جنگ کا نیا دور
پریس پر پابندیوں کے خلاف میر خلیل الرحمٰن کے قلم سے 15اکتوبر 1947کو لکھا گیا پہلا یادگار اداریہ
پاکستان کی جدوجہد میں سب سے زیادہ حصہ مسلم پریس کا ہے۔ اس کمزور پریس نے جس دیانتداری سے مسلم قوم کی بے لوث خدمت کی ہے، اس کی مثال کسی قوم کی تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے اور اس میں کوئی کلام نہیں کہ آج پاکستان عملی شکل میں نہ بنتا اگر مسلم اخبار نویسوں کا یہ چھوٹا سا گروہ قوم کے دماغوں میں انقلابی رجحانات پیدا نہ کرتا۔ ہندوستان کے دارالسلطنت دہلی میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے اس ’’قلمی جہاد‘‘ میں نمایاں حصہ لیا، یہی وجہ ہے کہ آج جنگ، سردار پٹیل کی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتہ میں جنگ سے پانچ سو روپے کی ضمانت طلب کی گئی اور ’’آزادی پریس‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والی نام نہاد جماعت کی حکومت نے فاشٹ حربوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پابندی عائد کی ہے کہ لیڈنگ آرٹیکل، مراسلات اور خبریں سنسر کرائی جائیں۔ مہذب دنیا میں کسی ملک میں اس طرح پریس کی آواز کو نہیں کچلا گیا جس طرح ہند کی نام نہاد نمائندہ حکومت، اقلیت کے پریس کو کچلنے کے لئے مجرمانہ کارروائیوں کو بروئے کار لا رہی ہے۔
آج دارالسلطنت ہند کا مسلم پریس نیم جان ہو رہا ہے۔ ’’ڈان‘‘ کے دفتر کو جنونی، نام نہاد آزاد افراد نے توڑ ڈالا ہے۔ دیگر مسلم اخبارات کے اخبار فروش جان کے خوف سے اخبار فروخت نہیں کر سکتے۔ حکومت کا فرض تھا کہ اخبارات کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں بہم پہنچاتی، وہ پریس جو ڈالمیا، برلا جیسے کروڑ پتی سرمایہ داروں کے سرمایہ سے نہیں بلکہ سفید پوش، محنتی و دیانتدار افراد کی مسلسل جدوجہد سے جاری ہے۔
اسے ان سیاسی ایوانوں سے جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا یہ مداوا کرتی، مگر حکومت ہند نے اس نیم جان مسلم پریس کو ضمانتوں و دیگر غیرمہذب پابندیوں کے تیروں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ ڈان بند ہو چکا ہے مگر ضمانت اور پابندیاں زندہ ہیں، یہ اس وقت ہو رہا ہے جب کہ قائداعظم کے اعلان پر سر تسلیم کرتے ہوئے مسلمانان ہند اور اس کے پریس نے ببانگ دہل حکومت ہند کی وفاداری کے اعلانات کرنے شروع کر دیئے تھے۔
ان کارروائیوں کے پس پشت ایک منظم سازش ہے کہ مسلم پریس کو کچل دیا جائے اور ان اخباروں کو سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔ ان کے مردہ جسم میں نئی روح پھونکی جائے جنہیں15اگست سے قبل مسلمانان ہند ’’غدار ملت‘‘ تصور کرتے تھے۔ ’’مسلم پریس‘‘ کا قصور یہ ہے کہ اس نے مسلمانان ہند کے جذبات کی ترجمانی کی۔ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی حمایت کی۔
اختلاف رائے کی سزا جو دی جا رہی ہے، وہ جمہوری دور کی ایک بدترین مثال ہو سکتی ہے۔ مسلم پریس، ہندوستان میں نازک گھڑیوں سے گزر رہا ہے۔ اس دس سالہ سیاسی کشمکش میں ہزاروں مشکلات سے گزر چکا ہے۔ اب بھی وہ اعلائے حق کے لئے آخر وقت تک جدوجہد کرے گا۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ دہلی میں آواز حق اس وقت تک بلند کرتا رہے گا جب تک نازی حربے اس کا گلا نہ گھونٹ دیں۔
’’پاکستان‘‘ کے قیام سے قبل منتظمین روزنامہ جنگ نے ارادہ کر لیا تھا کہ پاکستان کے دارالخلافہ کراچی میں روزنامہ جنگ کا اجراء کیا جائے۔ جشن پاکستان کے دوران جنگ کے لئے دفتر بصد مشکل حاصل کر لیا گیا۔ پریس اور نیوز ایجنسیوں کو پیشگی رقم دے دی گئی جس وقت دہلی سے اسٹاف لانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اسی وقت اچانک ہولناک فساد سے دہلی کے مسلمان باشندوں کو دوچار ہونا پڑا، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ کراچی میں اخبار کے اجراء میں عارضی تعطل پیدا ہو گیا۔
چند دنوں سے بظاہر امن قائم ہو گیا ہے تو کچھ اسٹاف بذریعہ ہوائی جہاز یہاں آ گیا ہے۔ ہم زیادہ دیر انتظار کرنا نہیں چاہتے اور ان خدمات کو جو ہم نے اپنی غلام قوم کی آزادی کے لئے وقف کی ہیں، زیادہ عرصہ تک ’’آزاد قوم‘‘ کی آزاد حکومت کی خدمت کرنے سے روکنا نہیں چاہتے، اسی لئے آج جنگ کو آزاد باشندوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں، عجلت کی وجہ سے ممکن ہے کہ اس میں کچھ خامیاں ہوں مگر خدمت قوم کا جذبہ ہماری جراتوں کو بڑھا رہا ہے۔
گر قبول افتد زہے عزو شرف
جنگ کے اجراء کا مقصد تجارتی منفعت نہیں ہو سکتا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس بحرانی دور میں ہم اشتہارات کی زیادہ توقع نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی سے اردو پریس کی ہمت افزائی نہیں کی جاتی ۔ ہم ان مشکلات کے باوجود پریس کو زندہ رکھنے اور اسے طاقتور بنانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہماری توقعات مسلم قوم کے ان زندہ دل افراد سے قائم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پریس کی زندگی ان کی زندگی ہے اور پریس کی طاقت ان کی طاقت ہے۔
ابھی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوا، مسلم قوم پر ابھی تک آفات کے بادل چھا رہے ہیں۔ ساڑھے چار کروڑ مسلمان ہند کی سرزمین پر موت اور زندگی کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ پاکستان ابھی تک اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہوا۔ مسلمانوں کے اقتدار کے حاسد ابھی تک خلفشار پیدا کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔
ہماری قوم میں ایسے افراد ہیں، ہمارے پاکستان میں بھی نام نہاد پاکستانی موجود ہیں جو اپنے ذاتی اغراض و منفعت کے لئے ملک و ملّت کو قربان کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے جسم کے ان ناسوروں کو بھی صاف کرنا ہے اور ان کے چہروں سے زربفت کی نقاب کھینچ کر ان کے گھنائونے چہروں کو قوم کے سامنے عریاں کرنا ہے۔ ہمارے سامنے قوم کی مفلوک الحالی، مٹھی بھر سرمایہ داروں کی اغراض پسندی کا مسئلہ ہے۔
ہمیں قوم میں اعلیٰ کردار پیدا کرنے کے لئے اب قلمی جہاد کرنا ہوگا۔ ہمیں رشوت خوری اور بلیک مارکیٹنگ کے خلاف مسلسل جدوجہد کرنی پڑے گی۔ ہمیں سماجی گندگی دور کرنے اور قوم کو تعمیری پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے قلم کی طاقت کو صرف کرنا پڑے گا۔
ہمیں حکومت پر اگر ضرورت پڑی تو تعمیری تنقید سے گریز نہیں کرنا ہوگا۔ ہمارا قلم اعلائے حق کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔ ہمارے سامنے ملک و قوم کی بقا ہے، شخصیت پرستی نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ زندہ دل قوم ہماری ہمتوں کو اپنے تعاون سے بلند کرے گی اور ہماری اعلائے حق کی جراتوں کو بڑھائے گی۔
……٭٭……
تقسیم فلسطین
امریکہ اور برطانیہ اپنے مفادات کے پیش نظر روسی فوجوں کو فلسطین میں ایک لمحہ کے لئے بھی دیکھنے کو تیار نہیں
6دسمبر 1947ء کو لکھا گیا اداریہ
متحدہ اقوام کی مجلس عام نے ایک نئی خلفشار کا باب بین الاقوامی سیاست کے لئے کھول دیا ہے ۔ وہ خلفشار مسلسل تقسیم فلسطین کی منظوری سے شروع ہوا ہے اور نہ معلوم اس کی انتہا کیا صورت اختیار کرتی ہے ۔ مشرق وسطیٰ کےعرب ممالک و ہندوستان اور پاکستان کی زبردست مخالفت کے باوجود اس مجرمانہ تجویز کو منظور کردیا گیا ہے اور پانچ چھوٹے چھوٹے ممالک کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیشن کا تقرر کیاہے جو یکم اگست کو برطانوی افواج کےاقتدار اعلیٰ کے فلسطین میں خاتمہ کے بعد تقسیم فلسطین کو عملی جامہ پہنائےگا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ کمیشن اس اچانک اقدام کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگا یا نہیں؟ وقت کی رفتار صاف ظاہر کررہی ہے کہ عرب ممالک جو اپنی جان کی بازی لگانے پر تیار ہوچکے ہیں اور بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں وہ ان ممالک کی غیر تربیت یافتہ اورجدید فنون جنگ سے غیر منظم فوج کا مقابلہ نہایت آسانی سے کرسکتے ہیں اور اپنی قوت سے فلسطین پر قبضہ کرنے کی کافی طاقت رکھتے ہیں جو قوم جان دینے کو تیار ہوجائے اس کی منزل قریب تر ہوجاتی ہے اور دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت اسکے مقاصد کو کامیاب نہیں بناسکتی۔
حکومت برطانیہ کےارباب سیاست چاہے وہ برسراقتدار لیبر پارٹی ہو یا معزول اقتدار کنزرویٹو پارٹی اس خیال پر متفق ہے کہ برطانیہ اب فلسطین کےمسئلہ پر اپنی فوج اپنے سرمائے کو رائگاں نہیں کرے گی ۔ اسی لئے برطانوی حکومت نے لیگ آف نیشنز کی جانشین مجلس اقوام متحدہ کی گردن پر یہ بھاری اور ناخوشگوار بوجھ ڈال دیا ہے امریکہ بھی فلسطین کے یہودیوں کی ہمدردی کرنے کو تیار ہے لیکن تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی فوجوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
روس اس فرض کو پورا کرنے کے لئے تیار ہے مگر امریکہ اور برطانیہ اپنے مفادات کے پیش نظر روسی فوجوں کو فلسطین میں ایک لمحہ کے لئے بھی دیکھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ متحدہ اقوام کی مجلس تجاویز پاس کرسکتی ہے مگر اس میں بھی وہی خامی ہے جو لیگ آف نیشنز میں تھی یعنی کوئی مشترکہ فوج ایسی نہیں ہے جو طاقت کے بل پر اس کے فیصلوں کو منوائے۔ غرض فلسطین میں پائپ لائن کا گذرنا فلسطین کے لئے ایک عذاب ہوگیا ہے۔
یہودیوں سے امریکہ کی ہمدردی روس کی تقسیم سے دلچسپی ، برطانیہ کی اقتدار اعلیٰ سے دست برداری یہ سب مشرق وسطیٰ کے تیل کے چشموں کی سوداگری سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ۔ تمام عرب ممالک اس کے خلاف ہندوستان، پاکستان اور ایشیا کے صف اول کے ممالک خلاف، مگر یورپ کی طاقتوں اور روس کی شاطرانہ سیاسی مفاد کی وجہ سے ان کے گرگوں کی اکثریت ہونے پر عربوں کے ملک کو جن کے ساتھ اسلام کی کئی شاندار روایات وابستہ ہیں جو اسلام کا قبلہ اول ہے یورپ کے بے وطن یہودیوں کا وطن بنانے کے لئے یہ خوفناک تجویز پاس کردی جاتی ہے اور عرب ممالک کی آخری صلح کی ترمیم کو بھی ٹھکرا دیا جاتا ہے۔