• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو زندگی میں کچھ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو بلاوجہ اچھے لگتے ہیں، فاروق عادل سے میں برس ہا برس پہلے ملا تو موصوف مجھے بلاوجہ اچھے لگے، لیکن جب ملتا چلا گیا تو احساس ہوا کہ یہ بندہ مجھے بلاوجہ اچھا نہیں لگا تھا، میں تو انہیں تب سے جانتا ہوں جب یہ کراچی میں قیام پذیر تھے،بلکہ صرف انہی کو نہیں بلکہ ان کے استاد پروفیسر ڈاکٹرطاہرمسعود سے بھی محبت کا رشتہ تھا، مگر وہ اس وقت نہ ڈاکٹر نہ پروفیسر بلکہ کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کے طالب علم تھے اور مجھ پر تھیسز لکھنے کے خواہش مند تھے۔مگر اب میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے شعبے کی اس بڑی شخصیت پر مجھے کبھی کچھ لکھنے کا موقع ملے۔ باقی رہے میرے ڈاکٹر فاروق عادل تو وہ میرے دیکھتے دیکھتے تحریر و تاریخ کے کئی معرکے سر کر چکے ہیں۔ سابق صدر پاکستان ممنون حسین مرحوم و مغفور ایک اعلیٰ درجے کے انسان، منکسر المزاج اور دیانت و امانت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، ان کی نظر انتخاب فاروق عادل پر پڑی اور ان کی جوہر شناس نظروں نے انہیں ایوان صدر میں تعلقات عامہ کے شعبے کے سربراہ کے طور پر منتخب کرلیا۔ وہاں فاروق عادل سے ملاقاتوں کے مواقع میسر آتے رہے، مگر وہ مجھ ایسے ناکارہ انسان کی بھی اتنی عزت کرتے کہ مجھے شرمندگی محسوس ہونے لگتی، مگر اس وقت میں نے شرمندہ ہونا چھوڑ دیا جب میں نے محسوس کیا کہ ان کے اس رویے میں ان کی کوئی ذاتی کوشش شامل نہیں بلکہ خاندانی تربیت کے تحت یہ چیز انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔

میں فاروق عادل کا بہت عرصہ تک قاری بھی رہا ہوں وہ مولانا صلاح الدین کے ہفتہ روزہ ’’تکبیر‘‘ میں کالم لکھا کرتے تھے اور میں ان کا کالم بطور خاص اس لئے پڑھتا تھا کہ یہ ’’کالم‘‘ ہوتا تھا، کالم کے نام پر شائع ہونے والی ہر تحریر کالم نہیں ہوتی۔ اس میں ادب کی چاشنی بھی ہوتی ہے اور دریا کو کوزے میں بند کرنا بھی ہوتا ہے اور یہ خصوصیت فاروق عادل کے کالم کی نمایاں صفت تھی، تاہم ابتدا ہی سے ان کے اندر تاریخ و تحقیق سے گہری دلچسپی کے آثار پائے جاتے تھے، اپنی طالب علمی کے دوران ان کے استاد ڈاکٹر طاہر مسعود نے ایک تھیسز خبروں کے حوالے سے لکھنے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے خبروں میں تاریخ اور تحقیق کا تڑکہ لگا دیا۔ فاروق عادل کی تحریر یک رخی نہیں ہے اس کا زیادہ اندازہ مجھے بی بی سی کے لئے لکھے گئے ان کے مضامین سے ہواجن کا اسلوب اور متن ان کے کالموں سے جداگانہ تھا، مجھے یاد ہے ایک دو دفعہ انہوں نے بی بی سی کیلئےکوئی تحقیقی نوعیت کی تحریر لکھنے کے دوران مجھ سے فون پر ایک دو واقعات کے حوالے سے ان کی حقیقت بارے استفسار کیا تھا کہ ان واقعات کا میں بھی کردار یا گواہ تھا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے لکھے ہوئے لفظوں کے کتنے بڑے پاسدار ہیں۔

مجھے یہ سب باتیں برادرم کی نئی کتاب ’’جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے‘‘ سے پڑھتے ہوئے یاد آئی ہیں کہ ان کی تحقیق اور تاریخ کی سچائی سے کس درجہ وابستگی ہے کہ اس کتاب میں انہوں نے ہمیں وہ سب کچھ بتا دیا ہے جو ہمیں تاریخ نے نہیں بتایا تھا اور فاروق نے ہوائی باتیں نہیں کیں بلکہ ہر خبر کا سورس بھی بتایا ہے، ان کی اس احتیاط کا اندازہ لگانا ہو تو صرف کتاب کا اشاریہ ہی دیکھ لیں جو کتنے ہی صفحات پر پھیلا ہوا ہے مگر سچ پوچھیں تو ایک لحاظ سے مجھے فاروق عادل کی یہ کتاب پڑھ کر دکھ بھی ہوا ہے کہ پاکستان کے تاریخی واقعات کا بیان پڑھتے ہوئے روح کانپ جاتی ہےکہ ہمارے حکمرانوں نے ہمارے ملک کے ساتھ وہ سلوک کیا جو ایک سوتیلی ماں اپنے سوتیلے بچے کے ساتھ بھی نہیں کرتی۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ کوئی ملک اپنا وزیراعظم امریکہ سے درآمد کرے، کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ پاکستان میں جس طرح حکومتیں بنائی اور گرائی گئیں، کسی اور ملک میں بھی اب ہوتا ہے۔ کیا ہماری عدلیہ نے تاریخ کے اہم موڑ پر جو گل کھلائے اور جن کے نتیجے میں ملک قعرِمذلت میں جاگرا، اس کی نظیر کہیں اور ملتی ہے؟اس میں سیاستدانوں کی قلابازیاں، علما کی کہہ مکرنیاں، صحافیوں کے بے رخ تجزیے اور ان تمام عناصر کی کوتاہیاں کم غلطیاں اور بددیانتیاں بھی مرحلہ وار سامنے آتی ہیں۔ کبھی نظریاتی سیاست کا تڑکا لگایا گیا اور کبھی نظریہ ضرورت کا، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں کس نے کیا کردار ادا کیا یہ سب کچھ ہم سے بہت دیر تک چھپایا گیا مگر بقول عرفان صدیقی مورخ کے ہاتھ بھلے بندھے ہوں مگر تاریخ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں نہیں ڈالی جاسکتیں۔

فاروق کی یہ کتاب انتہائی خشک موضوع پر لکھی گئی ہے مگر موضوع بھلے خشک ہو، فاروق کے قلم کی شگفتگی، شستگی اور اس کی ادب سے گہری وابستگی بھی جگہ جگہ ظہور کرتی ہو، اس کے نتیجے میں مجھ ایسے بور تحریروں کے بھگوڑے نے بھی یہ کتاب ایک تو نہیں، تین نشستوں میں پڑھ ڈالی، تاہم مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ ہماری اور آنے والی نسلوں کو تعلیمی اداروں میں ’’مطالعہ پاکستان‘‘ کے نام پر جو پڑھایا جاتا ہے، کیا یہ ایک کتاب جھوٹ سے آلودہ ذہنوں کے جالے دور کرسکے گی؟۔

اور ایک بات آخر میں ، کتاب کا نام ہے ’’جب تاریخ کے ہاتھ بندھے تھے‘‘ میں فاروق سے پوچھتا ہوں کہ کیا تاریخ کے ہاتھ اب کھول دیئے گئے ہیں؟۔

تازہ ترین