• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ بچوں کے ادب کا سنہری دور کہیں گزر تو نہیں گیا؟ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گزرے ہوئے سنہری دور کی کتابیں بھی اب کمیاب ہو رہی ہیں! لاہور کا ایک بڑا ادارہ جو بچوں کی کتابیں التزام سے چھاپتا تھا، اب برائے نام رہ گیا ہے! اب وہ لکھنے والے بڑے لوگ بھی شاید پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں! اسماعیل میرٹھی نے بچوں کیلئے کمال کی نظمیں لکھیں۔ ان میں سے کچھ نظموں کے اشعار اورمصرعے تو زبان زدِ خاص و عام ہو گئے۔ جیسے ، نہر پر چل رہی ہے پن چکی۔ رب کا شکر ادا کر بھائی ۔ جس نے ہماری گائے بنائی۔ علامہ اقبال نے بچوںکیلئے جو نظمیں کہیں وہ تو لافانی ہیں۔ مثلا” لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔ ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا۔ مکھی اور مکڑا۔اور ماں کا خواب! ‘‘ نظیر اکبر آبادی کی نظموں میں سے ایسے ٹکڑے الگ کر کے چھاپے گئے جو بچوں کیلئے مناسبت رکھتے تھے۔ جیسے، تربوز، برسات کی بہاریں، گلہری وغیرہ! حفیظ جالندھری نے بھی بچوں کیلئے نظمیں لکھیں جو تین چار جلدوں میں شائع ہوئیں۔ قیوم نظر اور ابصار عبد العلی نے بھی بچوں کیلئے باکمال شاعری کی۔ ابن انشا نے جو کچھ بچوں کیلئے لکھا، اس کی شاید ہی کوئی مثال ہو۔ اور یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ان کی اکثر کتابیں جوبچوں کیلئے تھیں، اب آؤٹ آف پرنٹ ہیں جیسے بلو کا بستہ، قصہ دُم کٹے چوہے کا، اور میں دوڑتا ہی دوڑتا! صوفی تبسم نے ٹوٹ بٹوٹ کا زبردست کردار تخلیق کیا۔ٹوٹ بٹوٹ پر ان کی نظمیں عالمی سطح پر کسی بھی مقابلے میں ا علیٰ ترین درجہ حاصل کر سکتی ہیں۔ نثر کی طرف آئیں تو یہاں بھی نمایاں کام ماضی ہی میںہوا۔ امتیاز علی تاج نے چچا چھکن کے عنوان سے جو کہانیاں لکھیں، آج بھی مقبول ہیں۔ سعید لخت نے بھی بہت اچھی کہانیاں لکھیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی، جو بھارت کے صدر رہے، بچوں کیلئے لکھی ہوئی کتاب’’ابّو خان کی بکری ‘‘بچوں کے ادب کا دلکش حصہ ہے۔ بچوں کے ماہناموں کا سنہری دور بھی گزر گیا۔ ہمدرد کا نونہال ، بچوں کی دنیا ، تعلیم و تربیت ، مقبول رسالے تھے۔ ان میں سے کچھ کی شکل صورت بدل گئی۔ کچھ تاحال رینگ رہے ہیں!اس سرسری جائزے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ معروف شاعر اور کالم نگار،محمد اظہارالحق ، نے بھی بچوں کیلئے ایک انوکھا ناول لکھا ہے جو حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ اس ناول کا عنوان ہے “ ٹِکلو کے کارنامے” ۔ ٹِکلو کا کردار ، جو اظہار نے تخلیق کیا ہے، دلچسپ ہے اور بچوں کیلئے بہت پُر کشش! یہ ایک پرندہ ہے جس کے پنجے پیتل کے ،چونچ چاندی کی طرح سفید ، پر سیاہ ریشم کے ُ اور دُم سرخ ہے۔ یہ ہوا سے زیادہ تیز رفتار ہے۔ ہر مشکل مہم سَر کر سکتا ہے۔ ناول میں کرداروں کے نام عام ناموں سے مختلف ہیں، جیسے ٹِکلو، پیلا لا ، بِٹار، کِٹ کِٹ وغیرہ۔ یہ دلچسپ ہیں اور چونکہ روایتی ناموں سے ہٹ کر ہیں ، اس لیے بچوں کو اپیل کرتے ہیں۔اظہار کا یہ ناول اپنے اندر،کہانی کے علاوہ، مقصدیت بھی رکھتا ہے۔ ٹکلو اپنے وطن پاکستان سے محبت کرتا ہے۔ جب سری لنکا کا وزیر اعظم اسےسری لنکا میں رہنے کی دعوت دیتا ہے اور وزارت کی پیشکش کرتا ہے تو ٹکلو معذرت کر دیتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ وہ اپنا ملک پاکستان نہیں چھوڑ سکتا۔ ٹکلو جب امریکہ کی ترقی دیکھتا ہے تو اس کے دل میں امنگ پیدا ہوتی ہے کہ کاش پاکستان بھی اتنی ترقی کرے! ناول جنرل نالج کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ پاکستان اور بہت سے دوسرے ملکوں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں! چین اور پاکستان کی سرحد۔ خنجراب ، کا ذکر ہے ۔ مارخور کا تعارف کرایا گیا ہے۔ بچوں کو بتایا گیا ہے کہ کوئٹہ، کراچی،پشاور، چترال اور سیالکوٹ کیوں اور کس کس چیز کے لیےمشہور ہیں۔ ایبٹ آباد کب اور کیسے آبادہوا۔مانسہرہ اور ہری پور کہاں ہیں ۔سرحد پار جموں کا ذکر ہے۔ بچوں کو سری لنکا اور تھائی لینڈ سے متعارف کرایا گیا ہے۔ بحر الکاہل اور اس میں واقع جزیروں کی باتیں بتائی گئی ہیں جیسے فِجی اور فلپائن! جاپان کی سیر کرائی گئی ہے۔ بچوں کو آسٹریلیا کے شہروں سے آشناکرایا گیا ہے۔روس کے بارے میںحیرت انگیز معلومات مہیا کی گئی ہیں جیسے گیارہ ٹائم زون اور روس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے ریل کا سات دن کا سفر! غرض بچوں کیلئے کہانی بھی انتہائی دلچسپ ہے اور معلومات کا بھی خزانہ ہے۔ کتاب کے آخر میں مشکل الفاظ کا فرہنگ بھی ہے۔ ناول کو انتہائی خوبصورتی اور سلیقے سے، بُک کارنر جہلم نےشائع کیا ہے۔ناول مجلد ہے اور فاطمہ امر کی بنائی ہوئی رنگین تصویروں سے مُزیّن۔ معیاری طباعت اور کاغذ کی کوالٹی دیکھ کر مغربی ملکوں کی چھپی ہوئی بچوں کی کتابیں یاد آجاتی ہیں!اس کے باوجود قیمت مناسب ہے۔بچوں کے لیے لکھنا آسان نہیں۔ اس لیے کہ جس طرح گاڑی آہستہ چلانا مشکل کام ہے ، اسی طرح ادیبوں اور شاعروں کیلئے آسان زبان میں لکھنا بھی مشکل کام ہے۔ بہر طور بچوں کا ادب توجہ چاہتا ہے۔یوں بھی سکرین کی مصیبت بچوں میں پڑھنے کی عادت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ستم یہ کہ بچوں کو مصروف رکھنے کیلئے ماں باپ موبائل فون دے دیتے ہیں تا کہ ان کی فیس بُک کی سرگرمی میں بچے خلل انداز نہ ہوں! بہت کم ماں باپ ایسے ہیں جو بچوں کو سکرین سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سکرین کا وقت مقررہ حد سے نہیں بڑھنا چاہیے اور اس حد کا تعین ماں باپ ہی کر سکتے ہیں!بچوں کو، اپنی پاکٹ منی سے ، کتابیں خریدنے کی طرف مائل کرنا بھی ضروری ہے۔ اس ضمن میں استاد اور والدین، دونوں کو اپنا اپنا فرض ادا کرناہو گا۔ وما علینا الا البلاغ ۔

تازہ ترین