• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوموں کی تعمیر و ترقی میں اخلاقیات کو خاص اہمیت حاصل ہے، ہر واقعہ ان کے ضمیر کے زندہ یا مردہ ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ یہ دوڑ کے مقابلے تھے، حتمی لائن سے چند فٹ کے فاصلے پر کینیا کا ایتھلیٹ عبدالمطیع سب سے آگے تھا، وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے، عبد المطیع کے پیچھے اسپین کا ایتھلیٹ ایون فرنینڈز تھا، فرنینڈز نے جب یہ دیکھا کہ عبدالمطیع غلط فہمی کی بنیاد پر رک رہا ہے تو اس نے عبدالمطیع کو آواز دی ’’دوڑو! ابھی حتمی لائن کراس نہیں ہوئی‘‘۔ عبد المطیع اس کی زبان نہیں جانتا تھا اس لئے اس نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی،ا سپین کے فرنینڈز کے لئے سنہری موقع تھا کہ وہ آگے نکل کر یہ دوڑ جیت لیتا مگر اس کے زندہ ضمیر نے عجیب فیصلہ کیا، اس نے عبدالمطیع کو دھکا دے کر حتمی لائن پار کروائی، تماشائی یہ اسپورٹس مین اسپرٹ پر دنگ رہ گئے، فرنینڈز ہار کے بھی جیت گیا، وہ لوگوں کی آنکھ کا تارا بن گیا، بعد میں ایک صحافی نے فرنینڈز سے پوچھا، تم نے یہ کیوں کیا ؟ فرنینڈز کا جواب تھا ’’ میرا یہ خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کو اس لئے دھکا دے کہ وہ جیت سکے‘‘۔ صحافی نے پھر پوچھا مگر تم نے کینیا کے ایتھلیٹ کو کیوں جیتنے دیا، فرنینڈز نے کہا’’ میں نے اسے جیتنے نہیں دیا وہ ویسے ہی جیت رہا تھا، یہ دوڑ اسی کی تھی‘‘۔ صحافی نے اصرار کیا مگر تم یہ دوڑ جیت تو سکتے تھے۔ فرنینڈز نے اس کا جواب یوں دیا ’’جب وہ جیت رہا تھا تو میں جعلی طریقے سے دھوکے کے ساتھ کیوں جیتتا؟ انسان کا ضمیر زندہ ہونا چاہئے، مردہ نہیں‘‘۔ یہ واقعہ مجھے قومی اسمبلی میں اسپیکر کا الیکشن لڑنے والے عامر ڈوگر کی تقریر سن کر یاد آیا، ملتان کے ملک عامر ڈوگر نے مردہ ضمیر کے حامل ممبران کی طرف چہرہ گھماتے ہوئے کہا ’’رنگ اڑے ہوئے تھے، ضمیر مردہ تھے، کل کا اجلاس تعارفی نہیں تعزیتی سیشن تھا، یہ ایوان کیسے بالادست بنے گا جو ہمارا مینڈیٹ چوری کر کے بیٹھا ہے‘‘۔ عامر ڈوگر کی باتیں بجا مگر جعلی مینڈیٹ کی اس منحوس آندھی میں کچھ چراغ ایسے بھی ہیں جو روشن رہے، جن کے ضمیر زندہ تھے انہوں نے خود کو بجھنے نہیں دیا، ان میں سے ایک روشن چراغ ڈاکٹر نثار احمد چیمہ ہیں۔

میں ذاتی طور پر ڈاکٹر نثار احمد چیمہ کو برسوں سے جانتا ہوں، میرا ان سے پہلا تعارف نسیم انور بیگ کے گھر پر ہوا تھا، شام ہوتے ہی نسیم انور بیگ کے گھر پر اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کی ایک محفل جمتی، کئی دانشور اور اہل فکر یہاں دل کی بھڑاس نکالتے پھر نسیم انور بیگ کی شفقت بھری آواز زخموں پر مرہم بن کر نازل ہوتی، ان دنوں ڈاکٹر نثار احمد چیمہ راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کے ایم ایس تھے۔ ایک زمانے میں برادر عزیز تنویر اعوان کا بھی نسیم انور بیگ کے ہاں ہونے والی محفل میں ذمہ دارانہ کردار ہوا کرتا تھا۔ خیر! باتیں لمبی ہو جائیں گی، قصہ مختصر ڈاکٹر نثار احمد چیمہ 2018ء میں ن لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بنے، الیکشن 2024 میں وہ ن لیگ کی جانب سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے، ان کے مقابلے میں مسٹر ’’کلین‘‘حامد ناصر چٹھہ کے فرزند محمد احمد چٹھہ تھے، احمد چٹھہ پر بھی زمین اسی طرح تنگ تھی جس طرح عامر ڈوگر، اسلم اقبال، شہر یار آفریدی اور عمر ایوب خان سمیت سینکڑوں امیدواروں پر تنگ تھی۔ احمد چٹھہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ تھے، اس لئے پوری الیکشن کمپین میں نظر نہ آ سکے، احمد چٹھہ کی انتخابی مہم ان کے بزرگ والد حامد ناصر چٹھہ نے چلائی۔ 8فروری کو الیکشن ہوئے، ڈاکٹر نثار احمد چیمہ ہار گئے، انہوں نے ہار تسلیم کی، نہ صرف ہار تسلیم کی بلکہ جیتنے والوں کو مبارکباد بھی دی۔ ڈاکٹر نثار احمد چیمہ کو ’’ادھر ادھر‘‘ سے کہا گیا مگر ڈاکٹر چیمہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ’’جب میں ووٹوں سے ہار گیا ہوں تو اب جعلی مینڈیٹ سے سیٹ نہیں چاہئے، میرا ضمیر مردہ نہیں ہے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کی طرح خواجہ سعد رفیق، سردار جاوید اختر ، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور حافظ نعیم الرحمٰن سمیت چند اور لوگوں نے زندہ ضمیر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ آپ کے ملک میں زندہ اور مردہ ضمیروں کا تناسب کیا ہے؟ حال ہی میں قائم ہونے والی اسمبلیوں کو دیکھیں تو وہاں مردہ ضمیروں کی فوج نظر آتی ہے، ایسے مردہ ضمیروں کے افتتاحی اجلاس کو تعزیتی سیشن نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ شاید ایسے ہی مردہ ضمیروں کے لئے ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا تھا کہ

ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ

افسوس جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ

تازہ ترین