السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
ہمارا اصل عشق
خدا کرے، یہ سال ہم سب کے لیے بہت ہی مبارک ثابت ہو۔ ہمارا اور’’سنڈے میگزین‘‘ کا ساتھ اِسی طرح بنا رہے۔ انتخابات کے بعد آنے والی نئی حکومت ہماری صحافی برادری کے مسائل کا ادراک کرے۔ اُن کے لیے کچھ ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں کہ پچھلے کئی سالوں کے دُکھوں، پریشانیوں کا مداوا ہوجائے۔ اور ہم ماضی کی طرح ’’پرنٹ میڈیا‘‘ کو، جو درحقیقت اصل اور جینوئن صحافیوں کی مادرِعلمی ہے، پھر سے پنپتے اورعروج پاتے دیکھیں۔ سچ تو یہ ہےکہ ہمارا تواصل عشق ’’اخبارات و جرائد‘‘ ہی ہیں۔ باقی سب ذرائع ابلاغ توگویا ’’جھوٹ کی فیکٹریاں‘‘ ہیں۔ (عمرعبداللہ، کوئٹہ)
ج:جیتے رہیے، شاد آباد رہیے، جینوئن صحافیوں کا درد محسوس کرنے، اُن کے لیے آواز اُٹھانے اور اِس طرح خلوصِ دل سے دُعا کرنے کا بےحد شکریہ۔
سیرو تفریح کا مول نہیں
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا فکرمند نظر آئے، تو ’’رپورٹ‘‘ میں ڈاکٹر سیف اللہ ضرورتاً بائیو ٹیکنالوجی کے استعمال زپر زور دیتے۔ اریبہ گل نے اسموگ کا کچا چٹھا بیان کیا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر ایم عارف سکندری ملیریا کے نامکمل علاج کو خطرناک قرار دے رہے تھے، تو ’’جہانِ دیگر‘‘ کا مستقل ہونا بہت خوش آئند ہے، جب کہ قیصر قصری کے قسط وار افسانے کا جواب نہ تھا۔ اگلے جریدے کے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سلسلے میں محمود میاں نجمی ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ قوم شعیب علیہ السلام پر عذاب الٰہی کا‘‘ سُنا رہے تھے۔
پڑھ کے آنکھیں کُھل گئیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے سال2024ء کو انتخابات کا سال قرار دیا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر نے ممتازمحقّق، ماہرِ تعلیم، بلوچستان کے پہلے پی ایچ ڈی ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوی سے شان دار بات چیت کی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں سعدیہ کرن نے موجودہ مکمل حالات میں کمپیوٹیشنل تعلیم کو ضروری قرار دیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اپنے اخلاق سنوارنے کا مشورہ دے رہی تھیں۔ بے شک، اِس طرح تو دشمن بھی دوست بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد انجم شاہد نے کینو کے بیش بہا فوائد بیان کیے اور ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی ہر ایک کہانی بھی اپنی جگہ کمال ہی تھی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر صائمہ اسماء نے برطانیہ کے مغربی وسطی شہر، کوونٹری کی جو سیر کروائی، بخدا اس کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ ایسی سیرو تفریح تو خود جاکے کرنا بھی ممکن نہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طارق بلوچ صحرائی ’’بھرم‘‘ کے عنوان سے خُوب صُورت افسانہ لائے۔ ’’غزہ کی مٹی پکارتی ہے‘‘ بھی ریحانہ عثمان نے بڑے دل سے سنائیخ جب کہ نورجہاں خالد بھی دل کی باتیں ہی کر رہی تھیں۔ اور متفرق میں مدثر اعجاز ’’ماورائے زمین زندگی، حقیقت یا فسانہ‘‘ لے کر آئے۔ رہا ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو اس میں ہمارا خط موجود تھا۔ بہت شکریہ اور آپ نے ہمیں کئی ڈگری ہولڈرز سے زیادہ تعلیم یافتہ کہا، تو یہ بس آپ ہی کی ذرّہ نوازی ہے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3 کراچی)
ج: ہماری کوئی ذرّہ نوازی نہیں، کبھی کبھی لوگ خُود اپنےطرزِعمل سے’’ تعلیم یافتہ‘‘ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ جیسا کہ مُلک میں انتخابات جیسے بھی ہوئے، نتیجہ جو بھی آیا، موجودہ حالات میں ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ ’’آگے بڑھا جائے‘‘، کیوں کہ اِس وقت مُلک معاشی و سماجی طور پر جہاں کھڑا ہے، اگر آگے کی سمت نہیں دیکھا گیا تو بس، پھر ایک گہری کھائی ہی مقدر ہے۔ تو ایسے میں ’’تعلیم یافتہ‘‘ ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے مریم نواز بھی بنا جا سکتا ہے(بطوروزیرِاعلیٰ، پہلی تقریر بیّن ثبوت ہے) نہیں تو ’’جہالت‘‘ کے مزید مینار کھڑے کرکے وزیرِاعلیٰ، کے پی کے بننے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مطلب، اگر کسی نے قسم ہی کھا لی ہو کہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، رہنا حالتِ احتجاج میں اور سڑکوں ہی پر ہے، تو پھر ؎ خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی… نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
انتہا ہوگئی، انتظار کی…
’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کے تیسرے حصّے کے مضامین بھی آج پڑھنے کو مل گئے۔ کیا اچھے مضامین تیار کیے گئے۔ ہر تحریر ایک سے بڑھ کر ایک لگی اور پھر ’’انٹرویو‘‘ میں حماس کے ترجمان، ڈاکٹر خالد قدومی سے بات چیت کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا، بہت ہی پسند آیا۔ دراصل ڈاکٹر خالد نے جوابات ہی بہت عُمدہ دیے۔ سرِورق کی ماڈل، فروا کو کوٹ میں دیکھ کر ایسا لگا کہ واقعی کراچی میں بھی سردی آہی گئی ہے۔ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں ثنا توفیق کا خط پڑھنے سے پتا چلا کہ اُن کی سن2022ء کی ترکیب اب جاکر شائع ہوئی۔ بھئی، کمال کردیا، یہ توآپ نے۔ انتظار کروا کروا کے بچّی کا حشر ہی کردیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: بچّی تو شاید بھیج کے خُود بھی بھول بھال گئی ہوگی، آپ ہمای ثابت قدمی اور میرٹ کو داد دیجیے کہ اگر کوئی تحریر قابلِ اشاعت ہو تو ہم اُسے ضائع کرنے کےبجائے کیسے سالوں سنبھال رکھتے ہیں۔
بہت کچھ حاصل کیا ہے
بےشک، ’’سنڈے میگزین‘‘ ایک انتہائی معیاری اور منفرد شمارہ ہے، جو اپنے اندر بےشمار خوبیاں سموئے ہوئے ہے۔ اِس کے سلسلے وار مضامین ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ حالات و واقعات، رپورٹ، متفرق، گفتگو، انٹرویو، کہی ان کہی، پیارا گھر، ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش اور نئی کتابیں، خصوصاً ایک پیغام، پیاروں کے نام۔ سب ہی اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اس میگزین سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ (شری مُرلی چند گوپی چند گھوکھلیہ، ریلوے اسٹیشن روڈ، مہر پاڑہ، کلینک گلی، پیر کنک شاہ بخاری، شکارپور)
مرتے دَم تک ساتھ
حسبِ معمول اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ سالِ رفتہ کے آخری اور سالِ رواں کے پہلے شمارے پر۔ ’’2024ء : دنیا میں انتخابات کا سال‘‘ ہے، منور مرزا نے پیشگی ہی آگاہ کردیا تھا۔ اللہ کرے، دنیا بھر میں بہترین قیادت سامنے آئے، عوام اپنے پسندیدہ لیڈرز ہی کو منتخب کریں۔ ممتاز محقّق، ماہرِ تعلیم و قانون، بلوچستان کے پہلے پی ایچ ڈی ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوی کا ’’انٹرویو‘‘ شان دار تھا۔ ’’ماورائے زمین زندگی، حقیقت یا فسانہ‘‘ اچھی کاوش لگی۔
میرا بھی خیال ہے کہ خلائی مخلوق کا وجود ضرورموجود ہے۔ ’’جلوۂ دانشِ فرنگ‘‘ کی دوسری اور آخری قسط بھی شان دار تھی۔ شہناز سلطانہ کے خط کےجواب میں آپ نے اُن کی تحریر کو مُردہ ہی نہیں، حنوط شدہ قرار دےدیا۔ اب اگر اِس کے بعد بھی وہ خط لکھتی ہیں تو حیرت ہی ہوگی۔ سال کے پہلے شمارے میں ہمیشہ کی طرح آپ کا ’’حرفِ آغاز‘‘ شان دار تھا اور مکمل شمارہ گزشتہ سال کے حالات و واقعات ہی سموئے ہوئے تھا۔ اُمتِ مسلمہ، پاک افواج، بساطِ عالم، عدالتِ عظمٰی، خارزارِ سیاست، ایوانِ نمائندگان، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا سے متعلق تجزیات تھے، تو درمیانی صفحات میں پرانے سال کی ٹھٹھرتی ہوئی پرچھائیاں تصاویر کی شکل میں ملیں۔
’’سال2023ء کی بہترین چٹھی‘‘ کے ساتھ آپ نے گزشتہ سال کے خطوط کا بہترین تجزیہ بھی پیش کیا اور بہت شکریہ کہ آپ نے مستقل تبصرہ نگاروں میں مجھ ناچیز کا نام بھی شامل فرمایا کہ مَیں واقعی کتنے سالوں سے جنگ میگزین سے جُڑا ہوا ہوں اور یہ ساتھ ان شاء اللہ مرتے دَم تک قائم رہے گا، کیوں کہ ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ سے ہمیں والہانہ عشق جو ہوا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: آپ نے کہہ دیا، خلائی مخلوق موجود ہے، تو پھر کسی کی جرات ہے کہ خلائی مخلوق کے وجود سے انکار کرے۔ ایک پاکستانی اگر کوئی بات کہہ دے، تو پھرتوکسی کا ثبوت مانگنا بھی گویا گناہِ عظیم ہے۔ اورآپ نےشہناز سلطانہ کو دیے گئے جواب کا ذکر کیا، اطلاعاً عرض ہے، ہنوز اُن کے متعدّد خطوط، مضامین مسلسل وصول پا رہے ہیں۔ مطلب وہ بس کچھ بھی لکھ بھیجنے پر یقین رکھتی ہیں۔ کچھ سُننے، سمجھنے، پڑھنے وڑھنے پر بالکل نہیں اور بھئی، اللہ آپ کو لمبی حیاتی دے تاکہ آپ کا ساتھ برقرار رکھنے کی خاطر ہی سہی، میگزین کا سفر تو جاری و ساری رہے۔
’’سمندر کو سیپ میں بند کردیا‘‘
ڈھیروں سلام، ڈھیروں بہترین دلی دُعائیں۔ اے کاش! کہ نیا سال سب کے لیے بہت مبارک ثابت ہو۔ ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کا مطالعہ بنظرِغائر کیا۔ جریدے کا ’’حرفِ آغاز‘‘ سو فی صد وہی تھا، جوکہ ہونا چاہیے تھا۔ سال کے365دن جس طرح رُلا رُلا کر، دل دُکھا دُکھا کر گزرے، ’’حرف آغاز‘‘ اُسی کا پرتو تھا۔ ایک ایک حرف، جیسے اشک بار، شکوہ کُناں، ہر سطر لہو رنگ میں ڈوبی، ہر نقطہ فریادی اور ہماری حالتِ زار پر ماتم کُناں بھی۔ بہرکیف، جو کچھ تھا، حقیقت پر مبنی تھا۔ وہ کیا ہے کہ اپنا چہرہ ہی مزیّن ہو، اگر داغوں سے… آئینے سے تو وضاحت نہیں مانگی جاتی۔
آپ نے ہمیشہ کی طرح سمندر کو سیپ میں بند کر کے ہی دکھایا۔ گویا ایک صفحے پر پورے سال کا لہو لہو کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ سالِ گزشتہ کا محاسبہ اس طرح سے کیا کہ کچھ بھی نگاہِ تیرباز سے پوشیدہ نہ رہ سکا۔ پورے جریدے کے مطالعے سےبھی کوئی پہلو تشنہ محسوس نہیں ہوا۔ پورے سال کا منظرنامہ صفحۂ قرطاس پر موتیوں کی طرح بکھا پایا۔ واہ جناب، واہ! یہ دسترسِ کمال آپ ہی کو حاصل ہے۔
یوں کہیے، سال نامے کی لگ بھگ تمام تر تحریریں حالات و واقعات کی منہ بولتی تصاویر تھیں۔ ابھی لفافہ بند کر ہی رہی تھی کہ دوسرا ایڈیشن بھی آپہنچا۔ زہے نصیب، ’’کشمیر‘‘ پر تحریر پڑھنے کو ملی، اچھی لگی۔ ؎ زرد موسم میں یہ بھی یہ شاخیں ہری رہتی ہیں… ماشاء اللہ، اللہ پاک کہیں نہ کہیں مداوا ضرور کرتا ہے۔ منور مرزا کی تحریر؎ وہ قرض اتارے ہیں، جو واجب بھی نہیں تھے… لاجواب تجزیہ ثابت ہوا۔ ڈاکٹر ناظر محمود نے بھی صد فی صد سچ کہا ؎ چراغ سب کے بُجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں۔ مطلب، سب ہی زد میں آئیں گے، باری آنے پر۔
بابر علی اعوان نے ’’علاج معالجہ‘‘ کی ذیل میں عمدہ تجزیہ پیش کیا۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر آپ کی تحریر تو ہمیشہ سحرانگیز ہوتی ہے اور اِس بار تو ماڈل بھی ماشاء اللہ کمال ہی تھی۔ عنبریں حسیب عنبر، رائو شاہد اقبال کے تجزیات اور وہ نامے، جو آتے ہیں آپ کے نام، سب ہی کے کیا کہنے۔ (نرجس مختار، خیرپور میرس، سندھ)
ج: اس قدر ہمّت و حوصلہ افزائی اور خلوص و ستائش کا بے حد شکریہ۔ آپ لوگوں کو ہمارے خصوصی ایڈیشنز پسند آئے، ہماری ساری تھکن اُتر گئی، سب محنت وصول پائی۔
فی امان اللہ
اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی ٹیم کو بمع اہل و عیال خوش رکھے، زندگی میں آسانیاں فرمائے۔ 24 اور31دسمبر کے شماروں میں ڈاکٹر صائمہ نے انگلینڈ میں قیام کے دوران اپنے تعلیمی ادارے اورہاسٹل میں گزرےشب وروز کی مصروفیات، وہاں پیش آنے والی چھوٹی موٹی مشکلات اور عام واقعات کو جس خُوب صُورت انداز سے تحریر کیا، وہ کسی دل چسپ سفر نامے سےکم نہیں۔ سالِ رفتہ میں’’ناقابلِ فراموش‘‘ صفحے پرایک ’’طبیب طبِ بالمثل‘‘ بہت نمایاں رہے۔ اس سے پہلے کسی شمارے میں ایک ’’طبیبۂ طبِ بالضِّد‘‘ نےبھی کراچی سے خیرپور کے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سفرکی رُوداد بڑی انکساری سے بیان کی، جس میں خُود پرستی کا شائبہ تک نہ تھا۔ مگر ہول ناکی اِس قدر تھی کہ پڑھ کر’’بلند فشارِ خون‘‘ یا ’’اختلاجِ قلب‘‘ کا ماراکوئی قاری، مُلکِ عدم کے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سفر پر بھی جا سکتا تھا۔
اس لیےقارئین سےالتماس ہے کہ اس واقعے کی سنگینی کم کرنے کے لیے آخری حصّے کو اس طرح پڑھیں۔ ’’سورج غروب ہوتے ہی اندھیرے نے ہر طرف اپنی سیاہ زلفیں بکھیر دیں۔ دشتِ تنہائی میں دُور دُور تک نہ کوئی بندہ تھا، نہ بندے کا پُتر۔ ہمارے گاڑی مستی و سرشاری کے عالم میں چوکڑیاں بھر رہی تھی، منظراتنا رُوح پرورتھا کہ ہم راہ کی بھول بھلیّوں ہی میں کھو گئے، یہاں تک کہ گاڑی کا پیٹ پیٹرول سے بالکل خالی ہوگیا اور وہ فرّاٹے بھرنے کے بجائے خرّاٹے لینے لگی۔
گاڑی کوسوتا دیکھ کر ہماری چائے کی خوابیدہ طلب جاگ اُٹھی، لہذا تھرماس سے گرم گرم چائے نکالی اور کُھلی فضامیں باجماعت ’’سڑوکے‘‘ (گھونٹ بھرنے) لگانے لگے۔ ان نشاط انگیز لمحات سے ابھی پوری طرح لُطف اندوز بھی نہ ہو پائے تھے کہ نہ جانے کہاں سے ٹریفک پولیس والا آٹپکا۔اوراُس’’مَرن جوگے‘‘نےپیٹرول کا بندوبست کرکے اَن جان راہوں کے ہمارے حسین سفر کا سوا ستیا ناس کردیا۔‘‘ ’’سالِ نو ایڈیشن کا ’’حرفِ آغاز‘‘ اگرچہ خُوب صُورت اشعار سے آراستہ، حسبِ سابق آپ کے علم و بینش کا مرقّع تھا، مگرغزہ کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والی قیامت کےباعث ایک اداسی بھی لیے ہوئے تھا۔ گزرے سال میں مُلک کے سیاسی، معاشی و عدالتی بحران اور اُن کے محرّکات پر آپ کے نقطۂ نظر سے قدرےاختلاف ہے، اس لیے بیٹا! خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ سُننے میں کچھ مضائقہ نہیں۔
میگزین کے باقی صفحات بھی اِس ’’خانہ خرابی‘‘ کی تمام تر ذمّے داری اپنی ایک ہی سوختہ بخت ’’سوکن‘‘ پر ڈال رہے تھے، جو سلاخوں کی چلمن کی اوٹ میں ’’سینۂ رقیباں‘‘ پر مونگ دل رہی ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں گزشتہ سال کی اعزازی چھٹیوں کے لکھاریوں کو مختلف القابات و خطابات سے نوازا گیا۔ نیناں اکبر، شبینہ گل انصاری، عشرت جہاں اور شائستہ اظہر کےلیے بالترتیب ’’نٹ کھٹ سی‘‘، ’’پیاری ماں‘‘، ’’سنجیدہ و متین‘‘ اور ’’مہذّب و شائستہ‘‘ جیسے القاب اُن کے اندازِ تحریر سے قارئین کے نگار خانۂ تخیل میں اُبھرنے والی ان کی شبیہات کے عین مطابق تھے، خاص طور پر بیٹی اقصیٰ منور کے لیے ’’ملکۂ جذبات‘‘ بہت بھایا، جو یقیناً اُن کے تحریر کردہ افسانے ’’حفظِ ماتقدم‘‘ میں پنہاں اُن کی اپنی ہی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ ’’سال کی بہترین چِٹھی ‘‘ کا رتبۂ اعلیٰ شائستہ بیٹی کےحصّے آیا، جو بلاشبہ اُنہی کا حق تھا۔ سال بھر میں کوئی بھی چٹھی اُس کے پاسنگ بھی نہیں تھی۔ اور، میرے لیے ’’صاحبِ طرز لکھاری‘‘ کےالفاظ نے مجھے جو انفرادیت بخشی، وہ کسی آسکر سے کم نہیں۔ (محمّد جاوید، اقبال ٹائون، راول پنڈی)
ج :آپ کے ’’صاحبِ طرز لکھاری‘‘ ہونے پر تو غالباً اب کسی کو بھی کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا ہوگا۔ ہاں البتہ، ایک بات کا ہمیں بھی بہت دُکھ ہے کہ آپ جیسا لائق فائق، صائب الرائے شخص بھی کس رَو میں بہہ گیا۔ یہ جو آپ کی ’’سوختہ بخت سوکن‘‘ ہے ناں، اِسے تو سلاخوں کے پیچھے بھی چین نہیں۔ یہ وہاں سے بھی شرانگیزی، فتنہ فساد کا کوئی موقع نہیں جانے دے رہی۔ تازہ مثال آئی ایم ایف کو لکھا جانے والا خط ہے۔
* مَیں نے چند ماہ پہلے ایک ناول ’’گورکھ دھندا‘‘ کے عنوان کے تحت آ پ کی خدمت میں بذریعہ ڈاک بھیجا تھا، جو بقول آپ کے، آ پ کو نہ مل سکا۔ شاید محکمۂ ڈاک کی غفلت کی نذر ہوگیا۔ مَیں اِس ناول کے کچھ صفحات اب آپ کو ای میل کررہا ہوں۔ اِن کو پڑھنے کے بعد آپ اس ناول کی بابت کوئی رائے قائم کرنے کے قابل ہوسکیں گی۔
یاد رہے، مَیں اس سے پہلے اخبار جہاں، سسپنس، سرگزشت ڈائجسٹ اور ماہنامہ نئے افق وغیرہ میں دو درجن سے زائد مختصر اور طویل کہانیاں لکھ چُکا ہوں، جن میں سے ’’موہنی‘‘ اور ’’الم نصیب‘‘ کو خاصا سراہا بھی گیا۔ ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے لیے لکھنا نہ صرف میرے لیےاعزاز ہوگا بلکہ یہ میرا دیرینہ خواب بھی ہے۔ اُمیدِ واثق ہے کہ اس سے متعلق جلد آ گاہ کیا جائے گا۔ (علی امجد، ساہیوال)
ج:آپ کی ای میل کے ساتھ تو ہمیں کوئی تحریر موصول نہیں ہوئی، البتہ بذریہ ڈاک بھیجا جانے والا مسوّدہ ضرور مل گیا۔ لیکن اُس کے بھی چند صفحات ہی دیکھے جا سکے کہ ایک تو آپ کی ہینڈ رائٹنگ خاصی گنجلک ہے، دوم طرزِ تحریرخاصابولڈ۔ اگرآپ جریدے کےمستقل قاری ہیں توآپ کواندازہ ہونا چاہیے کہ یہ ایک ’’فیملی میگزین‘‘ ہے اور اِس میں شایع ہونے والے مواد کے ضمن میں اخلاقیات، تہذیب و شائستگی کو لازماً ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ حالاں کہ آپ کا اندازِ تحریرعُمدہ ہے، تو اگر آپ کچھ حدود و قیود کے ساتھ دوبارہ کوئی کوشش کرنا چاہیں، تو ضرور کرسکتے ہیں۔
* مَیں نے کراچی یونی ورسٹی سے میرین بائیولوجی میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اب مَیں آپ کے جریدے کے لیے کچھ لکھنا چاہتی ہوں، تو کیا آپ مجھے طریقۂ کار سے آگاہ کر سکتی ہیں کہ تحریر کے لیے فونٹ، پیپر سائز وغیرہ کیا ہونا چاہیے۔ (شمائلہ ناز)
ج: ارے شمائلہ بی بی! اصل چیز آپ کی تحریر ہے۔ بس، تحریر ہمارے معیار کے مطابق ہونی چاہیے، یہ فونٹ، پیپر سائز وغیرہ آپ کے نہیں، ہمارے مسئلے ہیں۔ یوں بھی اگرتحریر اِن پیج کی کمپوزڈ فائل کی صُورت بھیجی جائے، تو اُس کا فونٹ بڑا، چھوٹا کرنا کیا مسئلہ ہے۔ ہاں اگر آپ ہاتھ سے لکھی تحریر بھیجیں تو حاشیہ، سطرلازماً چھوڑیں۔ نیز، صفحے کی بیک سائیڈ بھی خالی چھوڑ دیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk