• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سخت معاشی فیصلوں پر عوام کو اعتماد میں لینا ہوگا

آپ کسی سے بھی پوچھیں کہ مُلک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے، تو وہ فوراً جواب دے گا، معیشت۔ ظاہر ہے، معیشت سے مُراد مُلکی کم زور معیشت ہے۔ پھر یہ سوال بھی بنتا ہے کہ اِس کم زور معیشت کو ٹھیک کون کرے گا؟اِس پر جواب ملتا ہے کہ’’ حکومت۔‘‘ حالاں کہ اس کا درست جواب ہے، پاکستان کے عوام اور اِس عوام میں اشرافیہ، حُکم ران اور معاشرے کے تمام طبقات شامل ہیں۔اِس امر میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ معیشت کی بحالی کے سفر میں عوام کی رہنمائی حکومت کی ذمّے داری ہے۔ سیاست دان، ماہرین، میڈیا یہ جملہ بار ہا دُہراتے ہیں کہ حکومت ڈیلیور کرسکے گی یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت کس طرح ڈیلیور کرے گی۔

اگر تمام سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کو شامل کر لیا جائے، تو بھی اُن کی تعداد کُل مُلکی آبادی کا دو، تین فی صد بھی نہیں بنے گی۔تو کیا ہم یہ اُمید رکھتے ہیں یا ہمیں یہ یقین ہے کہ چند لاکھ افراد، چوبیس کروڑ افراد کی تمام مشکلات کا حل نکالیں گے اور ایک خوش گوار صبح جب ہم جاگیں گے، تو مُلک ترقّی یافتہ اور خوش حال ہوگا۔ 

ایسا کہیں ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے۔ اگر سارے عقل مندوں اور مقبول ترین رہنماؤں کو بھی اکٹھا کردیا جائے، تب بھی ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہمارے مُلک میں مقبولیت یا پاپولزم کا تجربہ ناکام رہا، اِسی طرح دنیا کے بہت سے مقبول رہنماؤں نے، جو عوامی لہروں پر سوار ہوکر اقتدار تک پہنچے، چند ہی برسوں میں مُلک کا بیڑہ غرق کردیا، تو عوام کے ہاتھوں اقتدار سے نکال دیئے گئے۔

اِس ضمن میں دو باتیں واضح رہنی چاہئیں۔ایک تو یہ کہ حکومت کا کام رہنمائی کرنا ہے اور اس کی مشینری کا کام،جس میں فوج سے لے کر بیورو کریسی تک شامل ہے، احکام کے نفاذ میں مدد دینا ہوتا ہے، لیکن عزم، محنت، لگن اور کام عوام ہی کو کرنا پڑتا ہے۔جس زمانے میں چین ابھی بڑی معیشت اور ایک ترقّی یافتہ مُلک نہیں بنا تھا، اُس وقت فیکٹریز میں کام کرنے والے مزدور اور افسر وقفے میں چائے کی بجائے گرم پانی پی کر گزارہ کرتے تھے۔بھارت میں80 ء کی دہائی تک رات کو بجلی کی کمی کی وجہ سے اسٹریٹ لائیٹس نہیں جلتی تھیں۔ 

ایک پرانے ماڈل کی کار تھی، جو ٹیکسی سے لے کر وزیرِ اعظم آفس تک کے لیے استعمال میں آتی۔ چین اِس وقت دنیا کی بڑی معیشت، جب کہ بھارت دنیا کی تیز ترین ترقّی کرنے والی معیشت ہے اور وہاں کھرب پتی افراد کا کلب بن چُکا ہے۔کیا ہم اِس سب کے لیے تیار ہیں یا پھر صرف منہگائی اور کم زور معیشت ہی کا رونا روتے رہیں گے، محنت کی بجائے سیاست،سیاست ہی کھیلتے رہیں گے۔

آگے بڑھنے سے قبل ایک نظر مُلکی صُورتِ حال پر بھی ڈال لی جائے۔وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بن چُکی ہیں۔وزیرِ اعظم، صدرِ مملکت اور وزرائے اعلیٰ اپنے عُہدوں پر متمکّن ہو چُکے ہیں۔تین صوبوں میں وہی2018 ء کے انتخابات کے بعد والی صُورتِ حال ہے، یعنی سندھ میں پیپلز پارٹی، کے -پی -کے میں سنّی اتحاد کاؤنسل(پی ٹی آئی) اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے، جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ نون حکومت بنانے میں کام یاب رہی،لیکن یہ کوئی غیرمعمولی تبدیلی نہیں، کیوں کہ2018ء کے انتخابات کے بعد بھی اسمبلی میں نون لیگ ہی کی اکثریت تھی، جسے توڑ جوڑ کر کے اقتدار سے محروم کیا گیا۔وفاق میں مسلم لیگ نون کی اتحادی حکومت ہے، جس میں پی پی پی، متحدہ قومی موومنٹ اور باپ پارٹی شامل ہیں۔ 

شہباز شریف دوسری مرتبہ مُلک کے وزیرِ اعظم بنے ہیں۔اُنہیں انتظامی اور ترقیاتی امور کا وسیع تجربہ ہے اور بین الاقوامی طور پر تمام اہم رہنماؤں سے اُن کے تعلقات ہیں۔نیز، وہ عالمی مالیاتی اداروں سے بھی نمٹنا جانتے ہیں۔پی ڈی ایم دَور کا دوسرا آئی ایم ایف پیکیج اُن ہی کی ذاتی کوششوں سے ممکن ہوا تھا۔ایک اہم تبدیلی پنجاب میں یہ آئی کہ وہاں ایک خاتون وزیرِ اعلیٰ ہیں۔مریم نواز شریف، مسلم لیگ( نون) میں دوسرا اہم ترین عُہدہ رکھتی ہیں، جب کہ اُنہیں میاں نواز شریف اور وزیرِ اعظم کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے۔

وزیرِ اعظم اور اُن کی حکومت کو اِس بات کا پورا ادراک ہے کہ نہ صرف معیشت کی بحالی بنیادی چیلنج ہے، بلکہ عوام کو فوری ریلیف بھی فراہم کرنا ضروری ہے۔وہ پہلے امتحان سے کام یابی سے نکل گئے ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام کی تیسری قسط بغیر کسی پریشانی کے ملنے کے بعد یہ پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ چُکا ہے، لیکن اُنھیں اب آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام کی آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ 

یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ پروگرام قوم کی مجبوری ہے کہ کوئی بھی حکومت آتی اور اُس کا رہنما کتنا ہی کرشماتی کیوں نہ ہوتا، اُسے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑتا۔ قوم نے جس دلدل میں خود کو دھنسا لیا ہے، اُس سے نکلنے کا ایک راستہ یہی ہے کہ یہ پروگرام بیرونی سرمایہ کاری کا ضامن ہوگا، جس کے بغیر ہمارا فی الحال گزارہ ممکن نہیں۔ یاد رہے، آئی ایم ایف کے چند ارب کے قرضے کی زیادہ اہمیت نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ قرضے کی منظوری سے غیر مُلکی سرمایہ کاری کا راستہ ہم وار ہو جاتا ہے۔

موجودہ حکومت نے دنیا بَھر سے اپنے سفارتی رابطے مستحکم کر لیے ہیں۔امریکا، چین، روس، یورپی ممالک، جنوب ایشیائی ممالک، مشرقِ وسطیٰ، مسلم دنیا، گویا سب ہی شہباز حکومت کو معمول کی سفارتی مبارک باد دے چُکے ہیں۔ امریکا سے صدر جوبائیڈن نے بھی خط بھیجا، جو ہمارے نزدیک ایک معمول کا سفارتی عمل تھا، لیکن پی ٹی آئی نے خوامخواہ اسے اپنی جذباتی فعالیت سے غیر معمولی بنا دیا۔

اِس نے پہلے آئی ایم ایف کوخط لکھا کہ حکومت کو بقیہ قسط نہ دی جائے، پھر امریکی لابنگ فرم پر امریکی پاکستانیوں کا انتہائی محنت سے کمایا ہوا پیسا ضایع کیا۔ کانگریس کمیٹی کے ایک معمول کے اجلاس میں ڈونلڈ لو کی بریفنگ کو یہاں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔حالاں کہ جنہیں عالمی سفارتی تعلقات اور امریکی طرزِ سیاست کی سوجھ بوجھ ہے، وہ جانتے ہیں کہ کانگریس کی سب کمیٹی کی کوئی اہمیت نہیں ، وہ تو صرف بحث مباحثے کا فورم ہے۔پھر یہ کہ وہاں سے پاکستان کو کوئی ایسی امداد بھی نہیں مل رہی، جس پر کوئی کانگریس مین اثر انداز ہوسکے۔ 

یہ پریسلر ترمیم کا زمانہ بھی نہیں ہے۔پی ٹی آئی نے ایک طرح سے اندھیرے میں تیر چلایا یا پھر پاکستان سے فرار ہوکر امریکا جانے والے کچھ پاکستانیوں کی جذباتی اور اپنے نمبر بڑھانے کی ایک کوشش تھی، جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ پاکستان یا حکومت پر تو اس کا کیا اثر ہونا تھا، خود اس کے معمار مایوسی کا شکار ہوئے، جو اُن کے کانفرنس ہال میں شور شرابے اور بعد میں وہاں سے نکالے جانے سے ظاہر ہے۔ اب اِس تناظر میں دیکھیں، تو امریکی صدر کا وزیرِ اعظم، شہباز شریف کو نیک تمّنائوں کا خط، بڑی سفارتی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔

عمران خان ساڑھے تین سال جوبائیڈن کے ٹیلی فون کا انتظار کرتے رہے، جو کبھی نہ آیا۔ امریکا سے درآمد شدہ عالم فاضل مشیروں کو فون کال کروانے کے لیے وہاں بھیجا گیا، جنھیں صاف انکار سُننے کو ملا اور وہ صرف یوٹیوب پر وی لاگ کر کے اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑتے رہے۔ امریکی صدر کا خط کے ذریعے کسی بھی پاکستانی سربراہِ حکومت سے پانچ سالوں میں پہلا براہِ راست رابطہ ہے۔ صدر جوبائیڈن نے وزیرِ اعظم کو یقین دِلایا کہ امریکا ہر چیلنج میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

امریکی حکومت کی ایسی باتیں اکثر یہاں کے عوام کو اچھی نہیں لگتیں، لیکن کیا اُنہیں امریکی کانگریس کی سب کمیٹی کی اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قبول ہوگی اور وہ بھی اپنے ہی لاکھوں ڈالرز خرچ کرکے۔عمران خان کو امریکی حکومت کی خواہش پر افغان مسئلے میں مدد کے لیے دو مرتبہ وائٹ ہاؤس جانا پڑا۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دَور تھا۔یہ بات ذہن میں رہے کہ ٹرمپ اب پھر صدارت کے لیے سب سے مقبول اُمیدوار ہیں۔وہ ایک بہت بڑے بزنس مین ہیں اور امریکی مفادات کو اِسی نظر سے دیکھتے ہیں۔اِسی کے تحت اپنے دَور میں بھارت، جاپان اور مشرقِ وسطیٰ سے غیر معمولی تعلقات رکھے، جب کہ پاکستان آنے کی زحمت تک نہ کی۔

اُن کے لیے معاشی معاملات سے واقف سربراہ سے بات کرنا بہت آسان اور پسندیدہ ہوتا ہے۔ شہباز شریف کو یہاں یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ وہ بھی کاروباری خاندان سے ہیں، اب دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے اِس پس منظر کو مُلکی مفاد کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں۔ فی زمانہ سفارت میں حُکم رانوں کی ذاتی دوستیاں بہت اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ نریندر مودی کی ڈپلومیسی میں یہ بہت نمایاں نظر آتی ہے۔

جب صدر بائیڈن اور صدر شی جن پنگ کی پہلی ملاقات ہوئی، تو اُنہوں نے’’ اولڈ بڈی‘‘ یعنی پرانے دوست کے الفاظ کا استعمال کیا اور دونوں ممالک کے درمیان برف پگھل گئی۔ٹرمپ اِس خواہش کا اظہار کرچُکے ہیں کہ پاک،بھارت تعلقات میں بہتری آئے اور تنازعات حل ہوں۔وزیرِ خارجہ، اسحاق ڈار بھارت سے تجارت کا عندیہ دے چُکے ہیں۔اگر ہماری حکومت درست کارڈ کھیلے، تو معاشی میدان میں بڑی پیش رفت ممکن ہے لیکن اِس کے لیے ضروری ہوگا کہ بدلتے حالات سے فائدہ اُٹھایا جائے اور اندرونی سیاست کو اگلے انتخابات تک خیر باد کہہ دیا جائے۔

پارلیمان قائم ہو چکی،اب اِس کی بالادستی قائم ہونا ضروری ہے۔کون آتا ہے، کون جاتا ہے، یہ اہم نہیں، اہم ترین یہ ہے کہ قومی فیصلے چاہے، وہ اندرونی معاملات پر ہوں یا بین الاقوامی تعلقات پر، سب پارلیمان میں ہوں۔اِس ضمن میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، قاضی فائز عیسیٰ کے اقدامات قابلِ تحسین ہیں۔اُنہوں نے منصب سنبھالتے ہی فیصلہ دیا کہ پارلیمان سپریم ہے اور قانون سازی منتخب نمائندوں کا حق ہے۔ اُنہوں نے اعلیٰ عدلیہ کو سیاست میں گھسیٹنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی۔ 

کیا کوئی اِس سے انکار کر سکتا ہے کہ حکومت چلانا منتخب نمائندوں کا کام ہے۔ججز بھی وزیرِ اعظم کے تحت ہی تعیّنات ہوتے ہیں۔اُن کی لاکھوں روپے کی تن خواہیں اور مراعات، جو تاحیات ہوتی ہیں، حکومت عوام کے ٹیکسز سے ادا کرتی ہے، اِس لیے اُن کے مسائل کا حل بھی وزیرِ اعظم، کابینہ اور پارلیمان ہی کے پاس ہونا چاہیے۔یہ حق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اُنہیں دے دیا، وگرنہ یہ حال ہوگیا تھا کہ منتخب وزیرِ اعظم ہر وقت عدالتوں میں کھڑے رہتے۔اُن پر سو موٹو اور توہینِ عدالت کی تلوارلٹکتی رہتی۔ 

ججز اُنہیں سسلین مافیا، ڈان اور گاڈ فادر جیسے القاب سے نوازتے رہے اور منتخب نمائندے بے بسی کی تصویر بنے کٹہروں میں کھڑے رہتے۔سابق چیف جسٹس صاحبان نے اسپتالوں کے انتظامی معاملات، فیشن ڈیزائنر کے رفاہی کاموں اور ڈیم جیسے خالص تیکنیکی معاملات میں زبردستی ٹانگ اَڑا کر انتظامیہ کو بے بس کیا۔ اِن ہی کی وجہ سے مُلک کو ریکو ڈیک معاملے پر چھے ارب ڈالرز جرمانے کے کیسز بھگتنے پڑے اور عوام چُوں بھی نہ کرسکے۔ کسی نے معزّز جج صاحبان سے اِس سوال کا جواب نہیں مانگا کہ قوم تو پائی پائی کو ترس رہی ہے اور آپ اونچی کرسیوں پر بیٹھ کر تباہ کُن فیصلے سُنا رہے ہیں۔یوں سمجھ لیں کہ اِس جرمانے کی رقم اُس وقت کے پورے سالانہ مُلکی بجٹ سے زیادہ تھی۔

سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ اِن حالات میں کوئی حکومتی اہل کار کسی فائل پردست خط کرنے کو تیار نہیں۔پھر یہ مثالیں بھی سامنے آئیں کہ مدعی کے آنے پر ایک چیف جسٹس صاحب اِس قدر مرعوب ہوئے یا جذبات سے بے قابو ہوگئے کہ اُنھیں خوش آمدید کہا۔عوام اور خاص طور پر وکلاء کو شُکر ادا کرنا چاہیے کہ جوڈیشل ایکٹیوازم کا دَور گزر گیا اور وہ فُل کورٹ، جس کے لیے فریادیں کرتے کرتے چار پانچ سال ہوگئے تھے، لائیو ٹیلی کاسٹ کے ذریعے براہِ راست عام آدمی کے در پر ہے۔اگر اس پر بھی ہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے شُکر گزار نہیں، تو کیا کہا جاسکتا ہے۔

حکومت کے لیے جہاں معیشت کی بحالی ایک بڑا چیلنج ہے، وہیں عوام کو اپنی پالیسیز پر اعتماد میں لینا بھی بے حد اہم ہے۔اِنھیں اب یہ کہہ کر کہ’’ یہ آزمائش کا وقت ہے، مصیبت کی گھڑی ہے، عوام قربانیاں دیں‘‘ مزید بہلانا یا بے وقوف بنانا ممکن نہیں۔یہ تو طے ہے کہ مُلک کو ترقّی کی شاہ راہ پر گام زن کرنا اور منہگائی سے نجات دلانا ہے، تو یہ معرکہ عوام ہی کے تعاون سے ہوگا، مگر حکومت کو سمت درست رکھنے میں پالیسی سازی اور عوام کی رہنمائی کرنی ہوگی۔

پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ترقیاتی منصوبوں، عوامی ریلیف اور نوجوانوں کو روزگار فراہمی پر کام شروع کردیا ہے۔ان کے کاموں پر تنقید ہورہی ہے اور ہونی بھی چاہیے تاکہ سمت درست رہے، لیکن انہیں کام کرنے دینا چاہیے، یہ نہیں کہ آج ہی حساب کتاب شروع کردیں۔پہلے ہی پنجاب میں، جو مُلک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور ترقّی کی مثال بن رہا تھا، چھے سال ضائع ہوئے۔

نواز شریف کے جانے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے وہاں انتظامیہ کو مفلوج کیے رکھا۔پھر عمران حکومت میں بزدار جیسے’’ نابغۂ روزگار‘‘ شخص کو صوبے کا چیف منسٹر بنا کر ترقّی اور انتظامی امور کو اِس طرح ریورس گیئر میں ڈالا گیا کہ خود پی ٹی آئی کی ٹاپ سیاسی لیڈر شپ چِلّا اُٹھی۔بعدازاں، اسمبلی توڑنے کا کھیل شروع ہوگیا، جس کے دَوران ڈیڑھ سال تک کوئی کام نہیں ہوا۔

دُکھ ہوتا ہے کہ کئی جج صاحبان نے اس میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر اپنے فیصلوں اور روز روز کی آبزرویشنز سے انتشار پسندوں کی معاونت کی۔ جب ہم فوج کے لیے کہتے ہیں کہ اُسے اپنا کام کرنا چاہیے اور سِول حکومت کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے، تو یہی بات اعلیٰ عدلیہ پر بھی صادق آتی ہے۔

دنیا بَھر میں دیکھ لیں، عوامی حکومتوں کو چاہے، وہ جیسی بھی ہوں، کام کرنےسے نہیں روکا جاتا اور اگر روکا جاتا ہے، پھر تو حشر بھی برازیل اور تھائی لینڈ جیسا ہوتا ہے، جو رواں صدی کے شروع میں دنیا کے لیے ترقّی کی مثال بنے اور دخل اندازیوں کے بعد افراتفری اور معاشی بدحالی کا نمونہ بن گئے۔ 

بڑی مشکل سے پندرہ سال بعد اب کہیں جاکر اُن کی سمت درست ہوئی ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں اور اداروں کو بھی، چاہے وہ سرکاری ہوں یا پیشہ ورانہ، اپنی حدود میں رہنا ہوگا۔ جوآج ہے، وہ کل نہیں ہوگا، لیکن عوام پھر بھی یہیں ہوں گے اور مُلک بھی موجود رہے گا۔نیز، اگر عوام نے اِس نازک موقعے پر اپنی ذمّے داری نہ نبھائی اور ہوش کے ناخن نہ لیے، تو پِھر کہنے سُننے کو کچھ نہیں بچے گا۔