• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقسیم ہند کے بعد برصغیر کا وہ خطہ جسے ہم پاکستان کہتے ہیں 16 دسمبر1971ء کو دولخت ہوا۔ اس کے اسباب پر نقب لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس کے اسباب کا آغاز ایوب خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سامنے آیا۔ یہ اتنی سادہ اور آسان سی تاریخی حقیقت نہیں۔ سب سے پہلے ہمیں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا کہ 1954ء میں ایوب خان فوجی ہوتے ہوئے ملک کا وزیر دفاع کیسے مقرر ہوا۔ اس کے بعد 1956ء کے آئین کو اپنے بوٹوں تلے روند کر اکتوبر1958میں اقتدار پر قابض ہوا۔ اس سے قبل کہ ہم اس کے اقتدار کا حساب لیں، اس سوال کا جواب تلاش کیاجائے فوج کی وردی میں سیاسی عہدہ کیوں کر حاصل کرسکا اس سلسلے میں اگر ہم برطانیہ کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل گریسی کی یادداشتوں کو پڑھا جائے۔ جب انہوں نے ایک پاکستانی سفارت کار سے پوچھا کہ ایوب خان کیا کر رہا ہے تو انہیں بتایا گیا کہ وہ ملک کے وزیر دفاع ہیں۔ گریسی نے مزید کہا بہت جلد وہ ملک کا حکمران ہوگا۔ یہی نہیں، ہمیں یہ تاریخی حقیقت بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ 28فروری 1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے کانووکیشن کے دوران ہی شیخ مجیب الرحمن ایک طالب علم لیڈر کی حیثیت سے سامنے آچکا تھا اور بھاشا اندولن کے نام سے اس نے ایک تحریک کا آغاز بھی کردیا تھا۔ ان تمام معاملات پر بحث کیے بغیر بنگالیوں کی محرومیوں کا آغاز جنرل ایوب کے دور سے کرنا اس لئے درست نہیں کہ اس کا آغاز تو 28فروری1948 کو ہی ہوچکا تھا، یہ بھی زندہ حقیقت ہے کہ ایوب کے دور میں بنگالیوں کا استحصال ہوا۔ لیکن ہمیں یہ سوال اٹھانا چاہئے تھا کہ یہ شخص فوج کا سربراہ بنا کیسے؟
مغربی پاکستان میں فاطمہ جناح کی شکست کا رونا رونے والے تاریخ کے اس سوال کا جواب تلاش کریں جو ایوب خان کی ترقی اور لیاقت علی خان کے قتل کے درمیان موجود ہے۔ ان تمام حقائق کو ذہنوں سے محو نہیں کیاجاسکتا اور اس کے بغیر تاریخ کے طالب علم کو یہ تکلیف دہ تاریخ سمجھ میں نہیں آئے گی۔ حبیب جالب کو غدار کس نے کہا، اس واقعے کو درست انداز میں بیان کرنا ضروری ہے۔ محبت گولیوں سے بو رہے ہو۔ اس شعر کی ادائیگی کے بعد انہیں غدار نہیں کہا گیا بلکہ انہیں درج ذیل شعر کی پاداش میں غدار بھی کہا گیا اور انہیں جلاوطنی بھی برداشت کرنا پڑی:
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھائو کہ فرعون اسی سے جائے گا
تاریخ کے ان سوالات نے میرے ذہن میں اس لئے جنم لیا کہ گزشتہ دنوں معزز کالم نگار حامد میر کا کالم بعنوان ’’پاکستان بچانا ہے یا جمہوریت؟‘‘ نظر سے گزرا۔ اس کو پڑھ کر حیرت اس لئے نہیں ہوئی کہ طالبان سے ان کی محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں اور اس کا وہ حق رکھتے ہیں کہ وہ طالبان کو درست سمجھیں یا غلط۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آئین پاکستان کو تسلیم نہ کرنے کے بعد طالبان ان کی گڈ بک سے باہر آگئے ہیں لیکن یہ کہنا کہ طالبان کی تشکیل مشرف دور میں ہوئی تھی، تاریخ کی سنگین غلطی ہے۔ ہر خاص و عام اس حقیقت سے آشنا ہے کہ جنرل (ر)حمید گل اور میجر جنرل (ر) نصیراللہ بابر(مرحوم) طالبان کے اصل خالق ہیں جو اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور یہ تشکیل 1996ء میں ہی عمل میں آچکی تھی اب یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ وہ طالبان تو افغانستان کے لئے تیار کئے گئے تھے تو پڑوسی کے گھر کو آگ لگائو گے تو شعلے تمہارے گھر کو بھی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اب آتے ہیں اس بیان کی جانب جو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک نجی ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ اس کے مطابق اگر فوج اور سیاسی قیادت یعنی حکومت ایک پیج پر نہیں آتے تو فوج آگے بڑھ کر ٹیک اوور کر لے۔ اس بیان کو اس کے اگر اور مگر سے ہٹا کر دیکھاجائے تو یقیناً اس کے مفاہیم تبدیل ہوجائیں گے لیکن اس بیان کے اگلے ہی روز بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی ملاقات کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اگر ان پر توجہ دی جائے تو اس بیان کا پس منظر سمجھ میں آجائے گا۔ جنرل شریف نے وزیر اعظم سمیت سیاسی قیادت کو اس حکمت عملی سے آگاہ کیا کہ فوج 4سے 6ہفتوں میں وزیر ستان سے دہشت گردوں کا صفایا کرسکتی ہے اور اس کے بعد وہاں فوج کو مستقل تعینات کرنا ہوگا لیکن جواباً اتفاق نہیں آیا بلکہ گھسی پٹی تجویز سامنے آگئی کہ جو بات کرنا چاہتے ہیں اور جو ریاست سے لڑنا چاہتے ہیں، ان کو علیحدہ کرنا ہوگا۔ باالفاظِ دیگر میں نہ مانوں کی رٹ اور معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی خواہش بدستور دلوں میں موجود ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مذاکرات بہترین راستہ ہوتے ہیں لیکن اگر فریق مخالف کی نیت اور عمل دونوں مذاکرات کی افادیت سے متصادم ہوں تو یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ ریاست اپنی رِٹ نافذ کرنے کے لئے اس وقت تک طاقت استعمال کرے تاوقت یہ کہ فریق مخالف آئین پاکستان یا رائج الوقت قوانین کے تحت مذاکرات کرنے کے لئے راضی ہوجائے۔ ایک ملک میں دو متوازی افواج ممکن نہیں ہیں ضرورت اس بات کی ہے الطاف حسین کے بیان کو ان معروضی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے اور حکومت پر دبائو ڈالا جائے کے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرلے۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ ریاست میں کون سا نظام حکومت ہوگا اس کا فیصلہ بندوق نہیں عوام ووٹ کی طاقت سے کریں گے۔ اس کالم میں حامد میر صاحب نے 2006ء کی اس تقریر کا ذکر کیا جس میں تقسیم ہند کو مبینہ طورپر ایک غلطی قرار دیا گیا تھا لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس تقریر کو بھی سیاق و سباق سے ہٹا کر ایک بار پھر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان الفاظ کی ادائیگی سے قبل یہ جملہ بھی ادا کیا گیا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان ایک زندہ حقیقت ہیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اس کے بعد انہوں نے تقسیم ہند کو اپنی دانست میں ایک غلطی قرار دیا اور یہ حق الطاف حسین سمیت سب کو حاصل ہے کہ وہ کسی بھی تاریخ کے واقعے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ الطاف حسین یہ سمجھتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وہ مقاصد جو بانیانِ پاکستان کے اذہان میں تھے جو نظریہ پاکستان کے مطابق تھے وہ حاصل نہ ہوسکے۔ اس پر تنقید کی کوئی گنجائش بنتی نہیں ہے حامد میر جیسے صحافی لکھتے ہیں کہ الطاف حسین عمران فاروق قتل کیس سے بچنے کیلئے ایسا کررہے ہیں واضح رہے کہ یہ قتل برطانیہ میں ہوا ہے پاکستان میں نہیں کیونکہ ہمارے ہاں روئیدا خان جیسے افسران پائے جاتے ہیں جو یک جنبشِ قلم مقدمات ختم کردیتے ہیں اور حامد میر جیسے دوست ٹاک شو میں انہیں بچا کر لے جاتے ہیں تو موصوف خاطر جمع رکھیں کہ عمران فاروق کے قتل سے سب زیادہ نقصان ایم کیو ایم کا ہوا ہے اور اسکاٹ لینڈ یارڈ جلد یا بدیر اسکی تہہ تک پہنچ جائے گی۔ آخر میں میں اس لطیفے کی جانب آئوں گا کہ جس میں انہوں نے ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کو ایک ہی پلڑے میں تول ڈالا۔ موصوف رقمطراز ہیں کہ ایم کیو ایم وہی کردار ادا کر رہی ہے جو 1971ء میں جماعت نے ادا کیا تھا۔ نظریاتی اعتبار سے یہ بات ناقابل فہم ہے۔ ایم کیو ایم اور اس کے قائد نے اگر طالبان کی مخالفت کی ہے تو وہ مخالفت شخصی، گروہی، لسانی یا نسلی نہیں بلکہ وہ عمل کی بنیاد پر ہے۔ اگر طالبان کایہ گروہ تشدد کا راستہ ترک کرکے دلیل سے بات کرنا چاہتا ہے تو شاید سب سے پہلی آواز اسی سیاسی جماعت کی بلند ہوگی کہ معاملات کو افہام و تفہیم سے طے کیاجائے ۔ اگر وہ پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے تو پھر جس سوچ کے وہ حامل ہیں، اس کے مطابق جغرافیہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور یہ توسیع پسندانہ سوچ ملک کے وجود کے لئے خطرہ ہے۔ لیکن پھر بھی اگر تشدد کا راستہ چھوڑ کر غیر مشروط طور پر کوئی مذاکرات کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اسے خوش آمدید کہاجائے اور احترام انسانیت قانون میں موجود گنجائش کے مطابق کوئی نہ کوئی درمیانی راستہ تلاش کیاجاسکتا ہے ۔
تازہ ترین