السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کڑکتے، پھڑکتے جوابات
سب اپنے اپنے شوق و ذوق کے مطابق ہی مطالعۂ جریدہ کرتے ہیں۔ مَیں سب سے پہلے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پڑھتی ہوں کہ اِس سے ایمان تازہ اورپختہ ہوتا ہے۔ پولینڈ میں 8 سال بعد تبدیلی کا قصّہ پڑھا۔ بس، ہمارے اور ان کے درمیان فرق سچ اور جھوٹ کا ہے۔ ’’قائدِاعظم کی سیاست‘‘ سے متعلق تحریر دورِ حاضر کی اہم ضرورت لگی۔ آپ کی ازحد مہربانی کہ بڑے بڑے لکھاریوں، علم دوست اور اسلام کے شیدائیوں کے مضامین عوام تک پہنچا کر ایک تبلیغی مشن پرفائزہیں۔ اللہ آپ کوثابت قدم رکھے۔ ہم شعراء کے دل سے قدردان ہیں۔ عموماً لوگ اِنہیں بعد ازمرگ تمغے، اسناد دیتے ہیں، جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ علاّمہ رشید ترابی سے متعلق خُوب صُورت تحریر پڑھنے کو ملی۔
کان کے امراض سے متعلق ڈاکٹر انجم نوید بالکل درست فرمارہےتھے۔ اور’’جلوۂ دانشِ فرنگ‘‘ میں ڈاکٹر صائمہ نے کہا کہ ’’دال مسور کی خُوش بُو سے مجھے ایسا لگا کہ مَیں برطانیہ سے بورے والا آگئی ہوں۔ بہت ہی شان داراندازِ تحریر تھا اُن کا۔ کتابوں پر ایسے عُمدہ تبصرے منور راجپوت ہی کا خاصّہ ہیں اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو ہماری آنکھوں، دِلوں کی ٹھنڈک ہے، جس میں اِس بار رونق افروز برقی، نازلی فیصل، مریم طلعت، ریحانہ ممتاز، نواب زادہ بےکار ملک، مائرہ شاہین اور شاہدہ تبسم کے خطوط شامل تھے۔ یقین کریں، پڑھ کے مزہ آگیا۔ جب کہ آپ کے کڑکتے، پھڑکتے جوابات تو ہمیشہ کی طرح بزم کو دہکا بلکہ جِلا بخش رہے تھے۔ (شمائلہ نیاز، ڈیرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)
ج: تم خط لکھنے کے لیے جو انتہائی ’’معیاری کاغذ‘‘ استعمال کرتی ہو، وہ ہم تک پہنچتے پہنچتےلیر و لیر ہوچُکا ہوتا ہے۔ دل توچاہتا ہے، تمہیں بھی کوئی کڑکتا، پھڑکتا جواب دیا جائے، مگر پھرکاغذ کی دُہائیوں، سسکیوں پررحم آجاتا ہے۔ بہرحال، ہاتھ جوڑ کے التماس ہےکہ اگر کچھ بہتر کاغذ استعمال نہیں کرسکتی، تو کم ازکم حاشیہ،سطرہی چھوڑ دیاکرو،اوراللہ کے واسطے، صفحےکی بیک سائیڈ خالی رہنےدیاکرو۔ ہماری شان میں چارقصیدے وہاں نہیں لکھو گی، تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔
ٹیم میں ایک خُوب صُورت اضافہ
ٹھٹھرتے ہوئےدسمبرنے آخری سانسیں بھریں۔ نیا سال دروازے پر دستک دینے کو تیار کھڑا تھا۔ پچھلے سے پچھلے ہفتے میری، اپنی خالہ سے متعلق تیسری باربھیجی ہوئی تحریر بالاخر شایع ہوگئی۔ واقعی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ پہلی بار میں شایع ہوتی، تو شاید اتنی خوشی نہ ہوتی۔ اب باقی کے دوست اقارب مجھے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بارے میں بھی کچھ لکھو۔
میرے لیے تو میرے رشتے نعمت ہیں کہ مثبت اندازِفکرکی عینک لگا لینے سے ہر رشتہ قیمتی ہوجاتا ہے۔ اور سنڈے میگزین کا یہ صفحہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ ہم سب کے لیے ہی قیمتی ہے۔ اس میں میری پہلی تحریر2014 ء میں چَھپی تھی۔ ویسے میگزین کے تمام ہی سلسلے خُوب ہیں۔ اورہاں، ’’جلوۂ دانشِ فرنگ‘‘ کی ڈاکٹر صائمہ اسماء، آپ کے لکھاریوں کی ٹیم میں ایک بہت خُوب صُورت اضافہ ہیں، جو مجھے تو بہت ہی پسند آیا۔ (مصباح طیّب، سرگودھا)
ج: بے شک، ڈاکٹر صائمہ اسماء بہت عُمدہ لکھاری کے طور پرسامنے آئیں۔ لیکن وہ ہماری ٹیم کا باقاعدہ حصّہ بن پائیں گی یا نہیں، یہ اُن کی صوابدید پر ہے۔ اُن کے مطالعاتی دورے کا احوال سو فی صد میرٹ پر شائع کیا گیا اور آئندہ بھی اگر وہ کچھ لکھنا چاہیں گی، تو ہمارے صفحات حاضر ہیں۔
یہ صفحات اتنے اسپیشل کیوں؟
سنڈے میگزین1998 ءسے شائع ہو رہا ہے۔ بے شمارصفحات شروع ہوئےاوربند ہوگئے، جیسے نیٹ بیتیاں، زمین جُنبد، نہ جُنبد گُل محمّد، گرمیٔ بازار دیکھنا، ناقابلِ فراموش، نہ ستائش کی تمنّا، نہ صلےکی پروا، میدان سےگھروغیرہ وغیرہ… لیکن یہ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات شروع دن سے آج تک قائم و دائم ہے اور یوں لگتا ہے کہ تا قیامت رہیں گے۔ کیوں بھئی، یہ صفحات اتنے اسپیشل کیوں ہیں۔ براہِ مہربانی، کبھی اِن صفحات کو بھی آگے پیچھے کردیا کریں یا کچھ عرصے ہی کے لیے غائب کردیں۔ قارئین یہ صفحات دیکھ دیکھ کر اُکتا چکے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو اب خُود ’’سنڈے میگزین‘‘ بھی ان سے تنگ آگیا ہوگا۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: ہماری، نئی حکومت سے دست بستہ التماس ہے کہ ’’نواب زادہ بےکار ملک صاحب کو کوئی کام سونپا جائے‘‘۔ تاکہ کم از کم ہماری جان تو سَوکھی (سُکھی) ہو۔ کوئی ہزار بار گوش گزارکیا ہے کہ صفحات شروع کرنے، بند کرنے کا اختیار ہمارا نہیں۔ جریدے کا فارمیٹ، ادارے کے مالکان نے مرتّب کیا ہے، مگر وہی ڈھاک کے تین پات، وہی مرغ کی ایک ٹانگ۔ یہ صفحات بند کردیں، وہ صفحات شروع کردیں، کے سوا آپ کے پاس کہنےکوکچھ ہوتا ہی نہیں۔ اورانکل جذباتی! ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا صفحہ کہاں بند ہوا ہے، مستقل شائع تو ہو رہا ہے۔
لائقِ مطالعہ تحریریں
میگزین کے ’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ کا آغاز ہی آپ کی تحریر سے ہوا۔ واللہ! پڑھ کے لُطف آگیا۔ آپ نے کافی محنت سے لکھی ایک جامع، مدلّل، خُوب صُورت تحریر عنایت کی، جو واقعتاً پڑھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ویسے سالِ نو ایڈیشن (حصّہ اول) کے تمام ہی مضامین مطالعے کے لائق تھے، خاص طور پر منور مرزا اور بلال غوری کی تحریروں کا جواب نہیں تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بھی آپ نے بہت ہی محنت سے سال بھر کے خطوط پرمبنی تفصیلی رپورٹ تیار کی۔ ویسے اس مرتبہ میگزین میں صرف ایک اشتہار تھا، وہ بھی آخری صفحے پر۔’’سال نو ایڈیشن‘‘ کا دوسرا حصّہ بھی پڑھنے کو مل گیا۔
اُس میں بھی تقریباً سارے ہی مضامین لاجواب اور پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں ایک اَن کہی، اَن سُنی کتاب پر تبصرہ پڑھ کر ایسا لگا، جیسے کسی ہاررفلمی کہانی کی بات ہورہی ہو، ویسے تبصرہ بہت اچھا کیا گیا تھا۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ سلسلہ بھی زبردست انداز سے مرتب کیا گیا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے دوسری مرتبہ نازلی فیصل کے لیے ہدایت نامہ جاری کیا ہے، دیکھیں، عمل ہوتا ہے یا نہیں۔ گوشۂ برقی خطوط میں محمّد عمرجمیل کا خط پڑھ کر احساس ہوا کہ آج کل کے بچّے کس قدر ذہین ہوگئے ہیں کہ اِس وقت عُمر14 سال ہے اور5سال سے سنڈے میگزین کے خاموش قاری ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: اگر مطالعے کا ذوق و شوق ہو، تو نو برس کی عُمر سے جریدے کا مطالعہ کیا تو جا سکتا ہے۔
ولی عہد قرار پائے
سالِ نوایڈیشن (حصّہ اوّل) موصول ہوا، ’’حرفِ آغاز‘‘ حسبِ معمول، حسبِ روایت ایڈیٹر صاحبہ ہی کے قلم سے لکھا گیا اور کیا خُوب لکھا گیا۔ رحمان فارس کے المیہ اشعار غزہ کے شہیدوں کا نوحہ تھے، خصوصاً یہ شعر تو جیسے دل و دماغ میں حشر برپا کرگئے۔ ؎ بچّہ ہے، اِس کو یوں نہ اکیلے کفن میں نہ ڈال… ایک آدھ گڑیا، چند کھلونے کفن میں ڈال… نازک ہے، کونپلوں کی طرح میرا شِیر خوار، سردی بڑی شدید ہے، دہرے کفن میں ڈال۔ اور آخر میں اُمید کی کرن کے طور پرتحریر کردہ دُعائیہ اشعار ؎ ’’یاخدا، یاالہٰی! اب تو بس تسلی میں بھیگی ہوئی کوئی اِک بات ہو… مستحقِ سزا ہی سہی ہم، مگر کوئی خیرات ہو۔‘‘ پر’’آمین، آمین‘‘ ہی کہتے رہے۔
اِن شااللہ یہ نیا سال امن و آشتی کا سال ہوگا۔ اور اگلے سال ’’حرفِ آغاز‘‘ کی ابتدا آپ اِن الفاظ سے کریں گی کہ ’’؎ اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے اور الحمدللہ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بالعموم دنیا کے لیے اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے یہ سال بہت ہی بخت آورثابت ہوا۔‘‘ایڈیشن میں نعیم کھوکھر غزہ کی تباہی و بربادی پر مسلم دنیا کی بے بسی کا رونا رو رہے تھے۔57ممالک کے ایک ارب سے زیادہ مسلمان گویا مٹّی کی مُورتیاں ہیں۔ اقبالؒ کے اِس شعر پرعمل پیرا ہونے کی جتنی ضرورت ہے آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی کہ ؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے، نیل کے ساحل سے لےکرتابہ خاکِ کاشغر۔ ونگ کمانڈر(ر)محبوب حیدر سحاب ’’پاک افواج‘‘ کی کارکردگی پر روشنی ڈال رہے تھے۔
بےشک، ہمّت، جرات و شجاعت میں پاک فوج بےمثال ہے۔ ’’بساطِ عالم‘‘ میں منور مرزا بھی اسرائیل کی غزہ میں جارحیت اور ظلم و ستم پرعالمی برادری سے شکوہ کناں تھے۔ یوکرین جنگ کے شعلے بھی ٹھنڈے ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ بعض مبصّرین کا یہ بھی خیال ہے کہ یوکرین میں روسی جارحیت سےاسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ محمّد اویس یوسف زئی ’’عدالتِ عظمیٰ‘‘ کی کارکردگی کا احوال لائے۔ ’’خارزارِ سیاست‘‘ میں محمّد بلال غوری نے، نواز شریف کے اِن اور عمران خان کےآئوٹ ہونے کی تفصیلات گوش گزار کیں، یہ توبہرحال، مکافاتِ عمل ہے۔ ’’کلکس‘‘ میں منور راجپوت نے گزشتہ برس کی تصویری جھلکیاں بہترین اندازسے پیش کیں۔ ’’ایوانِ نمائندگان‘‘ کے تحت فاروق اقدس ایوان کی کارگزاری پرروشنی ڈال رہے تھے۔
’’ہومیو پیتھک اپوزیشن‘‘ اچھی اصطلاح لگی۔ رئوف ظفر نے ’’پنجاب‘‘ کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔ منور راجپوت ’’سندھ‘‘ کا منظرنامہ لائے، تو امین اللہ فطرت ‘‘بلوچستان‘‘ اورارشد عزیز ملک ’’خیبرپختون خوا‘‘ کا ذکرِ خیر کررہے تھے۔ ہمارے صفحے میں سال بھر کی اعزازی چِٹھیوں میں شائستہ اظہر کی چٹھی کو ’’سال کی بہترین چٹھی‘‘ قرار دیا گیا، جب کہ سب سے زیادہ یعنی دس اعزازی چِٹیھوں کا اعزاز ہمارے حصّے آیا اور ہم محمّد سلیم راجا کے ولی عہد قرار پائے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: آپ کی سب باتیں قابلِ برداشت ہیں، لیکن یہ جو آپ شعر و شاعری پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں ناں، اِس کی معافی ملنا مشکل ہے۔ خُود تو آپ جو اشعار نقل کرتے ہیں، حرام ہے کبھی درست لکھےہوں، لیکن حیرت اِس بات پر ہوتی ہےکہ ہمارے تحریرکردہ اشعار کو آپ اِس قدربےڈھب کیسے کرلیتے ہیں(کہ جو اشعار آپ نے لکھے، رحمان فارس پڑھ لیتے، تو ایسی شاعری پر خُود کشی کو ترجیح دیتے)معلوم ہوتا ہے، آپ نےشعراء سے کوئی پرانا بیر پال رکھا ہے۔
چولی، دامن کا ساتھ
میڈم ! مَیں 2008 ء سے 2014 ء تک روزنامہ جنگ، لاہور اورروزنامہ جنگ، ملتان میں لکھتا رہا ہوں۔ ماضی میں میرے کئی آرٹیکل شایع ہو چُکے ہیں۔ پھرکچھ گھریلو حالات اور کچھ دیگر وجوہ کے باعث لکھنے لکھانے سے کنارہ کش ہوگیا۔ لیکن ہمارے پورے گھرانے کو روزنامہ جنگ سے اتنی محبّت ہے کہ میرے سب بہن بھائی پورا ہفتہ سنڈے میگزین کا انتہائی شدت سےانتظارکرتے ہیں اورسب ہی اِسے بصد شوق پڑھتے ہیں، کیوں کہ کافی سالوں سے اس روزنامے سے ہمارے فیملی ممبرزکا گویا چولی دامن کا سا ساتھ ہے۔ میری دُعا ہے کہ ہماری یہ الفت ہر روشن صبح کے ساتھ ہر دن بڑھتی رہے۔ اپنے والد صاحب سے متعلق ایک تحریر بھیج رہا ہوں، قابلِ اشاعت ہو توشامل کر لیجیے گا۔ (راؤ ندیم جاوید خان)
ج:آپ کی تحریریں ماضی میں شایع نہ بھی ہوئی ہوں، آپ کی فیملی کا اخبار سے چولی دامن کا ساتھ نہ بھی ہو، توبھی آپ کی یہ تحریر قابلِ اشاعت ہوئی، تو باری آنے پر ضرور شایع ہوجائے گی۔
فی امان اللہ
’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ (حصّہ اول) سابقہ وفاقی دارالحکومت (کراچی) سے خریدا، تو ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر سال 2023ء کی بہترین چٹھی کا اعزاز شائستہ اظہر کے نصیب میں دیکھ کر رشک آیا۔ پاک پروردگار موصوفہ کے قلم کی روانی کوسمندرکی گہرائی سےسرفراز فرمائے۔ میرا خام خیال نہیں، بلکہ صائب، قابلِ قبول اورمشعل راہ تجویز ہے کہ جس کا نامِ نامی سال کی بہترین چٹھی کا شرف پائے تو اُسے سالِ رفتہ کےجملہ ایڈیشن (شمارے) نیز، چند منتخب کتب کا تحفہ بطور اعزاز ارسال کیے جائیں۔ اگر آپ چاہیں، تواِس تجویز پر رائےشماری کروالیں۔ جواب ان شاءاللہ تعالی اثبات ہی میں ملے گا۔ ایڈیٹر صاحبہ کا ’’حرفِ آغاز‘‘ پڑھا اور آواز میں آواز ملائی کہ ؎ اب حقیقت میں ہم کو نیا سال دے۔ آمین، آمین، یارب العالمین، مِن جانب کُل المسلمین۔
چند جملے سالِ نو کے آرٹیکلز اور رائٹرز سےمتعلق حاضرِخدمت ہیں۔ ’’خیبرپختون خوا‘‘ سے ارشد عزیز ملک کہہ رہے تھے ؎ جھگڑا دانے پانی کا ہے، دام و قفس کی بات نہیں۔ مطلب ساری لڑائی کھابے کھانے کی ہے۔ ’’بلوچستان‘‘ سے امین اللہ فطرت نے کہا کہ ؎ اِسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا۔ مطلب پورا پاکستان بلوچستان کے وسائل سے مستفید ہوگا، سوائے بلوچستان کے۔ ’’سندھ‘‘ سے منور راجپوت نے فرمایا ؎ وہی مایوسی کا عالم، وہی نومیدی کا رنگ۔ یعنی سندھ جوں کا توں ہی رہے گا، تبدیلی خام خیالی ہے، جو الیکشن کے بعد دُور ہونے والی ہے۔ ’’پنجاب‘‘ کے رئوف ظفر کا خیال ہے ؎ مِری تعمیر میں مضمر ہے، اِک صُورت خرابی کی۔ مطلب ’’ترقی اور شیخ چلّی‘‘ نامی کتاب بالکل واضح حقائق پر مبنی ہے۔ ’’ایوانِ نمائندگان‘‘ کے لیے اسلام آباد کے فاروق اقدس کے بقول ؎ اقتدار میں سب کے طور ایک ہوتے ہیں۔ یعنی بات تو سچ ہے مگر بات ہے سراسر رسوائی کی۔
مرتّب کردہ ’’کلکس‘‘ نے پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں مطلب ایک ہی نظر میں تصاویر کی صُورت، گویا پورے سالِ گزشتہ کی کارگزاری ہی دِکھا ڈالی۔ ’’عدالتِ عظمی‘‘ سے متعلق اسلام آباد ہی کے محمّد اویس یوسف زئی کا خیال ہے کہ ؎ قانون جیسے کھو چُکا صدیوں کا اعتماد۔ مطلب، ہم اِس سال اورآئندہ بھی بغیر انصاف ہی کے رہیں گے۔ ’’بساطِ عالم‘‘ کے حوالے سے منور مرزا کا سوال تھا کہ ؎ پردہ کب گرے گا، کب تماشا ختم ہوگا؟ مطلب، وہی پرانا کھیل جاری رہے گا، لیکن اختتام نامعلوم ہے۔ ’’امتِ مسلمہ‘‘ پر نعیم کھوکھر نے کراچی سے کیا خوب طنز کیا کہ ؎ ڈوب گئی بےحسی کے دریا میں… یعنی قومِ مسلم کی قوّت، اخوّت، غیرت، عزّت، شرافت اور ہمّت سب سمندر برد ہوچُکے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ وائے ناکامی ! متاعِ کارواں جاتا رہا… کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا۔ بہرحال، راقم الحروف کو (مجھے) بغور پڑھنے پر تہہ دل سے شکریہ۔ (عاجز داد فریادی ابن غلام نبی(مرحوم)، سبّی روڈ، کوئٹہ، بلوچستان)
ج: کوئی بات نہیں، ہمیں تن خواہ اِسی کام کی ملتی ہے۔
* جنگ اخبار میں جو ’’بچّوں کا صفحہ‘‘ ہوتا ہے، اُس میں کوئی کہانی یا کوئی اور مواد بھیجنے کا کیا طریقۂ کار ہے، کیا اِن پیچ میں بھیج سکتے ہیں۔ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، کراچی)
ج: یہ ای میل آئی ڈی گرچہ صرف سنڈے میگزین کے مندرجات کےلیے مختص ہے، پھر بھی اکثر قارئین اِس پر دوسرے صفحات کے لیے بھی تحریریں بھیج دیتے ہیں، اور ہم متعلقہ صفحہ انچارجز کو فارورڈ بھی کردیتے ہیں۔ اورآپ کو یہ سوال بھی متعلقہ صفحہ انچارج ہی سےکرناچاہیے تھا۔ چلیں خیر، ہم ہی بتائے دیتے ہیں کہ کسی بھی صفحے کےلیےتحریر بھیجنے کا طریقۂ کارایک ہی ہے۔ آپ بذریعہ ڈاک بھی بھیج سکتی ہیں اور اِن پیج کی کمپوزڈ فائل ای میل کی صُورت بھی۔
* جب آپ کہتی ہیں ناں کہ ’’دیکھیں، پتا نہیں یہ جریدہ بھی کب تک نکلتا ہے؟‘‘ تو یقین کریں، ایک لمحے کو تو میرا دل ہی بند ہونے لگتا ہے۔ اوروں کے لیے’’ سنڈے میگزین‘‘ محض ایک میگزین ہوگا، میرے تو اِس سے دل کے تار جُڑے ہیں۔ بخدا جب تک اتوار کو دیکھ نہ لوں، میرا دن ہی نہیں چڑھتا۔ (ربیعہ فاروق گوندل، ساہیوال)
ج: ربیعہ! ہم تمھارے جذبات و احساسات کی بہت قدر کرتے ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ اگر حقائق تلخ ہوں ناں تو جذبات خود بخود ہی سرد پڑجاتے ہیں۔ تم جریدے کی قاریہ ہو کہ اتنی جذباتی ہو رہی ہو، تو ذرا ہمارا اور ہماری ٹیم کا سوچو، ہم نے تو پوری حیاتی ہی اِس میگزین کو دے دی ہے۔
* میرے خیال میں تو ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ ایک مکمل، باکمال جریدہ ہے۔ اگر کوئی معمولی سی کمی محسوس ہوتی ہے تو وہ سائنس سے متعلقہ مضامین کے حوالے سے ہوتی ہے۔ ان کا حصّہ کچھ بڑھا دیا جائے تو کیا ہی بات ہو۔ (معین الاسلام، ڈسکو موڑ، اورنگی ٹائون، کراچی)
ج: معین! صفحات کی تعداد ہی اتنی کم ہوگئی ہے کہ اب تو وہی مثل صادق آتی ہے کہ’’ گنجی نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا؟‘‘
* آج میگزین میں اپنا مضمون دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ آپ یا آپ کی ٹیم جس طرح مضمون کی نوک پلک سنوارتی ہے، وہ انتہائی قابلِ قدر اورقابلِ تقلید عمل ہے۔ بہرکیف، آپ کی نوازشات اور رہنمائی کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ۔ (مدثر اعجاز، لاہور)
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk