• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا خطہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، آئے روز ہماری فورسز اور عسکری تنصیبات پر حملے ہو رہے ہیں ۔چند روز قبل شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے خودکش حملے میں لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن سمیت سات فوجی جوان شہیدہوگئے ، شدت پسندوں نےبغیر بارود سے بھری گاڑی فوجی چوکی سے ٹکرا دی۔ کچھ اسی سے ملتی جلتی واردات یا چینیوں کے خلاف 2021 جیسی کارروائی ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں دہرائی گئی ہے ۔ انتہا پسندوں نے بارود سے بھری گاڑی چینی قافلے سے ٹکرا دی جس سے پانچ چینی انجینئر ہلاک ہوگئے۔ یہ لوگ اسلام آباد سے داسو ڈیم کیلئےکوہستان جا رہے تھے۔اس سانحے پر چینی سفارت خانے کا مطالبہ ہے کہ پاکستان چینی باشندوں کو تحفظ فراہم کرے اور ہماری سکیورٹی کو یقینی بنائے۔ تربت میں پاک بحریہ کے ایئر بیس پر حملے میں فرنٹیئر کور کے چوبیس سالہ سپاہی نے زندگی کی بازی ہار دی۔ قبل ازیں ایک ایسے ہی حملے میں پاک فوج کے تیئس جوان اور افسران لقمہ اجل بن چکے ہیں جس کے ردعمل میں ہماری فورسز نے افغانستان کے اندر موجود تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کو ٹارگٹ کیا۔‎ہمارے میڈیا میں اس نوع کی رپورٹس بھی آ رہی ہیں کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملوں کے لئے افغان سرزمین پر کس نوع کی منصوبہ بندی ہورہی ہے اس نوع کی وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کا سرغنہ یحییٰ حافظ گل بہادر گروپ کے دہشت گردوں کو ہدایات دے رہا ہے کہ آپ نے پاکستانی پوسٹوں پر کس طرح حملہ کرنا ہے۔ ہنوز اس نوع کی دہشت گردی یا خود کش حملوں کا ٹارگٹ ہمارے عوام نہیں، جیسے کہ چند روز قبل ماسکو میں ہوا ہے۔ ‎ماسکو کے نواحی علاقے میں ایک عوامی کنسرٹ کے دوران داعش کی خراسان برانچ کے پندرہ افراد نے حملہ کردیا جس سے 143 بے گناہ انسان اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے اور اسی قدر زخمی ہسپتالوں میں پہنچائے گئے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دولت اسلامیہ شام و عراق کو صدر پیوٹن پر یہ غصہ ہے کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کی بے جا حمایت کیوں کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ہماری قدیمی مذہبی کتب میں خراسان کی خصوصی حیثیت بیان کی گئی ہے جو بالخصوص افغانستان اور ملحقہ وسطی ایشیائی علاقوں پر مشتمل تھا۔ ہمارے یہاں اس نوع کی بحثیں ہوتی رہی ہیں کہ اپنے مطالبات منوانے کیلئےکیا تشدد کی راہ اختیار کی جاسکتی ہے؟ درویش دکھی دل کے ساتھ عرض گزا رہے کہ وہ زندگی بھر بڑے بڑے نامی گرامی علمائے اسلام کے انٹرویوز کرتا رہا ہے جو یہ استدلال کرتے نہیں تھکتے تھے کہ ظلم کے خلاف مسلح جدوجہد چاہے وہ کوئی عسکری مسلح تنظیم ہی کر رہی ہو، جہاد ہے، آزادی کی جہدوجہد ہے۔ کہا جاتا کہ خود کش حملوں کو خود کش حملے مت کہو فدائی حملے لکھو کہ یہ مجاہدین اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے بڑے مشن کیلئے اپنی جانیں فدا کر دیتے ہیں۔‎کیا ہمارے لوگوں کو یاد نہیں ہے کہ یہاں علماء کی دینی کانفرنسز میں گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی اصطلاحات کن خفیہ اشاروں پراستعمال کرتےہوئے کیا کیا اسٹوریاں نہیں گھڑی جاتی تھیں اور آج بھی ہمارا یہ وتیرہ ہے کہ ہمارے جوانوں کو کابل کی طرف سے خون میں نہلایا جاتا ہے مگر ہم منہ دہلی کی طرف کرکے بھڑاس نکالتے ہیں۔ ہمارےبے گناہ انسانوں پر بارود امارت اسلامیہ افغانستان یا اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سےپھینکتے ہیں مگر گالیاں ہم بھارت کو دیتے ہیں کہ ساری فنڈنگ وہی کرتا ہے ۔‎ کابل میں جب امریکی اشیر باد سے اشرف غنی حکومت برسراقتدار تھی اس وقت بھی ہمارا میڈیا یہی چیختا چلاتا رہتا تھا کہ اشرف غنی تو دلی کا گماشتہ ہے جبکہ کابل انتظامیہ سے برسرپیکار طالبان ہمارے بھائی ہیں۔ جب اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت گرے گی تو ہمارے طالبان بھائیوں کی صورت افغانستان میں اسلامی انقلاب بپا ہو گا تب ہمارے یہ طالبان بھائی کشمیری بھائیوں کی نصرت کو پہنچتے ہوئے انڈیا کو ناکوں چنے چبائیں گے۔ یہی وجہ ہے ہمارے طالبان بھائیوں کی جیت پر یہاں خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے، نوافل پڑھے گئے اور مٹھائیاں بانٹی گئیں۔‎ حالانکہ سچائی یہ تھی کہ اس جیسی تیسی اشرف غنی حکومت نے ٹی ٹی پی کے آٹھ سو سے اوپر شدت پسندوں کو جیلوں میں بند کر رکھا تھا جنہیں غلامی کی زنجیریں توڑنے والے طالبان نے برسراقتدار آتے ہی اسلحہ و بارود سمیت رہا کر دیا۔(جاری ہے)‎

تازہ ترین