ورلڈ بینک کی 2022ءکی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت کا حجم 457 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور SMEDA کے تخمینے کے مطابق یہ ملکی جی ڈی پی کا 40 فیصد سے زائد ہے۔ اس سیکٹر میں چھوٹے کاروبار، رئیل اسٹیٹ اور زرعی سیکٹرز قابل ذکر ہیں۔ لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان کی 75 فیصد ورک فورس غیر دستاویزی سیکٹر سے تعلق رکھتی ہے۔ ملک کی بڑھتی ہوئی غیر دستاویزی معیشت ریونیو کی وصولی میں بڑی رکاوٹ ہے جو معیشت کے مختلف سیکٹرز میں عدم مسابقت پیدا کررہی ہے۔ مثال کے طور پر ملکی معیشت یعنی جی ڈی پی میں زرعی شعبے کا حصہ 19.3 فیصد ہے لیکن ٹیکسوں کی ادائیگی میں اس کا حصہ بمشکل 1.2 فیصد ہے جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 19.2 فیصد ہے لیکن یہ سیکٹر 70 فیصد سے زائد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے صنعتی سیکٹر پر ٹیکسوں کا اضافی دبائو ہے جو اسکی مسابقت کو متاثر کررہا ہے۔ LUMS کی ایک اسٹیڈی کے مطابق ان سیکٹرز سے کرپشن کی وجہ سے 100 روپے میں سے صرف 38 روپے قومی خزانے میں جاتے ہیں جبکہ 62 روپے ٹیکس دہندگان، ٹیکس کنسلٹنٹ اور ٹیکس جمع کرنے والے اداروں میں تقسیم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکس رجسٹرڈ افراد کو ٹیکس کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے جو حکومت یہ ڈائریکٹ ٹیکسز لگا کر وصول کرتی ہے لیکن اس نظام سے عدم مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔
ملکی معیشت میں غیر رسمی شعبوں میں لین دین اکثر کیش پر کیا جاتا ہے جس سے تجارتی سرگرمیوں کو ٹریک کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ماضی کی کئی حکومتوں نے غیر رسمی سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی کوششیں کیں لیکن شٹر ڈائون ہڑتال اور سیاسی دبائو کی وجہ سے حکومت کو اپنی اسکیمیں موخر اور معطل کرنا پڑیں۔
پاکستان کے ٹیکس نظام میں جی ڈی پی کی شرح10 فیصد ہے جو خطے میں دیگر ممالک سے بہت کم ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ اسے بڑھاکر 15 فیصد کیا جائے اور ہر سال تقریباً 2 فیصد نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ اس کے علاوہ معیشت کےان سیکٹرز، جو ٹیکس نیٹ میں رجسٹرڈ نہیں ہیں، کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تاکہ معیشت کے تمام سیکٹرز جی ڈی پی میں اپنے تناسب کی بنیاد پر ٹیکسوں کی ادائیگی کریں۔ آئی ایم ایف نے خاص طورپر ملک کے پرچون (ریٹیل) سیکٹر، رئیل اسٹیٹ اور زرعی سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مطالبہ کیا ہے جو نومنتخب حکومت کیلئے ایک آزمائش ثابت ہوگا لیکن ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے یہ ایک اہم پیشرفت بھی ہوگی۔ یکم اپریل سے ایف بی آرنے 5 بڑے ریٹیل سیکٹرز جن میں فرنیچر، فرنچائز اسٹورز، جیولرز، ڈیکوریشن اور گاڑیوں کے شوروم، کھاد، کیڑے مار دوا اور کیمیکل ڈیلرز، کاسمیٹکس، میڈیکل اور ہارڈویئر اسٹورز شامل ہیں، کو ’’تاجر دوست رجسٹر یشن اسکیم‘‘ میں لانے کا اعلان کیا ہے۔
اس اسکیم کے تحت یہ ٹیکس ماہانہ بجلی کے بل کے ذریعے وصول کرنے کی تجویز ہے۔ پہلے مرحلے میں ملک کے 6 بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ میں ریٹیلرز پر یہ ٹیکس عائد کیا جائے گا اور رواں مالی سال، پہلے مرحلے میں 10 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ ہے جس سے ایف بی آر کو مجموعی 300 ارب روپے اور پہلے مرحلے میں 100 ارب روپے کا اضافی ریونیو متوقع ہے۔ اس اسکیم کے تحت جن افراد کی آمدن ٹیکس سے مستثنیٰ ہے، ان سے بھی 1200 روپے سالانہ وصول کرنے کی تجویز ہے۔
ملک کی موجودہ کمزور معاشی صورتحال کے باوجود ایف بی آر کو رواں مالی سال ریکارڈ 9415 ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل ہونے کی توقع ہے جبکہ گزشتہ 7 مہینوں ،جولائی سے جنوری تک ایف بی آر نے اپنے ہدف سے زیادہ 5150 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا ہے۔ گزشتہ سال اِسی دورانئے میں ایف بی آر نے 3973 ارب روپے ریونیو حاصل کیا تھا جو ایف بی آر کی اچھی کارکردگی کا مظہر ہے۔ چیئرمین ایف بی آر ملک امجد زبیر ٹوانہ نے غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے وزیراعظم شہباز شریف کو ایف بی آر کی آٹومیشن سے متعلق ایک اہم پریذنٹیشن دی جس میں ٹیکس وصولیوں میں اضافے، ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس ریفنڈز، ٹیکس نیٹ میں وسعت، ٹیکس چوری کی روک تھام، ادارے میں کرپشن اورانسداد اسمگلنگ جیسے اہم اقدامات سے آگاہ کیا ہے۔ پاک افغان اور پاک ایران سرحدیں اسمگلروں کی اہم گزرگاہیں ہیں جہاں سے اسمگلنگ قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہی ہے۔ پاکستان کا سرحدی کمزور کنٹرول نظام غیر دستاویزی تجارت کو آسان بنادیتا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو شفافیت، مستند ڈیٹا، کیش ٹرانزیکشن کی حوصلہ شکنی، بارڈر کنٹرول کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل پیمنٹ کو فروغ دے۔ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے تیز معاشی گروتھ کے ساتھ اپنے اخراجات اور قرضوں میں کمی اور آمدنی (ریونیو) میں مسلسل اضافہ کرنا ہوگا۔ نئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور انکی ٹیم سے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ اس سلسلے میں انقلابی اقدامات کریں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)