سرورِ کائنات، ختمی مرتبت، حضرت محمّد ﷺ کی نمایاں ترین خصوصیت، آپ ﷺ کی’’ شان رحمۃ لّلعالمینی‘‘ ہے، جس کے متعلق قرآنِ کریم میں فرمایا گیا: ’’ومآارسلنٰک الّا رحمۃ لّلعالمین‘‘ اور ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ یوں تو رحمتِ مجسّم، حضرت محمّد ﷺ کی حیاتِ طیبّہ بد ترین دشمنوں سے حُسنِ سلوک، عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے، لیکن اس کا ایک اہم اور تاریخ ساز موقع، فتحِ مکّہ، رمضان 8ہجری/جنوری 630ء کا وہ مثالی واقعہ ہے، جب آپﷺ کو اپنے دشمنوں پر کامل اختیار و اقتدار حاصل تھا، صحنِ کعبہ میں اسلام، پیغمبرِ اسلامﷺ اور جاں نثارانِ اسلام کے دشمن، گروہ در گروہ سرجُھکائے کھڑے تھے۔
کیسے دشمن؟جنہوں نے جگر گوشۂ رسولﷺ کا حمل اپنے نیزوں سے گرایا، جنہوں نے داعیٔ اسلام ﷺ کے سرِ مبارک کو شانۂ مقدّس سے جدا کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا، ہر موقعے پر آپ ﷺ کو اذیّت پہنچانے میں کوئی دریغ نہیں کیا، جن کے دل و دماغ کی تمام قوّتیں نخلِ اسلام کی بیخ کنی میں صَرف ہوتی تھیں، لیکن مکّہ فتح ہونے کے بعد رسولِ اکرم ﷺ نے کفّارِ قریش کے ساتھ جو سلوک اور رویّہ اپنایا، پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس موقعے کی مرقّع آرائی معروف سیرت نگار،علّامہ شبلی نعمانیؒ کی زبانی سنیے۔’’آپﷺ نے مجمعے کی طرف دیکھا، تو جبّارانِ قریش سامنے تھے۔
اُن میں وہ حوصلہ مند بھی تھے، جو اسلام کو مِٹانے میں سب کے پیش رَو تھے۔ وہ بھی، جن کی زبانیں رسول اللہﷺ پر گالیوں کے بادل برسایا کرتی تھیں۔ وہ بھی، جن کی تیغ و سنان نے پیکرِ قدسیﷺ کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں۔ وہ بھی، جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے، جو وعظ کے وقت آنحضرت ﷺ کی ایڑیاں لہولہان کردیا کرتے تھے۔ وہ بھی تھے، جن کی تشنہ لبی خونِ نبوّت کے سِوا کسی چیز سے بُجھ نہیں سکتی تھی۔ وہ بھی تھے، جن کے حملوں کا سیلاب مدینے کی دیواروں سے آ آ کر ٹکراتا تھا۔ وہ بھی تھے، جو مسلمانوں کو جلتی آگ پر لِٹا کر اُن کے سینوں پر آتشیں مُہریں لگایا کرتے تھے۔
رحمتِ عالمﷺ نے اُن کی طرف دیکھا اور پوچھا’’تمہیں کچھ معلوم ہے، مَیں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟‘‘ وہ اگرچہ ظالم تھے، شقی تھے، بے رحم تھے، لیکن مزاج شناس تھے، پکار اُٹھے کہ’’ آپؐ شریف بھائی اور شریف برادر زادے ہیں۔‘‘ ارشاد ہوا۔’’ تم پر کچھ الزام نہیں۔ جائو، تم سب آزاد ہو۔‘‘دنیا نے دیکھا کہ پیغمبرِ رحمت ﷺ نے ان دشمنوں کے ساتھ عین اُس وقت کہ جب وہ مفتوح تھے، قیدی تھے، غلام تھے، زیر دست تھے، اُن میں مقابلے کی تاب نہ تھی، بے بس اور بے کس تھے، نیز، جب یہ صدا بلند ہوئی ’’الیوم یوم الملحمۃ‘‘یعنی’’ آج تو جنگ و جدال اور قتال و انتقام کا دن ہے، آج تو خوںریزی اور بدلہ لینے کا دن ہے‘‘،تو اُس موقعے پر محسنِ انسانیت ﷺ کی سیرتِ طیّبہ میں عفو و در گزر اور رواداری کا وہ شان دار نمونہ نظر آتا ہے، جو دیگر عَلم بردارانِ مذاہب اور فاتحینِ عالم میں، فاتحِ مکہﷺ کو ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔
آپ ﷺنے اِس موقعے پر تمام اُمیدوں اور تصوّرات کے برخلاف رواداری پر مبنی مثالی انقلابی اعلان فرمایا’’الیوم یوم المرحمۃ‘‘یعنی’’آج تو رحم و کرم، عفو درگزر اور ایثار و روا داری کا دن ہے، آج عفوِ عام کا دن ہے۔‘‘فتحِ مکّہ کے سلسلے میں ابنِ اسحاق نے یہ روایت ذکر کی ہے۔ (ترجمہ) ’’جب رسول اللہﷺ وادی ذی طویٰ پہنچے اور آپﷺ نے دیکھ لیا کہ اللہ نے آپﷺ کو فتح سے سرفراز کیا ہے، تو آپﷺ نے ازراہِ تواضع اپنی سواری پر سَرجُھکا لیا اور یہاں تک جُھکے کہ قریب تھا کہ آپﷺ کی ٹھوڑی کجاوے کی لکڑی سے لگ جاتی۔‘‘
فاتحِ اعظم ﷺکامنشورِ انسانیت
دشمنوں سے انتقام لینے کا سب سے بڑا موقع فتحِ مکّہ کا دن تھا، جب وہ دشمن، سرکار دو عالمﷺ کے سامنے آئے، جو آنحضرتﷺ کے خون کے پیاسے تھے، جن کے دستِ ستم سے آپؐ کو طرح طرح کی تکالیف پہنچی تھیں، لیکن اس تاریخی موقعے پر آپؐ نے اُنہیں معاف فرما دیا۔صرف یہی نہیں، نبیٔ رحمت ﷺ نے رواداری اور عام معافی کے اِس اعلان کے ساتھ امن کے قیام و استحکام کے لیے ہدایات جاری فرمائیں کہ٭جو کوئی ہتھیار پھینک دے، اُسے قتل نہ کیا جائے۔٭ جو کوئی خانۂ کعبہ کے اندر پہنچ جائے، اُسے قتل نہ کیا جائے۔٭ جو کوئی اپنے گھر کے اندر بیٹھا رہے، اُسے قتل نہ کیا جائے۔٭ جو کوئی ابو سفیان کے گھرمیں داخل ہوجائے،اُسے قتل نہ کیا جائے۔٭ جو کوئی حکیم بن حزام کے گھر جا رہے، اُسے قتل نہ کیا جائے۔٭ بھاگ جانے والے کا تعاقب نہ کیا جائے۔٭ زخمی کو قتل نہ کیا جائے۔
نام وَر عرب مصنّف، شوقی خلیل نے غزواتِ نبویؐ پر مختصر کتب تحریر کی ہیں۔ موصوف نے’’فتحِ مکّہ‘‘پر اپنی کتاب میں سیّد المرسلین، رحمۃ لّلعالمینﷺ کی شانِ کریمی، رواداری اور عفو و درگزر کو انتہائی بلیغ انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں’’فتحِ مکّہ کے موقعے پرعفو و در گزر، جود و کرم کا جو بے مثال مظاہرہ رحمتِ عالمﷺ نے فرمایا، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس کی بلندی، پاکیزگی اور عظمت، عدیم المثال ہے۔ کسی بادشاہ، سیاسی رہنما، فوجی جرنیل نے اِس قسم کے کریمانہ اخلاق کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبیﷺ کے سِوا کسی کے بس کا کام نہیں کہ اِن حالات میں ایسی عالی ظرفی کا مظاہرہ کرسکے۔ وہ نبیٔ مرسل، جس کی رحمت، اللہ کی رحمت، جس کی حکمت، اللہ کی حکمت اور جس کا عفو و در گزر،اللہ تعالیٰ کی شانِ عفو و در گزر کا آئینہ دار ہے۔ رسول اللہﷺنے رحمت وحکمت سے لب ریز جن کلمات سے اپنے دشمنوں کو عفو و درگزر کا مژدہ سُنایا، یہ مژدۂ جاں فزا سُن کر اُن پر شادیٔ مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی۔
گویا اُنہیں قبروں سے زندہ کرکے دوبارہ اُٹھایا گیا ہے۔ وہ اس شانِ رحمۃ لّلعالمینی کو دیکھ کر جُوق در جُوق آگے بڑھ کر حضور اکرمﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ فاتحِ اعظمﷺ نے اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کے سامنے اِس عظیم فتح کے موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمایا، اُس میں دنیا کے تمام فاتحین کے لیے رُشد و ہدایت کا وہ دِل کش درس ہے، جس سے ہر ایک مستفید ہوسکتا ہے۔
پوری توجّہ سے اس کا ایک ایک جملہ پڑھیے اور قلوب و اذہان سے فاتحِ اعظمﷺ پر صلوٰۃ وسلام کے رنگین اور مہکتے پھول نچھاور کرتے جایئے۔ اس کے مطالعے سے آپ کو دینِ اسلام کی عظمت، اس کی عالم گیر تعلیمات اور اس دین کے لانے والے نبیﷺ کی شانِ عفو و درگزر اور شانِ رحمت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہ رہے گا۔‘‘
موصوف مزید لکھتے ہیں’’حضور اکرمﷺ کے نزدیک کسی خطا کار کی خطا، اُس کے لیے ہلاکت کا باعث نہ تھی۔آپ ﷺنے قریش کے اندیشوں کو امن و امان سے بدل دیا۔وہ لوگ عُمر بھر زیادتیاں کرتے رہے، لیکن حضور اکرمﷺ نے ہمیشہ اُن پر احسان فرمایا۔ وہ ہمیشہ فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے رہے، لیکن آپﷺ ہمیشہ حلم و بُردباری سے پیش آتے رہے۔ اُنہوں نے قطع رحمی کو اپنا وتیرہ بنایا ہوا تھا، لیکن صلۂ رحمی حضور اکرمﷺ کا شعار رہا اور اِس خُلقِ عظیم کی برکت سے حضور اکرمﷺ اُن کے دِلوں کے فاتح بن گئے‘‘۔
فتحِ مکّہ، انسانیت کی فتح
فتحِ مکہ کے تاریخ ساز موقعے پر رسول اکرم ﷺکے عفو و درگزر اورمثالی حُسنِ سلوک پر مسلم سیرت نگاروں نے آپﷺ کی ذاتِ گرامی کو جو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، وہ سیرت نگاری اور اسلامی تاریخ کا روشن باب ہے، تاہم حقیقت پسند غیر مسلم ہندو، سِکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے دانش وَر بھی اِس معاملے میں پیچھے نہیں۔سِکھ سیرت نگار، جی سنگھ دارا اپنی کتاب،’’ رسولِ عربیؐ ‘‘میں لکھتا ہے۔’’سبحان اللہ! رسول اللہ ﷺ نے اپنے قتل کا قصد کرنے والوں، اپنی نورِ چشم کے قاتلوں، اپنے چچا کا کلیجہ چبانے والوں، سب کو معافی دے دی اور قطعی معافی۔
قتلِ عام دنیا کی تاریخوں میں اکثر سُنتے تھے، مگر قاتلوں کی معافی نہ سُنی تھی۔‘‘ہندو سیرت نگار سوامی لکشمی پرشاد اپنی کتاب ’’عرب کا چاندؐ‘‘ میں لکھتا ہے۔’’آپ ﷺ کے اِس عدیم المثال حکم سے، جو آپﷺ نے فتحِ مکّہ کے موقعے پر اپنے لشکر کو دیا، ایسی محبّت اور ہم دردی ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے تصوّر سے آج بھی انسان کے اخلاقی احساس میں ایک عجیب رفعت و وسعت پیدا ہوتی ہے۔ جذباتِ صلح و آشتی کا ایسا نمونہ تاریخ کے صفحات پیش کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘
یورپین دانش وَر، ارتھر گلمین (Arthur Gilman) اِس تاریخ ساز واقعے سے متعلق لکھتا ہے۔’’فتحِ مکّہ کے موقعے پر یہ بات آپﷺ کے حق میں جائے گی کہ اُس وقت، جب کہ اہلِ مکّہ کے ماضی کے انتہائی ظالمانہ سلوک پر اُنہیں جتنا بھی طیش آتا، کم تھا اور انتقام کی آگ بھڑکانے کے لیے کافی تھا، مگر آپﷺ نے اپنے لشکر و سپاہ کو ہر قسم کے خون خرابے سے روکا اور اللہ کے ساتھ بندگی اور اطاعت کا مظاہرہ کیا۔دوسرے فاتحین کے وحشیانہ طرزِ عمل کے مقابلے میں اسے انتہا درجے کی شرافت اور انسانیت سے تعبیر کیا جائے گا۔(حضرت)محمّد ﷺ کی فتح، درحقیقت دنیا کی فتح تھی، سیاست کی فتح تھی۔
اُنہوں نے ذاتی مفاد کی ہر علامت مِٹا ڈالی اور ظالمانہ نظامِ سلطنت جڑ سے اُکھاڑ دیا۔ جب قریش کے مغرور و متکبّر سردار، عاجزانہ گردنیں جُھکائے مجرموں کی طرح کھڑے تھے، تو(حضرت) محمدﷺ نے اُن سے پوچھا کہ’’ تمہیں مجھ سے کیا توقّع ہے؟‘‘وہ بیک آواز بولے’’رحم، اے سخی و فیاض بھائی، رحم۔‘‘ ارشاد ہوا’’ جائو، تم سب آزاد ہو۔‘‘ ہندو سیرت نگار، شردھے پر کاش دیوجی نے نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیّبہ پر ’’سوانح عُمری حضرت محمّدﷺ بانیٔ اسلام‘‘ لکھی، جو 1907ء میں نول کشور پرنٹنگ ورکس، لاہور سے شائع ہوئی۔وہ پیغمبرِ رحمتﷺکے مثالی عفو و در گزر کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہے۔’’یہ وقت بہت نازک تھا، ہر شخص کو یقین تھا کہ اب خیر نہیں۔ آنحضرتﷺ قتلِ عام کا حُکم دیں گے اور جو اذیتیں اُنہیں دی گئی تھیں، آج اُن کا خُوب بدلہ لیں گے۔
لوگ اِس خیال سے کانپے جاتے تھے کہ موت سَر پر کھڑی ہے۔ لوگ شہر چھوڑ کر بھاگنے لگے تھے کہ آپﷺ نے منادی کروائی کہ کوئی مسلمان تلوار نہ چلائے اور مکّے کا کوئی آدمی شہر چھوڑ کر نہ جائے۔ آج انتقام اور بدلے کا دن نہیں، آج رحمت اور شفقت کا دن ہے، مَیں تمہارا دشمن بن کر نہیں آیا، نہ مَیں تم سے کسی قسم کا بدلہ لوں گا۔ مَیں تم سب کے ساتھ وہ سلوک کروں گا، جو حضرت یوسفؑ نے مِصر میں اپنے بھائیوں سے کیا تھا، جائو، تم سب آزاد ہو۔‘‘یورپین اسکالر، آر۔ ڈبلیو۔ اسکاٹ (R.W. SCOTT) لکھتا ہے۔’’اِس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دنیا کے بیش تر مذاہب تلوار اور طاقت کے بَل بُوتے پر پھیلائے گئے۔ اسپین میں مسلمانوں کی حکومت ختم کرکے مسلم آبادی کو جبراً عیسائی بنا دیا گیا۔
اس کے برعکس، (حضرت) محمدﷺ نے (فتحِ مکّہ کے موقعے پر) جو حکمتِ عملی اختیار کی، وہ انسانی تاریخ کا روشن ترین باب ہے۔ آپﷺ نے عناد، دشمنی، تعزیری اور انتقامی سزائوں کے بغیر میدانِ کار زار میں بہادری کے ابواب تحریر کیے، کُھلی جنگ میں کوئی گھٹیا اور پست حربہ استعمال نہیں کیا۔‘‘ای ڈرمنگھم، فتحِ مکّہ کو اپنی نوعیت کا ایک تاریخ ساز واقعہ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہے۔’’فتح کے بعد جب مسلمان مکّے میں داخل ہوئے، تو (حضرت) محمّدﷺ نے ایک ایسا فیصلہ دیا، جو انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد فیصلہ تھا۔‘‘یورپ کا معروف دانش وَر، لین پول فتحِ مکّہ کو تاریخ کا بے مثال واقعہ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے۔’’حقائق تلخ ہوتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ (حضرت) محمّد ﷺ نے جس دن اپنے دشمنوں پر فتح پائی اور جو اُن کی عظیم ترین فتح تھی، وہی دن دراصل (حضرت)محمّد ﷺ کی ذات اورانسانیت کی عظیم ترین فتح کا تھا۔
آپﷺ نے مکّے کے لوگوں کو عام معافی دے دی۔ یہ وہی لوگ تھے، جن کے ناقابلِ بیان مظالم اور اذیتوں کا آپﷺ نشانہ بن رہے تھے۔جس طرح (حضرت) محمّدﷺ فاتح کی حیثیت سے مکّے میں داخل ہوئے، دنیا کا کوئی فاتح اِس کی مثال پیش نہیں کرسکا۔‘‘ہندو سیرت نگار، رانا بھگوان داس اپنے مضمون ’’رسول اللہﷺ کی بہترین سیاست‘‘ میں فتحِ مکّہ کا دیگر عالمی فتوحات سے تقابل کرتے ہیں کہ’’سیرتِ طیّبہؐ کے واقعات میں فتحِ مکّہ کو عظیم حیثیت حاصل ہے۔
عظمتِ فتح، تسخیرِ قلوب، مفتوحین اور دشمنوں سے رحم و کرم اور عفو و در گزر کے جلوے فتحِ مکّہ ہی سے جمال آرا ہوتے ہیں، ماہرینِ امورِ حرب نے اس امر پر بالاتفاق مُہرِ تصدیق ثبت کی ہے کہ صلحِ حدیبیہ کا معاہدہ، داعیٔ اسلامﷺ کی امن پسندی اور سیاسی بصیرت کا لازوال کارنامہ ہے، جب کہ فتحِ مکّہ آپﷺ کی امن پسندی اور حُسنِ سلوک کا تاریخ ساز واقعہ ہے۔ارشاد ہوتا ہے’’ گھر سے بے گھر کرنے والوں، تلواریں سونت کر مقابل آنے والوں، عَلم بردارانِ اسلام کو اذیّت دینے والوں اور قتل کی سازش کرنے والوں کو مَیں نے معاف کیا۔ آج تمہارے لیے کوئی سرزنش نہیں۔ آج تم سے کوئی باز پُرس نہیں۔‘‘
فاتحِ مکّہ کی اِس شانِ رحمت پر ملائکہ نے درود و سلام کے ترانے بلند کیے اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ پکار اُٹھا’’وماارسلنٰک الّا رحمۃ لّلعالمین‘‘۔رانا بھگوان داس مزید لکھتے ہیں کہ’’مقامِ فکر ہے کہ ہادیٔ عالم ﷺنے اپنے منشورِ رحمت سے فاتحینِ عالم کو کس قدر عظیم المثال و جاوداں درس دیا۔ جزیرہ نمائے عرب کی تاریخ شاہد ہے کہ محمّد رسول اللہﷺ کے اِس فرمانِ رحمت و محبّت سے قلوب مسخّر ہوگئے۔
فاتحِ مکّہ کا یہ مقدّس فرمان مقاصدِ رسالت کی تکمیل میں مدد گاہ ثابت ہوا اور مکّے کی فتح کے ساتھ ہی اسلام کا پرچم اہلِ عرب کے دِلوں پر بھی لہرانے لگا۔ سرزمینِ عرب سے کفر و ظلم کا نشان ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوگیا۔ فتحِ مکّہ نے خون آشامی و درد ناکی ختم کرکے اخلاص، محبّتِ جادواں اور امن و عافیت کا درس دیا۔ کاش! جنگ میں آگ و خون کے دریا بہانے والے فاتحِ عالم، جادۂ محمدیؐ پر گام زن ہوتے؟‘‘