چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ججوں کے خط کے معاملے پر فل کورٹ بینچ بنانے کا عندیہ دے دیا، ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اگلی سماعت پر فل کورٹ یہ کیس سنے ۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجربینچ سماعت کر رہا ہے۔
بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
مختلف وکلاء اور لاہور ہائی کورٹ بار نے بھی اس معاملے پر آئینی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، 6 ججز نے عدلیہ کے معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات لگائے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ وہ زمانے چلے گئے جب چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی، اب 3 رکنی کمیٹی ہے جو کیسز کا فیصلہ کرتی ہے، نہ کمیٹی کو عدالت کا اختیار استعمال کرنا چاہیے نہ عدالت کو کمیٹی کا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے حامد خان سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہے تو کمیٹی کو بتائیں، پٹیشنز فائل ہونے سے پہلے اخباروں میں چھپ جاتی ہیں، کیا یہ پریشر کے لیے ہے؟ میں تو کسی کے پریشر میں نہیں آتا، نئی چیز شروع ہو گئی ہے، وکیل کہہ رہے ہیں کہ از خود نوٹس لیں، جو وکیل از خود نوٹس لینے کی بات کرتا ہے اُسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت کو روسٹرم پر بلا لیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جمہوریت کا یہ تقاضہ ہے کہ آپ مان لو کہ مخالف جیت گیا ہے، میں انفرادی طور پر وکلاء سے نہیں ملتا، بار کے نمائندے کے طور پر ملتا ہوں۔
حامد خان نے کہا کہ ہم نے لاہور ہائی کورٹ بار کی طرف سے ایک پٹیشن کل دائر کی ہے، لاہور بار سب سے بڑی بار ہے جس نے پٹیشن دائر کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان! آپ سے زیادہ قانون کون جانتا ہے؟ اب وہ زمانے چلے گئے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی، اب پریکٹس پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اب کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ پٹیشنز کب لگنی ہیں، کمیٹی کو عدالت اور عدالت کو کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، آج کل ہم گوبلز کا زمانہ واپس لا رہے ہیں۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے خط کے بعد کے اقدامات کی تفصیل عدالت میں پڑھ کر سنائیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس دن خط ملا اسی دن تمام ججز سے ڈھائی گھنٹے کی میٹنگ ہوئی، ہم دنیا بھر پر انگلیاں اٹھاتے ہیں، ہمیں خود پر پہلے انگلیاں اٹھانی چاہئیں، اپنی اصلاح پہلے کرو پھر دوسرے کو کچھ کہو، پہلے ہوتا تھا کہ چیمبر میں آ گئے، کیس لگ گیا، کھڑے ہو گئے، کیس لگ گیا، اب ہم سیدھا چلیں گے، عدلیہ کی آزادی پر زیرو ٹالرینس ہے، ہمیں کام تو کرنے دیں، ججز کی میٹنگ چیف جسٹس کے گھر ہوئی، اگر معاملے کو التواء میں ڈالنا ہوتا تو میٹنگ رمضان کے بعد ہو سکتی تھی، عدالت کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا، کم از کم میں تو ایسا نہیں کر سکتا، ہو سکتا ہے کوئی اور یہ کام ہم سے بہتر کر سکتا ہو لیکن ہمیں دیکھ تو لیں، 4 سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی، کہاں تھے سارے وکیل؟ میں کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن بتا رہا ہوں، اگر عدلیہ پر حملہ ہو گا تو میرے سارے ساتھی میرے ساتھ کھڑے ہوں گے، فل کورٹ ایڈمنسٹریٹو فنکشن ادا کرتی ہے، جوڈیشل فنکشن ادا نہیں کرتی، ہم وزیرِ اعظم، وزیرِ قانون اور اٹارنی جنرل سے ملے، چیف جسٹس اور سینئر پیونی جج نے ایگزیکٹیو سے ایڈمنسٹریٹولی ملاقات کی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے چیف جسٹس کا پیغام پہنچایا تو وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ پہلی فرصت میں ملنا چاہتے ہیں۔
’’عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہو گا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہونگے‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا حملہ ہو گا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ کے کام میں مداخلت ہم پسند نہیں کرتے، اگر کسی کا اور ایجنڈا ہےکہ میں ایسا کروں یا ویسے کروں تو چیف جسٹس بن جائیں، ہم دباؤ نہیں لیں گے، ہم ایڈمنسٹریٹولی کام کر رہے ہیں، ہم نے ایگزیکٹیو سے چھپ کر گھر میں میٹنگ نہیں کی، چیمبر میں میٹنگ نہیں کی، ہم نے ایڈمنسٹریٹو حیثیت میں میٹنگ کی، اس میں قانون میں فرق واضح ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے انکوائری کے لیے کوئی اقدام خود نہیں اٹھایا تھا، سپریم کورٹ نے 2 نام تجویز کیےتھے، ناصر الملک اور تصدق جیلانی کے، تصدق حسین جیلانی سے وزیرِ قانون لاہور میں ملے اور بتایا آپ کا نام آیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے چیمبر یا گھر میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں باقاعدہ میٹنگ کی، میٹنگ میں وزیرِ اعظم بطور انتظامیہ بطور سربراہِ مقننہ بیٹھے تھے، میٹنگ میں دوسری جانب عدلیہ کی انتظامیہ بیٹھی تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تصدق جیلانی نے کہا کہ آپ ٹی او آر فائنل کر کے دیں تو جواب دوں گا، تصدق حسین جیلانی سے دوبارہ پوچھا گیا، پھر نام کا اعلان کیا گیا، حکومت نے درخواست کی تھی کہ کمیشن کے لیے سپریم کورٹ نام دے، یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے یہ وفاقی حکومت کا بنایا ہوا کمیشن ہے، جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے پوچھا کہ کمیشن کو کون سی جگہ دی جائے گی؟ انہیں بتایا گیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی بلڈنگ میں کمیشن کام کرے گا۔
’’تصدق جیلانی شریف آدمی تھے، انہوں نے انکار کر دیا‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے ایسے نام تجویز کیے جن پر کم سے کم انگلی اٹھائی جائے، سوشل میڈیا پر اُن کے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں، مجھے بڑی شرمندگی ہوئی، کسی مہذب معاشرے میں ایسی باتیں ہوتی ہیں، سمجھ نہیں آ رہا ہم کس طرف جا رہے ہیں، اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو اپنی باڈیز کو لکھ سکتے تھے، تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں، وہ تو جواب نہیں دیں گے، وہ شریف آدمی تھے، انہوں نے انکار کر دیا، ایسے ذاتی حملے ہوئے اور ایسا ماحول بنایا گیا تو کون شریف آدمی ایسی قومی سروس کرے گا؟ سوشل میڈیا سے عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس کے بارے میں شروع کر دی گئیں، مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کے لیے نامزد کیا تھا اس پر حملے شروع ہو گئے، میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، میں نے ہر موقع پر مشاورت کی ہے، کیا ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں اس ملک اور قوم کو برباد کرنا ہے؟ آئین کو پڑھنا ہم نے چھوڑ دیا ہے، وزیرِ اعظم ایڈمنسٹریٹر ہیڈ بھی ہیں اور ایک حد تک مقننہ کے بھی ہیڈ ہوتے ہیں، جب سے چیف جسٹس بنا کہتا ہوں اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، ہمارے پاس آئین میں کمیشن بنانے کا اختیار نہیں، کمیشن بنانے کا اختیار سرکار کا ہے، ہم نے مشورہ کیا اور نام دیے۔
ایک طرف عدلیہ کی آزادی دوسری طرف ایگزیکٹیو کی ساکھ خطرے میں ہے: اٹارنی جنرل
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے کہا کہ قانون انکوائری کمیشن میں حکومت کو مداخلت کی اجازت نہیں دیتا، آج بھی حکومت کی پوزیشن وہی ہے، سپریم کورٹ کو ہر تعاون و معاونت فراہم کریں گے، ایک شخص مرزا افتخار نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وی لاگ کیا، قتل کی دھمکیاں دیں، عدالت میں معاملہ آیا اور ایف آئی اے کو انکوائری کی ہدایت کی گئی، ایف آئی اے نے اس میں سے دہشت گردی کی دفعات ختم کر دیں، قاضی فائز عیسیٰ نے 161 کے بیان میں شہزاد اکبر کا نام لیا، قاضی فائز عیسیٰ نے وزیرِ اعظم کے مشیرِ داخلہ اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی فیض حمید کا نام لیا، لیکن اس کے بعد معاملہ لٹکا دیا گیا اور اس دوران 2 چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے، اس خط کے بعد ایسا نہیں کیا گیا، ایک طرف عدلیہ کی آزادی دوسری طرف ایگزیکٹیو کی ساکھ خطرے میں ہے، یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی حکومت کوئی ایسا عمل نہیں کرے گی جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو، عدلیہ کی آزادی ریاست اور شہریوں کے درمیان سماجی معاہدہ ہے، حکومت عدلیہ کی آزادی کے لیے ہر ممکن معاونت فراہم کرے گی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پریشر آپ کو کولیگ، فیملی، بچوں یا کسی دوست سے بھی آ سکتا ہے، پریشر آپ کو کسی سینئر یا جونیئر سے بھی آ سکتا ہے، ایک نئی وبا پھیلی ہوئی ہے، سوشل میڈیا، ہائی کورٹ کے ججز کا خط سپریم جوڈیشل کونسل کے نام ہے اور اس کے باقی ممبرز بھی ہیں، ہم ججز کے خط کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں، اس خط کے کئی پہلو ہیں، خط میں سپریم جوڈیشل کونسل کا ذکر ہے، اس کا اختیار واضح ہے، ایک مشہورِ زمانہ کیس جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا تھا، سپریم کورٹ بیٹھی اور حال ہی میں فیصلہ دیا، ججز کو یقین ہونا چاہیے کہ ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے، ایسا نہیں کہ اگر کوئی شکایت ہو تو وہ ججز کے گلے پڑ جائے، جو لوگ چلے گئے ان پر انگلی اٹھانا نہیں چاہتا، صرف بات کرنا چاہتا ہوں، دو چیزیں ہیں، انکوائری، حقائق سامنے لانا، یہ دو کام کون کرے؟ یہ معاملہ ہے جیلانی صاحب کے کمیشن کا یا پولیس کرے یا ایف آئی اے کرے، ایجنسیاں کریں، ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ انکوائری دیگر ادارے کریں، ہم چاہتے تھے وہ تحقیقات کرے جو معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہیں، اب معاملے کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے، عمر عطاء بندیال کے بعد سینئر جج میں تھا، پھر سردار طارق، پھر اعجازالاحسن تھے، میرے سیکریٹری نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز آپ سے ملنا چاہتے ہیں، ہم نے کبھی کسی جج کو منع نہیں کیا کہ وہ توہینِ عدالت کی کارروائی نہ کرے، اگر کوئی بھی جج کے کام میں مداخلت کرے یقیناً توہینِ عدالت کی کارروائی کریں، میں نے پوچھا کب ملنا چاہتے ہیں؟ تو بتایا کہ وہ گھر کے باہر کھڑے ہیں، کسی کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کے لیے نہ سپریم کورٹ کی اجازت چاہیے، نہ جوڈیشل کونسل کی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط چیف جسٹس بندیال کے پاس آیا تھا، انہوں نے نہ مجھے اور نہ میرے بعد سینئر جج سردار طارق کو میٹنگ میں بلایا، جسٹس بندیال نے جسٹس اعجازالاحسن کو اس میٹنگ میں بٹھایا، اُس وقت ہمیں اس بارے میں نہیں بتایا گیا، توہینِ عدالت کی کارروائی کا اختیار آئینِ پاکستان نے دیا ہے۔
’’دوسری عدالت کسی عدالت کی توہینِ عدالت کے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی قانون توہینِ عدالت کی کارروائی کا اختیار کمزور نہیں کر سکتا، جس جج سے متعلق معاملہ ہو وہ خود توہینِ عدالت کی کارروائی کر سکتا ہے، دوسری عدالت کسی عدالت کی توہینِ عدالت کے اختیار کا استعمال نہیں کر سکتی، میں کسی اور عدالت کی توہینِ عدالت کا اختیار استعمال نہیں کر سکتا، اگر سول جج کی توہین ہو رہی ہے، اس کا اپنا اختیار ہے، اگر ہائی کورٹ کے جج کی توہین ہے تو اس کا اپنا اختیار ہے۔
’’ہمارا کام نہیں ہے کہ کسی کی بےعزتی کریں‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارا کام نہیں ہے کہ کسی کی بےعزتی کریں، معاشرے میں بہت گند آ گیا ہے، غلط کام کریں گے تو آپ کو پکڑیں گے، یہ نظام چلے گا جب ہر کوئی اپنا کام کرے گا، ہمارے پاس الیکشن کی تاریخ کا معاملہ آیا تھا، خط کے مطابق ہائی کورٹ کے ججز مجھ سے ملے، اس وقت کے چیف جسٹس نے مجھے یا سردار طارق کو اس میٹنگ میں نہیں بلایا، مجھ سے نہ اس وقت، نہ بعد میں کوئی مشاورت کی گئی، ہائی کورٹ کے ججز مجھ سے ملنے آئے، میرے پاس اختیار نہیں تھا کہ میں کچھ کر سکتا، دو خطوط کا ذکر ہے جن کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا، اگر عدالت توہینِ عدالت کا نوٹس دے تو جواب دینا پڑتا ہے، یہاں شرطیں لگی تھیں کہ الیکشن نہیں ہو گا، میں نے کہا تھا کہ یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے، جو ہمارا کام تھا ہم نے کیا اور اداروں سے ان کا کام کرایا، جب سے چیف جسٹس بنا ہوں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میرے کام میں مداخلت ہو رہی ہے، وکیل میرے پاس کیوں آ رہے ہیں؟ اپنے متعلق فورم پر جائیں، 300 وکلاء کا بغیر دستخط والا خط چلایا گیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! آپ نے جو بات کی درست ہے، پہلے سیاسی انجینئرنگ ہوئی ہے، خط میں لکھا ہے کہ یہ عمل اب بھی جاری ہے، یہ عوامی دلچسپی کا بہت اہم معاملہ ہے۔
’’غلط کام کریں گے تو ہم فوراً پکڑیں گے‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے ادارے کے جواب کی ضرورت ہے، اس سے زیادہ ادارے کی جانب سے ریسپانس نہیں دیا جا سکتا، فوری وزیرِ اعظم سے ملاقات کی، فل کورٹ کی دو میٹنگز ہوئیں، عدالت میں ہم وزیرِ اعظم کو نہیں بلا سکتے، ان کو آئین میں استثنیٰ حاصل ہے، ہم نوٹس دیں گے تو سیکریٹری آ جائے گا، میں نے وزیرِ اعظم کو بلا کر ملاقات کی اور واضح پیغام دیا کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہو گا، ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم کسی کی عزت اچھا لیں، ایک طرف پارلیمان ہے، دوسری طرف صدر اور تیسری طرف حکومت بیٹھی ہے، ہم سب کا احترام کرتے ہیں اور سب سے احترام کی توقع کرتے ہیں، غلط کام کریں گے تو ہم فوراً پکڑیں گے۔
’’جب سےچیف جسٹس بنا کسی جج نے شکایت نہیں کی کہ مداخلت ہو رہی ہے‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نظام تب چلے گا جب ہر کوئی اپناکام کرے گا،ہم تو اپنا احتساب کرکے دکھا رہے ہیں، جس جج سے زیادتی ہوئی ہم نے اسے درست کرنے کی کوشش کی، سابقہ کیسز میں جو غلطیاں ہوئیں ہم نے انہیں بھی تسلیم کیا، میں اپنے ججز کے ساتھ کھڑا ہوں، اگر کسی جج پر کوئی چیز ثابت نہیں تو میں اسے قابلِ احترام مانتا ہوں،جب سے چیف جسٹس بنا ہوں کسی جج نے مجھے شکایت نہیں کی کہ مداخلت ہو رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپا کر اس اہم معاملے سے نہیں بچ سکتے، ایک سول جج پر دباؤ آئے تو اسے کیسے محفوظ کرنا ہو گا، یہ سنجیدہ معاملہ ہمیں حل کرنا ہو گا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کیا ہو رہا ہے، مگر سب تاثر دے رہے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا، اٹارنی جنرل صاحب! آپ یہاں کھڑے ہو کر بیان جاری نہیں کر سکتے، ملک میں سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے اور تاثر ہے کہ سپریم کورٹ بھی ملوث رہی ہے، خط میں جج کہہ رہے ہیں کہ یہ سیاسی انجینئرنگ اب بھی جاری ہے، ججز نے جو انگلی اٹھائی ہے وہ ملک میں مداخلت کے کلچر کی ہے اور یہ سب سے اہم سوال ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز بھی چاہتے ہیں کہ انکوائری ہو۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے، بہت کچھ ہو رہا ہے، 2017ء سے یہ سب چلتا آ رہا ہے، ماضی کو نہ کھولا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے وقت میں کچھ ہوا تو میں اسے برداشت نہیں کروں گا، مجھے نشاندہی کرائی جائے اور میں بتاؤں گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔
اس وقت کے وزیرِ اعظم نے کہا کہ ان سے غلطی ہوئی، جو کرائی گئی تھی: جسٹس جمال
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس کے خلاف کچھ عرصہ قبل ایک ریفرنس آیا تھا، ریفرنس سپریم کورٹ سے خارج ہو گیا تھا، اس وقت کے وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ ان سے غلطی ہوئی تھی جو کرائی گئی تھی، کیا آپ نے معلوم کیا وہ غلطی کس نے کی تھی اور کیوں کی تھی، کیا وہ معاملہ اس عدالت میں مداخلت کا نہیں تھا، پوچھیں اُس وقت کے وزیرِ اعظم سے وہ کیا تھا اور کیوں تھا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہر ہائی کورٹ کے پاس اپنی پاور ہے، وہ استعمال کریں ناں، ہم ہائی کورٹس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم 7 جج اس لیے بیٹھے ہیں کیونکہ صرف 7 جج ہی اسلام آباد میں دستیاب تھے، دیگر ججز اسلام آباد میں نہیں تھے اس لیے فل کورٹ نہیں بیٹھا، کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں، ہو سکتا ہے آئندہ فل کورٹ بیٹھے، ہم کب تک ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھائیں گے، یہ ملک آپ کا بھی ہے اور میرا بھی، ہم آگے چلتے ہیں، بہتری کی طرف چلتے ہیں، ہر موڑ پر سنجیدگی ہے، کچھ نئی پٹیشنز آ رہی ہیں، آئین کا آرٹیکل 203 بہت اہمیت کا حامل ہے، آئین میں کسی عدالت کو دوسری پر برتری نہیں ہے۔
’’ہم ہائیکورٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے مگر ان کے اختیارات سے آگاہ تو کر سکتے ہیں‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 6 ججز کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو کہا مگر انہوں نے کچھ نہیں کیا،ہائی کورٹ کے پاس اپنے اختیارات ہیں، چیف جسٹس کیوں نہیں استعمال کر رہے، ہم مداخلت نہیں کرنا چاہ رہے مگر ہم انہیں ان کے اختیارات سے آگاہ تو کر سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی۔