رمضان کا عشرۂ اخیرہ اختتام کی طرف گام زن تھا۔ سب زور و شور سےعید کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ راضیہ نمازِ ظہر کے بعد کمر سیدھی کرنے لیٹی تھی۔ عصر کا وقت ہوا، تو اُٹھنے کا قصد کرہی رہی تھی کہ اطلاعی گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو چھوٹی بہن زوردارسلام کرتی اندر چلی آئی۔ ’’آپی!یہ دیکھیں، مَیں عید کےلیے وہ دو سوٹ بھی خرید لائی، جو اُس دن چھوڑ آئی تھی۔‘‘ شہرین ہاتھ میں تھامے سامان سمیت صوفے پرڈھیر ہوگئی۔ تھوڑے دن پہلے شہرین، راضیہ کو اپنےساتھ بازار لے گئی تھی۔ راضیہ توعید کی تیاری رمضان سے پہلے ہی کرلیتی تھی، مگر شہرین کی عادت تھی کہ عید کی تیاری رمضان کے آخری عشرے ہی میں کرتی۔
سو، وہ اُسے ساتھ لے جاتی تھی۔ ’’اچھا! تم تو کہہ رہی تھی کہ بالکل گنجائش نہیں ہے۔ اب کیسے خرید لیے؟‘‘ راضیہ بھی اُسی صوفے پر بیٹھ گئی۔ ’’مَیں نے اتنی ضد کی فرحان سے، تو اُنھوں نے آفس سے لون لے لیا۔‘‘ شہرین بہت پُرجوش تھی۔ ’’لون؟ شہرین! یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ خواہ مخواہ کی شو بازی کے لیے قرض لےلیا جائے۔‘‘ راضیہ کواُس پر بہت غصّہ آیا، تاہم اُس نے لہجہ دھیما ہی رکھا۔ ’’آپی! عید ہے، اب عید پر بھی بندہ اپنے ارمان پورے نہ کرے، تو کب کرے بھلا۔ قرض کا کیا ہے، اُتر ہی جائے گا۔‘‘ شہرین کی بےفکری دیکھ کر راضیہ نے سرجھٹکا۔ ’’دیکھو شہرین! اب یہ رقم فرحان کی تن خواہ ہی سے کٹے گی۔ اتنی منہگائی ہے، ہر مہینے کیسے گزارہ کرو گی۔‘‘ ’’آپی! بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ ابھی تو عید ہے، انجوائے کرنے دیں۔
قسم سے آپ کی اورفرحان کی سوچ بالکل ایک سی ہے۔ ہر چیز میں ناپ تول، حساب کتاب، مَیں آپ کی طرح پچھلے سال کا خریداجوڑا پہن کرعید نہیں منا سکتی۔‘‘ شہرین نےراضیہ کوجتایا۔ ’’پچھلے سال میں نے آف سیزن میں لان کے چار اچھے اسٹائلش جوڑے50پرسینٹ آف پر خریدے تھے۔ وہی رمضان سے پہلے سلوالیے تھے۔ اب اِن ہی میں سے کوئی ایک عید پر پہن لوں گی۔ بچّوں کے کپڑے بھی پہلے ہی بنوا کر رکھ لیے کہ عید کےقریب بہت منہگائی ہوجاتی ہے۔‘‘ راضیہ کے شوہرعبید کی اچھی نوکری تھی، مگر وہ ہر معاملے میں اعتدال سے چلتی تھی۔ ’’اُف آپی! ایک تو آپ اور آپ کی کفایت شعاری۔ بھئی، عید ہے، دل کھول کرمنائیں۔ یہ پچھلےسال کے پرانے ڈیزائن مَیں تو کبھی نہ پہنوں۔
مَیں نے توعید کے لیے’’بہار‘‘کےنیوارایول سےجوڑے خریدے ہیں۔‘‘ شہرین کپڑوں پر ہاتھ پھیرنےلگی۔ راضیہ خاموش ہوگئی۔ عصرکی اذان ہونے لگی تو شہرین سامان سمیٹ کراُٹھ گئی۔ ’’چلتی ہوں، آپی! ابھی جا کرافطار بھی تیارکرنی ہے۔ آپ نے کیا بنایا ہے؟‘‘ شہرین نے پوچھا۔ ’’ابھی تو کچھ نہیں، عصرپڑھ کربنانا شروع کروں گی۔ اچھا تم ایک منٹ ٹھہرو۔ مَیں ابھی آئی۔‘‘ راضیہ نےایک چھوٹا سا لفافہ شہرین کے ہاتھ میں تھما دیا۔’’یہ فطرانے کی رقم ہے، جاتے ہوئے خالہ مقصودہ کودےدینا۔ عید میں تھوڑے ہی دن ہیں۔‘‘ خالہ مقصودہ بےاولاد، بیوہ تھیں۔ شہرین کو رخصت کرکے راضیہ نےعصر کی نماز پڑھی اور افطار کی تیاری کرنے لگی۔
راضیہ اور شہرین کے ابّا، امّاں اللہ کو پیارے ہوچُکے تھے اور اکلوتا بھائی سسرال کو پیارا ہوکر ہمیشہ کے لیے جرمنی سیٹل ہوگیا، یوں کہ بہنوں سے صرف خون کا تعلق ہی رہ گیا تھا۔ راضیہ بڑی بہن کی حیثیت سےشہرین کو ہرعید تہوار پر ماں باپ والا مان دیتی تھی۔ چاند رات کو شہرین اپنےبچّوں کے ساتھ عید منانے راضیہ کی طرف آجاتی۔ اِس بار بھی سب نے مل کر راضیہ کے گھرخُوب رونق لگا رکھی تھی۔ عید کی صُبح کے لیے راضیہ کی سب تیاریاں ہمیشہ کی طرح وقت سے پہلے مکمل تھیں اور شہرین حسبِ معمول صبح کے لیے کپڑے استری کر رہی تھی۔ ’’شہرین! لاؤ، وہ فطرانے کے پیسے دےدو،مَیں اور عبید بھائی باہر جا رہے ہیں۔
مقصودہ خالہ کو دیتا جائوں گا۔‘‘ فرحان کی بات سُن کر شہرین گھبرا گئی۔ ’’کیا ہوا؟‘‘فرحان نے اُس کی گھبراہٹ دیکھ کر بےساختہ پوچھا۔ ’’کچھ نہیں، مَیں دیتی ہوں۔‘‘ شہرین اُٹھ کر باورچی خانے میں آئی، جہاں راضیہ ڈونگے میں شیرخُرما نکال رہی تھی۔ ’’آپی! پلیز، جلدی سےمجھے دو ہزار روپے دے دیں۔ وجہ بعد میں بتاتی ہوں۔‘‘ شہرین نےعجلت میں کہا، تو راضیہ نے برتنوں والی الماری سے روزمرہ ضروریات والا پرس نکالا اور دو ہزار روپے نکال کرشہرین کو دے دیے۔ شہرین نے اطمینان بھرا لمبا سانس کھینچا اورپیسے جا کر فرحان کو تھما دیے۔
بچّے سونےجاچُکے تھے۔ فرحان اور عبید ابھی واپس نہیں آئے تھے۔ شہرین دو کپ چائے بناکر لے آئی۔’’شُکر ہے آپی! آپ نے پیسے دے دیے، ورنہ آج فرحان کے ہاتھوں میری بےعزتی پکی تھی۔‘‘ راضیہ چائے کے گھونٹ بَھرتے ہوئے سُن رہی تھی۔ ’’فرحان نے چار پانچ روز پہلے فطرانے کے پیسے دیے تھے۔ مَیں نے اپنے پرس میں رکھ لیے، لیکن شام کو اپنا دوپٹا پیکو کروانے گئی تو وہاں ایک اتنا پیارا جیولری سیٹ دیکھا، بالکل میرے عید کے سوٹ کےساتھ میچ کرتا، تومَیں نے فطرانے کی رقم ہی سے خرید لیا۔ سوچا تھا، بعد میں دے دوں گی، لیکن ذہن ہی سے نکل گیا۔
اب اگر فرحان کو پتا چل جاتا کہ مَیں نے وہ رقم خرچ کردی، تو بہت غصّہ ہونا تھا انھوں نے۔‘‘ شہرین کی بات سُن کر راضیہ نےخالی کپ سائیڈ پررکھا۔ ’’شہرین! تم پڑھی لکھی ہو کر ایسی حرکت کیسے کرسکتی ہو؟‘‘ راضیہ کے لہجے میں افسوس تھا۔ ’’کیا ہوگیا آپی! عید ہے، سب چلتا ہے۔‘‘ شہرین نے لاپروائی سے کہا۔ ’’یہی تو مسئلہ ہے ہماری زندگیوں میں، سب چلتا ہے، سوائے اللہ کے حُکم کے۔ عید ہے، عید ہے، کہہ کر ہم سب کچھ کر جاتے ہیں، یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ اِس عید کو منانے کا جو طریقہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے بتایا ہے وہ کیا ہے۔اللہ نے کہیں یہ نہیں کہا کہ عید منانے کےلیے پانچ چھے نئے جوڑےسلوائے جائیں، مگر یہ ضرور کہا ہے کہ عید کی نماز سے پہلے صدقۂ فطر لازماً ادا کردیا جائے تاکہ محروم لوگ بھی عید کی خوشیاں مناسکیں۔
مگر ہمارے لیےصرف اپنی ذات اہم ہے۔ ہم اپنی چاہت کو اللہ کے حُکم سے آگے رکھتے ہیں۔ اِس طرح تہوار کے فوائد وثمرات سے تو محروم ہوتے ہی ہیں، اُلٹا گناہ بھی کما لیتے ہیں۔ اگر فرحان یاد نہ کرواتا، تو تم نےیقیناً اس دفعہ صدقۂ فطرادا نہیں کرنا تھا۔‘‘ راضیہ کی بات سُن کرشہرین نے شرمندگی سے سرجُھکا لیا کہ واقعی ایساہی تھا۔ ’’ہم ’’عید ہے‘‘ کہہ کر فضول خرچی اور اسراف کو جواز فراہم نہیں کرسکتے۔ عید، ویسے ہی منانی چاہیے، جیسا اللہ اور اُس کے رسول کا حکم ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق عید پر نیا جوڑا پہننے، رشتے داروں کو دعوت پر بلانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن قرض لے کر بڑھ چڑھ کرخرچ کرنا بالکل درست نہیں۔ ہم محض دکھاوے کے چکر میں اپنی دنیا و آخرت دونوں خراب کرلیتے ہیں۔‘‘ راضیہ بات مکمل کرکے اُٹھ گئی اور شہرین شرمندگی سے سر جُھکاکررہ گئی۔ البتہ اس نےفیصلہ ضرور کرلیا تھا کہ آئندہ اُسے اپنی عیدیں کیسے منانی ہیں۔