• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں مسلم تنظیم زکوٰۃ بے قصور مسلم جوانوں کی رہائی کیلئے خرچ کرتی ہے

نئی دہلی (ایجنسیاں )بھارت میں ایک مسلم تنظیم زکوۃ کی رقم ان بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لیے خرچ کرتی ہیں جنہیں مبینہ طور پر پولیس جھوٹے مقدما ت میں پھنسا کر جیل میں ڈال دیتی ہے۔ گذشتہ ماہ ہی عدالت نے 23 برس کے طویل عرصے کے بعد ایک مسلم نوجوان نثارالدین احمدکو دہشت گردی کے الزمات سے باعزت بری کیا تھا۔ اپنی رہائی کے بعد احمد نے برطانوی میڈیا کو بتایا تھا کہ انہیں ان کی زندگی برباد ہونے پر اس قدر افسوس ہے کہ اس کو سوچ کر رہائی کے بعد بھی خوشی نہیں ملتی ہے۔ بھارت میں اس طرح کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں کہ انصاف میں بہت تاخیر ہوئی لیکن مسلم نوجوانوں کے ساتھ یا خاص طور پر جو کچھ بھی نثارالدین کے ساتھ ہوا بدقسمتی سے اس بارے میں سننے کو کم ہی ملتا ہے۔ ملک میں بہت سے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات یا ملک سے جنگ کرنے کے الزامات کے تحت برسوں جیل میں رکھا جاتا ہے پھر طویل قانونی جد و جہد کے بعد عدالتیں انہیں تمام الزامات سے بری کر دیتی ہے اس تاخیر کی ایک وجہ یا تو قانونی لڑائی کی مہنگی فیس ہے یا پھر مقدمہ لڑنے کے لیے کسی اچھے وکیل کا تلاش کرنا، دونوں ہی مشکل کام ہیں۔ اسی مشکل کو آسان کرنے کی غرض سے مسلمانوں کی مذہبی تنظیم جمعیت علما ہند نے ایسے لوگوں کی مدد کرنے کی غرض سے زکو کی رقم استعمال کرنی شروع کی ہے۔ جمعیت نے اب تک اس طرح کے مقدمات لڑنے کے لیے تقریبا 20 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ جمعیت میں لیگل سیل کے سربراہ گلزار اعظمی کا کہنا کہ رمضان کے مہینے میں مسلمان زکو و صدقات زیادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم مسلمانوں کو جمعے کے خطبے میں اس بہتر کام کے لیے چندہ دینے کی درخواست کرتے ہیں۔ لوگوں نے اس کا جواب بھی اچھا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم 65 مختلف دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے ایسے 560 مسلمانوں کے کیسز لڑ رہی ہے لیکن کسی کا مقدمہ لینے سے پہلے تنظیم اس کیس کا اچھی طرح مطالعہ کرتی ہے اور اسی کا کیس تنظیم لیتی ہے جس کے بارے میں یہ یقین ہو کہ اسے غلط طریقے سے پولیس نے پھنسایا ہے۔ گلزار کے مطابق اللہ کے کرم سے سو سے زائد ایسے مسلم نوجوانوں کو، جنہیں نچلی عدالتوں نے قصوروار ٹھہرایا تھا، اعلی عدالتوں نے بری کر دیا ہے۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں موت کی یا پھر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جمعیت کو سب سے پہلے ایسی کامیابی دو برس قبل اس وقت ملی تھی جب سپریم کورٹ نے 2002 میں گجرات کے ایک معروف مندر پر حملہ کرنے کے الزام جیل میں سزا کاٹ رہے چھ نوجوانوں کو بری کیا تھا۔ نچلی عدالتوں نے ان تمام نوجوانوں کو قصوروار ٹھہرایا تھا جس میں سے دو کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ ریاست مغربی بنگال کے سابق وزیر صدیق اللہ چودہری، جن کا تعلق گرچہ دوسرے حریف گروپ سے ہے لیکن انصاف کے لیے جمعیت کے اس مشن کے وہ حامی ہیں۔ جمعیت علما ہند 65 مختلف دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے ایسے 560 مسلمانوں کے کیسز لڑ رہی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ ہم ان مسلم نوجوانوں کی قانونی مدد کریں جنہیں غلط طریقے سے دہشت گردی کے مقدمات میں پھنسایا گیا ہے۔ کولکتہ کی مسجد کے ایک امام قاری محمد شفیق کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے پیسے خرچ کرنا بالکل درست ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمان جنہیں غلط مقدمات میں پھنسایا گیا ہے ان کی مدد کرنا لازم ہے۔ ان میں سے متعدد کے پاس کیس لڑنے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں۔ اور ان کی قانونی مدد کے لیے زکو کا پیسہ خرچ کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین