8فروری2024ء کو ہونے والے انتخابات میں عوام نے منقسم مینڈیٹ دے کر سیاسی پنڈتوں کو پریشان کر دیا، جو صبح شام ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر سیاسی پیشن گوئیوں میں مصروف رہتے تھے اور اپنی پسند کی پارٹی ولیڈر کی کامیابی کی نوید سنایا کرتے تھے۔ جب انتخابات کے نتائج آئے تو حسب معمول ہارنے والوں نے دھاندلی کا شور مچایا اور نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جمہوریت پر عوام کا غیر متزلزل اعتماد عام انتخابات میں نمایاں نظر آیا اور جمہوری نظام کی کامیابی عیاں رہی۔ عوام پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ووٹ کی طاقت سے نہ صرف نظام بدلا جا سکتا ہے بلکہ اپنی پسند کی جماعت اور امیدواروں کا انتخاب کر کے انہیں اسمبلیوں میں بھیج کر اقتدار کے سنگھاسن پر بھی براجمان کیا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی تتر بتر جماعت کو عوام نے ووٹ دے کر از سرِنو منظم کر دیا۔ ایک انتخابی نشان کی عدم دستیابی اور قیادت کی عدم موجودگی کے باوجود عوام نے انتخابات والے دن تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسکرین کی اوٹ میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے نشانات پر ٹھپے لگا کر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے جمہوریت پر اپنے غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا۔ پاکستان جیسے غیر تعلیم یافتہ معاشرے میں جس کی دیہی آبادی اکثریت میں ہونے کے باوجود اپنی پسند کے امیدوار کا نام بیلٹ پیپر پر چھپے ہونے کے باوجود پڑھنے سے قاصر ہو اور وہ نشان کی مدد سے اپنے امیدوار کو منتخب کرنے پر قادر ہو وہاں پر ایک پارٹی کو قانونی موشگافیوں میں الجھا کر نشان سے محروم کر دیا جائے اور اسکے امیدواروں کی اکثریت خود کو گرفتاری سے بچانے کیلئے مفرور ہو جن کو کارنر میٹنگ کرنے،بینر لگانے اور پمفلٹ چھاپنے کی اجازت نہ ہو۔ اسکے باوجود تحریک انصاف کے امیدواروں کا اتنی بڑی تعداد میں جیت کر اسمبلیوں میں آ جانا ظاہر کرتا ہے کہ عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت کا اندازہ ہے اور وہ اسے استعمال کرنا بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ایک صوبہ کے پی کے میں مکمل اقتدار تحریک انصاف کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پنجاب میں بھی خاطر خواہ تعداد کو اسمبلی بھیجا گیا۔ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ 8فروری کے انتخابات میں عوام نے جمہوریت کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرکے شہید بے نظیر بھٹو کی بات کو سچ ثابت کر دیا۔ آئندہ کا سیاسی منظر نامہ کچھ اس طرح بنتا نظر آرہا ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے نقطۂ نظر اور بقا کی جنگ نہ صرف اسمبلیوں میں لڑیں گی بلکہ یہ جنگ عدالتوں اور سڑکوں پر بھی لڑی جائے گی۔ ویسے ایک تعلیم یافتہ جمہوری معاشرے کی روایت تو یہ ہونی چاہیے کہ سیاسی پارٹیاں اسمبلی کے اندر اپنے منشور کی روشنی میں اپنی جنگ لڑیں۔ آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے نقطہ ٔہائے نظر پیش کیے جائیں۔ ایشوز پر بات کی جائے اور پھر ایک اصول پر اتفاق کرتے ہوئے ملک وقوم کے مفاد میں فیصلے کیے جائیں۔ کاش ہمارے سیاسی زعما اتنے مخلص ہوجائیں کہ ذاتی اور پارٹی مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف اور صرف قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ خاص طور پر معاشی محاذ پر تما م سیاسی قیادت کو یکجا ہو کر پروفیشنل انداز میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنے میں پہل کرنی چاہیے تھی اور حلف اٹھانے کے بعد سب سیاسی قیدیوں کی فی الفور رہائی کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔ اس سے ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا اور ملک میں سیاسی رواداری پروان چڑھتی۔ عوام نے منقسم مینڈیٹ دے کر ایک قومی حکومت کے قیام کا اشارہ دیا ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں مل کر حکومت کریں اور وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں۔ اس کیلئے ضروری تھا کہ سیاسی قیدیوں بشمول تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو فوراً رہا کر دیا جاتا اور ملک کی اقتصادی حالت کی بہتری کے تمام سیاسی زعما سرجوڑ کر بیٹھ جاتے۔ اگر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر وہ چین سے حکومت کرلیں گے تو یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ حربہ نہ ماضی میں کامیاب رہاہے اور نہ مستقبل میں کامیاب ہو گا۔ معاشی استحکام کیلئے سیاسی سکون بہت ضروری ہے۔ جس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کا میز پر بیٹھ کر بات کرنا ضروری ہے۔ سیاسی جماعتیں بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں کرتیں۔ سیاسی لوگوں کی سیاست کا محور ہی ڈائیلاگ ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے حالات کے مشاہدے کے بعد سیاسی ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع کیا۔ تحریک انصاف کے وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات بارش کا پہلا قطرہ تھا جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ تحریک انصاف کے بڑے مخالفوں میں شامل تھے مگر 8فروری کے الیکشن کے بعد دونوں جماعتوں نے بات چیت کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھول دئیے۔ اسی طرح تحریک انصاف نے جماعت اسلامی، سنی اتحاد اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے ساتھ بات چیت کے علاوہ سیاسی راہ پر تعاون بھی بڑھایا ہے بلکہ محمود خان اچکزئی کو صدارتی امیدوار نامزد کر کے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے سیاست میں کل کے دشمن آج کے دوست ہوتے ہیں لہٰذا سیاسی دوستی کا دائرہ کار پھیلانے کی ضرورت ہے تاکہ سیاسی بھنور سے نکلا جا سکے اور مستقبل کیلئے ایک مربوط اور منظم لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔