں آتا ہے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفرگڑھ)
ج: اللہ کی بندی ! خط کے لیے دوسرا صفحہ استعمال کرنے پر کوئی پابندی تھوڑی ہے۔ اِس قدر گنجلک تحریر ہوتی ہے تمہاری کہ ہمیں الفاظ کا باقاعدہ دَم گُھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھتی ہو، نہ ہی کسی اور ہدایت کا خیال رکھتی ہو اور ہاں، جیسے تم نےماڈل کی تعریف کی، ہمیں تو جریدہ نکال کے دیکھنا پڑ گیا کہ ’’ایڈی کیہڑی حُور چھاپ دِتّی اساں‘‘(ایسی کون سی حُور چھاپ دی ہم نے) دیکھ کےبےاختیارمنہ سے یہی نکلا ’’بھئی حد ہے، مبالغہ آرائی کی بھی‘‘۔
نام زندہ رہے
اُمیدہےکہ آپ کی پوری ٹیم سمیت جنگ گروپ سے وابستہ سب افراد، لکھاری، بخیریت ہوں گے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ آپ سے رابطہ مستقل قائم رکھیں اور رسالے /شمارے سے دوستی اور محبّت کا یہ سلسلہ، جو خطوط کی بدولت برقرار ہے، یوں ہی رواں دواں رہے۔ ’’سنڈےمیگزین‘‘ میں ہرسال کےاختتام پر خطوط نگاروں کی ایک سالانہ فہرست تیار کی جاتی ہے اوراُس میں ہمارا نام بھی شامل ہوتا ہے، تو دیکھ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے۔اللہ کرے، جریدے کے ساتھ، ہمارا نام بھی اِسی طرح زندہ رہے۔ (شری مرلی چند گوپی چند گھوکلیہ، ریلوے اسٹیشن روڈ، کلینک گلی، مہر پاڑا، شکارپور)
ج: ان شاء اللہ تعالیٰ۔
دانش ورانہ، مدبّرانہ جواب
اُمید ہے کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا چھائے ہوئے تھے اور اُنہوں نےایک ایک پہلو پر بہترین گفتگو کی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں محمود میاں نجمی قومِ فرعون کی نافرمانی اوراس نافرمانی پر آنے والے عذابوں کا ذکر کر رہے تھے۔ مضمون نگار کے اندازِ بیاں کاتوکوئی مول ہی نہیں۔’ ’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رابعہ فاطمہ فرماتی ہیں کہ علامہ اقبالؒ کے نظریے کو اُن کےخطوط پڑھے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں فاروق اقدس فکر انگیز تحریر لائے، جس میں اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی مُلک ایسا نہیں، جہاں برسوں بغیر قانونی دستاویزات کے کسی دوسرے مُلک کے باشندے مقیم رہے ہوں۔
’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں رئوف ظفر نے معروف آئی اسپیشلسٹ، پروفیسر ڈاکٹر ناصر چوہدری سے مفید گفتگو کی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں سیدآفتاب حسین معیاری پرائمری تعلیم کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈال رہے تھے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید کا تحریر کردہ واقعہ سبق آموز تھا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط بھی شامل تھا، بہت بہت شکریہ۔ اگلے شمارے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے سوال کیا کہ ’’اُمتِ مسلمہ اپنی طاقت سے بےبہرہ کیوں؟‘‘اورپھر خُود ہی بہت دانش ورانہ اور مدبّرانہ جواب بھی دے دیا۔ ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں حضرت ایوب علیہ السلام کے ایک طویل امتحان کا ذکر کیا گیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے مسئلۂ فلسطین پر فیض احمد فیض کی مزاحمتی شاعری کا تجزیہ پیش کیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں فہیم زیدی سعودی عرب کی تفریح گاہوں کا ذکر کررہے تھے۔
ڈاکٹر ایم عارف سکندری، ایچ پائلوری انفیکشن کو سرطان ہوجانے کا سبب بتارہے تھے، تو ساتھ علامات، تشخیص و علاج اور حتیاطی تدابیر سے بھی آگاہ کیا۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں پیرزادہ سید خالد حسن رضوی نے برصغیرکے نام وَر شاعر، انصار الہ آبادی کی یادیں تازہ کیں۔ ساتھ اُن کے کچھ اشعار بھی شائع کیے گئے، جوپسند آئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ثاقب صغیر نے فلسطین کے حوالے سے زبردست افسانہ تحریرکیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوںہی واقعات ہرگز فراموش کرنے والے نہیں تھے۔ مومنہ حنیف کا فاتح بیت المقدس، سلطان صلاح الدین ایوبی پر مضمون بھی خاصا معلوماتی تھا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)
ساری بات سمجھ آگئی
مَیں سال میں ایک دو بار ہی آپ کی محفل میں شرکت کرتی ہوں۔ پچھلے ہفتے بھی خط لکھا، پھر اِس ہفتے کے شمارے میں بھی دو تین شان دارمضامین پڑھ کرقلم تھام لیا ہے۔ محمود میاں نجمی، قیصر قصری اور عرفان جاوید کی تحریروں نے تو بس مجبور ہی کر دیا کہ خط لکھنا ہی لکھنا ہے، خصوصاً لیجنڈ ضیاء محی الدین پر تفصیلی مضمون کے مطالعے کا آغاز کرتے ہی بے اختیار مصنّف کا نام دیکھا، تو عرفان جاوید کو براجمان دیکھ کرساری بات سمجھ آگئی کہ ایسے عُمدہ لکھاری تو اب خال خال ہی رہ گئے ہیں۔ ’’نوزائیدہ نے چھت کی سیر‘‘ خُوب کی اور شُکر ہے کہ بخیریت واپسی بھی ہوگئی اور ہاں، اِس بار ملبوسات بھی بوت اچھے تھے۔ (مصباح طیّب، سرگودھا)
ج: جی بےشک، اب تو یہ بات اک زمانے کو سمجھ آگئی ہے۔
حوصلہ افزائی، اصلاح نصیب ہوگی
اس بات میں یقیناً کوئی دو آراء نہیں کہ آپ اورآپ کے ساتھیوں کی اَن تھک محنت کی بدولت ’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی خُوب صُورت پیش کش اور اپنے تخلیقی و تحقیقی مضامین کی بنا پرہماری علمی وادبی محافل اور گھریلو زندگیوں کا ایک جزوِ لاینفک بن چُکا ہے۔ اس جریدے نے ہم سمیت بےشمار قارئین کو اپنا گرویدہ کر رکھا ہے، خاص طور پر مرکزی اور درمیانے صفحات کی مناسبت سے بہت برمحل اشعار و اقوال سے مزیّن آپ کی تحریر تو جیسے سب کا دل ہی موہ لیتی ہے۔
بےشک، یہ تحریرآپ کے اعلیٰ ادبی ذوق اور گہرے مطالعے کے آئینہ دار ہے۔ یوں بھی آپ کا جریدہ ہم عصر جرائد میں نمایاں مقام کا حامل ہے اوراس مقبولیتِ عام کے پسِ پردہ آپ کی اپنے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی اور اُن کی تحریروں کی مناسب اصلاح کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اِس اُمید پر کہ مجھے بھی یہ حوصلہ افزائی اور اصلاح نصیب ہوگی، اپنی ایک تحریری کاوش ارسالِ خدمت ہے۔ اُمیدِ واثق ہے کہ مناسب ردّوبدل کے ساتھ یہ میرے محبوب جریدے کی ضرور زینت بنے گی۔ (محمّد ارشاد علی خان شیروانی، رحمان انکلیو، اسلام آباد)
ج:آپ کی ستائش، حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ۔ تحریر قابلِ اشاعت ہوئی تو ان شاءاللہ تعالیٰ ضرور شایع کردی جائے گی۔
پتا تبدیل ہوگیا؟
ہاتھ میں سن 2023ء کا آخری جریدہ ہے۔ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ میں سن 2024ء میں دنیا بَھر میں ہونے والے انتخابات پر بہت اچھا تبصرہ کیا، پڑھ کر معلومات میں بےحد اضافہ ہوا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں فوزیہ ناہید نے آلو، مولی کے پراٹھوں سے شان دار ناشتا کروایا ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں آئیڈیل ماں، پھوپھی ننّھی، نانا جان اور پیارے پاپا پر جذبات و احساسات سے گندھی خُوب صُورت تحریریں پڑھیں، بہت پسند آئیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کافی عرصے بعد طارق بلوچ صحرائی ’’بھرم‘‘ کے ساتھ موجود تھے۔ ریحانہ عثمان، آسٹریلیا سے ’’غزہ کی مٹّی پکارتی ہے‘‘ کے ساتھ آئیں، بہت اچھا لگا۔
شری مُرلی چند کا پتا غالباً تبدیل ہوگیا ہے، کیوں کہ اپنے خط میں انہوں نے ایک نیا ہی پتا لکھ رکھا تھا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے شہناز سلطانہ کو جو جواب دیا، مَیں تو سوچ کے ہی رہ گیا کہ آخر لوگ اس قسم کے خط لکھتے ہی کیوں ہیں کہ جوابًا ایسی بات سُننی پڑے۔ چاچا چھکن کافی عرصے بعد آئے اورآپ نے بھی اُنہیں تختِ شاہی ہی پربٹھا دیا، بڑی بات ہے۔ ویسے سب قارئین سلیم راجا کو بھی بہت مِس کررہے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: ہمیں تو لکھاری، خطوط کے ساتھ جو بھی پتا لکھ بھیجتے ہیں، ہم بِعَینہٖ شائع کردیتے ہیں۔ ویسے اگر کسی کا پتا تبدیل ہوجائے، تو اِس میں کوئی اچھنبےکی بات بھی نہیں۔ لوگ اگر کرائے کےمکان میں رہائش پذیر ہوں تو مکانات تبدیل کرتے ہی رہتے ہیں اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شہناز سلطانہ صاحبہ اِسی طرح کے مضمون کے مزید بھی کئی خط بھیج چُکی ہیں۔ اب ؎ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا۔ کم ازکم ہمارےپاس تو ایسے لوگوں کے لیے علاوہ محفل بدری کے کوئی علاج موجود نہیں۔
اُجلا اندازِ تحریر
حسبِ روایت اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں شماروں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات موجود تھے، جنہیں پڑھ کر بہت سی برکتیں سمیٹیں۔ کوپ۔28 موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی بہترین کاوش ہے۔ ’’اسموگ: کیا، کیوں، کیسے؟‘‘ معلومات سے بھرپور مضمون تھا۔ ملیریا کا ادھورا علاج خطرناک ہوسکتا ہے، ایک سیرحاصل تحریر لگی۔ ’’اور…دورۂ چین کی سبیل بن گئی‘‘ پڑھا، ہماری بھی دلی خواہش ہے کہ پہلے اللہ اور اس کے حبیبؐ کا گھر دیکھیں، اُس کے بعد چین بھی لازماً دیکھنے جائیں، خصوصاً دیوارِ چین دیکھنے کی بہت تمنّاہے۔ ’’پولینڈ میں آٹھ سال بعد تبدیلی‘‘ بہترین تجزیاتی مضمون تھا۔
یہ تبدیلی کی ہوائیں اکثرممالک میں چل رہی ہیں۔ قائدِاعظم کے یومِ ولادت کی مناسبت سے بہت خُوب صُورت تحریریں شامل کی گئیں اور ’’جلوہِ دانشِ فرنگ:برطانیہ کے شہر کو ونٹری میں…‘‘ ایک لاجواب، بہت ہی دل آویز سفرنامہ ہے۔ ویسے سفرناموں کا اتنا اُجلا انداز کم ہی دیکھا گیا۔ ضیاء الحق قائم خانی نے خط میں ناچیز کا ذکر کیا، بہت خوشی ہوئی اور نازلی فیصل کے خط کا جواب بھی بہت ہی پسند آیا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: درست کہہ رہے ہیں آپ، ہمیں بھی قارئین کی طرف سے ایسا اُجلا اندازِ تحریر کم کم ہی دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔
فی امان اللہ
خداوند تعالیٰ کی ذات سے اُمید کرتی ہوں کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ بہت دنوں بعد خط لکھنے کی جسارت کر رہی ہوں کہ روٹی، روزگار کے چکر میں ایسے پڑے ہیں کہ ہاتھ سے قلم ہی چُھوٹ گیا ہے۔ حالاں کہ اِس کاغذ، قلم سے عشق ہے مجھے اور اِس حوالے سے آپ کی بھی بہت شُکر گزار ہوں کہ آپ نے جنگ، سنڈے میگزین کے ذریعے یہ رشتہ کسی نہ کسی طرح جوڑ رکھا ہے۔ پھر، حالیہ شمارے نے بھی بےاختیار ہی خط لکھنے پرمجبور کر دیا کہ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر آپ نے جس طرح اِس رُت میں خواتین کی پسندیدہ ترین اونی شالز کی ماڈلنگ کے ساتھ حسین ترین رائٹ اَپ لکھا، کمال ہی تھا۔ ماڈل منال منہاس کی ماڈلنگ کا بھی جواب نہ تھا۔
تمام تر شالز کو بہترین انداز سے کیری کیا ہوا تھا۔ اب تو شالز، دوپٹّے دیکھ کر ہی دل خُوش ہوجاتا ہے کہ دورِ حاضر کی خواتین تو پتا نہیں کس ڈگر پر چل نکلی ہیں اور آپ کے رائٹ اَپ کا مصرع ؎ ’’اوڑھی جو اُس نے شال، تو پشمینہ جی اُٹھا‘‘ تو بس میرا دل ہی لے گیا۔ پروفیسر سیّد منصور علی خان نے اپنی چٹھی میں میرا اور ساتھی قلم کاروں کا ذکر کیا، تو بہت ہی اچھا لگا۔ دیکھیں، یہ بزم قلمی دوستی کی کیسی شان دار مثال بن گئی ہے۔ اگلے شمارے کے سرِورق ہی پر ماڈل سوئیٹرپہنےکھڑی دیکھی، تو آنکھوں کو طراوت سے ملی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’قصّہ قومِ شعیب علیہ السلام کا‘‘ تفصیلاً بیان کررہے تھے۔
ہر ہر لفظ موتی مالا کے مثل تھا اور ہمارے لیے بہترین سبق بھی کہ کسی بھی حال میں عدل و انصاف کا ترازو ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں بلوچستان کے پہلے پی ایچ ڈی ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوی سے بات چیت اچھی لگی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں سعدیہ کرن نے معلومات میں اضافہ کیا کہ پاکستان میں کمپیوٹیشنل فنانس کے استعمال کو فروغ دے کر مُلک کو ترقی و خوش حالی کی شاہ راہ پر گام زن کیا جاسکتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ ہمیشہ کی طرح بہت پیارا تھا۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی میں شان دار تحریر لے کر آئیں۔ ’’سنڈے برنچ‘‘ میں آلو، مولی کے پراٹھوں سے گھر والوں کی تواضع کی گئی، واللہ مزہ آگیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی چاروں ہی کہانیاں اپنی اپنی جگہ بےمثال تھیں۔
اس ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں بھی آپ کی تحریر لاجواب تھی، ہر ہر سطر محبّت و چاہت کے رنگوں سے بُنی ہوئی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر صائمہ اسما، ’’جلوہِ دانشِ فرنگ‘‘ کے ساتھ آئیں اور کیا خُوب صُورت افسانوی سا طرزِ تحریر تھا۔ سچ میں، اِس سے پہلے کبھی کوئی سفرنامہ اس عمدہ انداز سےلکھا نہیں دیکھا۔’’نئی کتابیں‘‘ کے تحت اختر سعیدی کافی محنت و جاں فشانی کے ساتھ ہم لوگوں کو گھر بیٹھے بیش بہا معلومات فراہم کررہے ہیں۔ طارق بلوچ صحرائی کا افسانہ ’’بھرم‘‘ ہمیشہ کی طرح اچھا لگا۔ ’’متفرق‘‘ میں مدثر اعجاز اور ڈاکٹر رحمت عزیز چترالی کی تحریریں معلوماتی تھیں۔
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا انتخابات کے حوالے سے ایک شان دار تجزیاتی مضمون کے ساتھ آئے، رہنمائی کا بے حد شکریہ سر! اور اب آتے ہیں، اپنے پیارے سے صفحے یعنی ’’آپ کاصفحہ‘‘ کی جانب۔ تمام قلم کاروں کی چِٹھیاں ستاروں کے مثل جگمگاتی معلوم ہوئیں اور ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا قرعۂ فال چاچا چھکن کے نام نکلا، تو بہت ہی اچھا لگا۔ (خالدہ سمیع، سعدی ٹائون، کراچی)
ج:خالدہ جی! بجا فرمایا، روزی روٹی کے چکر نے توسب ہی کونڈھال کر رکھا ہے، لیکن اپنے عشق کو وقت دینا چھوڑ دیں گی، تو مزید نڈھال ہوجائیں گی۔
* آپ نے ایک خط کے جواب میں ’’ٹارزن‘‘ کےحوالے سے بات کی، تو مجھے بھی لگا کہ واقعی اِس دَور میں ٹارزن کا ذکر کچھ عجیب ہی ہے، مگرپھر مَیں نے اس نام سے بننے والی فلم دیکھی۔ واضح کردوں کہ نہ مَیں ’’ٹارزن‘‘ کا ’’فین‘‘ ہوں اور نہ ہی کسی کی حمایت کررہا ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں ہر طرح کے نقطۂ نظر کا احترام کرنا چاہیے۔ آپ کے جواب سے تو ٹارزن ایک بالکل ہی مافوق الفطرت شےمعلوم ہورہا تھا، جب کہ اس جدید دنیا میں بھی کئی ’’کلاسیکل مکتبۂ فکر‘‘ کے حامل افراد اُس کے مداح ہیں۔
انٹرٹینمنٹ کے ضمن میں آج بھی ٹارزن ایک ماسٹرپیس ہے۔ تب ہی ’’دی لیجنڈ آف ٹارزن 2016ء‘‘ نے نہ صرف2 ایوارڈز جیتےبلکہ4 ایوارڈز کے لیے نام زَد بھی ہوئی۔ مطلب، آج کی دنیا کسی بھی موضوع سے آمدنی حاصل کررہی ہے۔ یہ تمام سُپر ہیروز لگ بھگ ایک جیسےہی ہیں۔ چاہےوہ بیٹ مین ہو، ٹارزن، سُپرمین یا فلیش۔ سو قصّہ مختصر، ہمیں بہرحال ہر نقطۂ نظر کا احترام ضرور کرنا چاہیے۔ (محمّد عظیم خان)
ج: آپ کے خیالات اپنی جگہ سو فی صد درست ہیں، لیکن مذکورہ مکتوب نگار کی فرمائش کچھ اور تھی۔ وہ مسلسل دو تین خطوط میں یہی اصرار کررہے تھے کہ برسوں پہلے روزنامہ جنگ میں جو ’’ٹارزن کی کہانی‘‘ شائع ہوتی تھی، اس کی دوبارہ اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔ آپ کی اطلاع کے لیے ہمارے مائکرو فلمنگ سیکشن میں، جنگ کی وہ اشاعتیں موجود ہیں۔ آپ اگرایک باراُن کا مطالعہ کرکےدیکھیں، تو اندازہ ہوگا کہ آج کے اِس جدید ترین، برق رفتار دَورسےاُن کی دُوردُورکی بھی کوئی نسبت نہیں بنتی۔ بھائی! آپ جن فلموں سے موازنہ کررہے ہیں، اُن کا اورٹارزن کی کہانی کا کوئی جوڑ ہی نہیں ہے۔
* آخرکار، چھے ماہ کے طویل انتظار کی سولی پر چڑھے رہنے کے بعد میرا برقی خط ( ای میل ) شائع ہو ہی گیا، جس کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔ ایک درخواست یہ بھی ہے کہ خاکسار کی تحریروں پر بھی ذرا کچھ نظرِکرم فرمالیں۔ (محمّد عمیر جمیل، منگھو پیر، کراچی)
ج:ہماری طرف سے تو ہرتحریر ہی پہ نظرِکرم فرمائی جاتی ہے اوراِسی لیے ہر وہ تحریر، جو قابلِ اشاعت ہوتی ہے، باری آنے پرشایع بھی ہو جاتی ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk