پروفیسر خالد اقبال جیلانی
رمضان المبارک کے مقدس و پُرنور دن رات ہم سے رخصت ہو گئے اور عید کی صبح مسرت طلوع ہو گئی۔ مسلمانانِ عالم عید کی خوشیوں سے سرشار، عید کی تیاریوں میں مصروف ہیں، آج اظہارِ مسرت کا دن ہے، جشن منانے کا دن ہے، ملنے جلنے اور تبریک و تہنیت کے تبادلے کا دن ہے۔ رب ذوالجلال کی تعریف و توصیف اور اس کی کبریائی والوہیت کے اعلان کا دن ہے، آج کا دن اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے سجدۂ شکر بجا لانے کا ہے ۔ عید کا دن اہلِ ایمان روزے داروں کے لئے مقرر کیا ہوا تہوار ہے۔
عید کے دن نہانا دھونا، صاف ستھرے کپڑے پہننا، عطر سے معطر ہونا، اللہ کی تکبیر و تہلیل کہتے ہوئے عید گاہ جانا، نمازِ عید کو جانے سے پہلے کچھ میٹھا کھا کر جانا، ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا اور نماز عید کے بعد سب کے ساتھ عید مل کر اسلام کی سطوت و شوکت کا مظاہرہ کرنا اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور مطلوب اعمال ہیں۔
روزوں کی تکمیل اور رمضان کے اختتام پر عید الفطر کا تہوار منانے کا ایک خاص اور اہم مقصد ہے۔ رمضان المبارک میں دن کو روزہ اور رات تراویح و عبادات کے فریضے سے سبکدوش ہوتے ہی خوشی منانا اور سجدہ شکر بجالانا دراصل اس عجزو انکسار اور حقیقت کا اعتراف کرنا ہے کہ ہمیں رمضان کے مقدس مہینے میں جو مبارک ساعتیں حاصل ہوئیں ، ہم نے روزہ رکھا، تراویح پڑھی تلاوت ِ قرآن کی ، تسبیح و ذکر الہٰی کیا، تہجد ادا کی، شب بےداری کی، صدقہ و خیرات کیا، یہ سب اور اسی طرح دیگر عبادات بجالائے یہ سب اللہ ہی کا فضل و کرم اور اسی کی توفیق سے ممکن ہوا، اگر اللہ ہمیں ان نیکیوں کی توفیق و دیعت نہ کرتاتو ہم ان میں سے کوئی عبادت یا نیکی نہیں کر سکتے تھے ؎
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
عید کا تہوار اور خوشی منانے کی اس حقیقت کو پیش ِ نظر رکھیں تو اس بات کے کہنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ عید کی خوشیوں میں اس محروم اور کم نصیب کا کوئی حصہ نہیں ہے ، جو رمضان کو غفلت میں گزار گیا اور رمضان کی مغفرتوں، رحمتوں ، برکتوں اور سعادتوں سے محروم ہی رہا اور رمضان کے مغفرت و رحمت کے دن و رات پانے کے باوجود اپنی مغفرت کا پروانہ بارگاہِ رب سے حاصل نہیں کر سکا۔
رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان میں جبرائیل ِامینؑ کی بددعا اور اس پر رسول اللہ ﷺ کی آمین ایسے ہی شخص کے لئے کی گئی ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’وہ شخص تباہ و برباد ہو جائے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس مہینے روزے رکھ کر جنت کا حقدار نہیں ہو سکا۔‘‘
جب تک سورج مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب ہوتا رہے گا،تب تک عید کا یہ پر مسرت دن ہر سال آتا رہے گا اور صبح عید ہر مسلمان پر طلوع ہوتی رہے گی، لیکن صرف صبح عید کا طلوع ہونا ہی خوشی و مسرت کا پیغام نہیں، بلکہ خوشی کے اس جشن اور مسرت کے اس دن کا حقیقی مستحق اور حصہ دار صرف وہی ہے جو اپنے خالق و مالک اللہ کے حضور کھڑے ہو کر یہ کہہ سکے کہ اے اللہ ،تو نے مجھے جو برکت و سعادت اور مغفرت و رحمت کا مہینہ عطا کیا تھا، میں نے وہ دن بھی روزہ رکھ کر تیری اطاعت میں گزارے اور راتیں بھی تیری عبادت میں بسر کیں۔
عیدکا دن مسرت کا دن بھی ہے اور تعزیت کا دن بھی ۔ یہ مبارک باد اور مسرت کا دن اُن خوش نصیبوں کے لئے ہے جن کا رمضان شگر گزاری، عبادت اور اطاعت الٰہی میں گزرا۔ اسی کانام تقویٰ ہے اور افسوس و تعزیت کا دن ان کم نصیبوں کے لئے جن کا رمضان اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ، بے روزہ داری اطاعت الٰہی کے بغیر گزرا۔ ایسے بندے مبارک باد و مسرت کے نہیں تعزیت اور افسوس کے سزاوار ہیں۔
جو خوش نصیب عید کی مبارک اور خوشیوں کے واقعی حق دار ہیں۔ اُن کا ایمان افروز حال اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں فرمایا کہ جب عید کی صبح طلوع ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو زمین پر اترنے کا حکم دیتا ہے، وہ فرشتے زمین پر اتر کر ہر ہر شہر اور ہر ہر بستی کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہ فرشتے حکم الہٰی سے ہر گزر گاہ ،ہر راستے پر دورویہ کھڑے ہو جاتے اور پکارتے ہیں کہ ’’اے امتِ محمدیہ ﷺ اپنے گھروں سے نکلو اور اپنے پروردگار کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف کرنے والا ہے، اور جب مسلمان عید گاہ کی جانب جانے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے مخاطب ہو کر سوال کرتا ہے کہ بھلا اس مزدور کا انعام کیا ہے جس نے اپنے رب کے مقرر کردہ کام کو مکمل کیا۔
تمام فرشتے بیک زبان ہو کر عرض کرتے ہیں کہ ’’اے اللہ اس مزدور کا انعام یہ ہے کہ اسے بھرپور مزدوری دی جائے، اس پر اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ اے فرشتوں کی جماعت تم سب گواہ ہو جاؤ کہ میں نے اپنے اُن بندوں کو جو رمضان کے روزے رکھتے رہے اور تراویح پڑھتے رہے۔
اس کے انعام میں انہیں اپنی خوشنودی سے نواز دیا اور ان سب کی مغفرت فرمادی۔ اس کے بعد اللہ اپنے روزے دار تراویح گزار تہجد دار بندوں سے کہتا ہے کہ اے میرے مقبول بندو! مجھ سے مانگو، جو کچھ مانگنا چاہتے ہو، مجھے میری عزت و جلال کی قسم، آج عید کے اس مغفرت اور انعام کے دن عید کے اس اجتماع میں تم اپنی آخرت سنوارنے کے لئے جو کچھ مجھ سے مانگو گے ،میں عطا کروں گا اور اپنی دنیا بہتر بنانے کے لئے جو چاہو گے، اس میں بھی تمہاری بھلائی کو پیشِ نظر رکھو گا۔
جب تک تم میرا دھیان رکھو گے ،میں تمہارے قصوروں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ مجھے میری عزت و جلال کی قسم میں تمہیں مجرموں کے سامنے ہر گز ذلیل و رسوا نہ کروں گا۔ جاؤ تم اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جاؤ ۔ تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے ،میں تم سے راضی ہو گیا۔