نبی آخرالزماں، حضرت محمدﷺ سے متعلق یہودیوں کی خوش فہمیاں: رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے حوالے سے تمام تر معلومات توریت میں بتا دی گئی تھیں۔ یہاں تک کہ حجازِمقدس کے اس سرسبز و شاداب خطّے کی بھی نشان دہی فرما دی گئی تھی، جہاں سے طلوع ہونے والے آفتاب کی شعائیں پوری کائنات کو روشن و منور کرنے والی تھیں۔ اوریہ بھی کہ نبی آخرالزماں ﷺ کے پیروکار نہ صرف پوری دنیا پر حُکم رانی کریں گے، بلکہ جنّت کے اصل حق دار بھی یہی لوگ ہوں گے۔
چناں چہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ نبئ محترم ﷺ پر ایمان لائیں اور اُن کی پیروی کریں۔ ویسے تو یہودی علماء نے توریت میں اپنی مرضی و منشا اور خواہش کے مطابق بہت سی تبدیلیاں کر دی تھیں، لیکن نبی آخرالزماں ﷺ کے ظہور پذیر ہونے کی پیش گوئی کو جُوں کا تُوں رہنے دیا تھا۔ پورے حجاز میں ’’یثرب‘‘ ہی وہ سرسبز و شاداب خطّہ تھا، جو توریت کی بیان کردہ شہرِ نبیؐ کی صفات پر پورا اُترتا تھا، جب کہ یہودی اس خوش خیالی اور احساسِ برتری میں مبتلا تھے کہ آنے والے نبی محترم ﷺ کا تعلق بھی ’’بنی اسرائیل‘‘ سے ہوگا۔
وہ جانتے تھے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد بنی اسماعیلؑ میں نبوّت کا سلسلہ آگے نہ بڑھا اور اُن کے بعد جتنے بھی انبیاء و رُسل آئے، اُن سب کا تعلق اولادِ یعقوبؑ یعنی بنی اسرائیل سے تھا۔ یہی وہ خاص وجہ تھی، جس کی بِنا پر بڑی تعداد میں یہودی مختلف ادوار میں شہرِ یثرب اور اس کے قُرب و جوار میں رہائش پذیر ہوگئے۔ یہ لوگ560برس سے نبی آخری الزماں ﷺ کی آمد کے منتظر تھے۔
یثرب کے یہودیوں کی خوش فہمی کا یہ عالم تھا کہ اُن کی جب بھی کسی قبیلے سے لڑائی ہوتی، تو شکست کھانے کے بعد کہتے کہ تم لوگ کچھ دن اور عیش کرلو، جب ہمارے نبیؐ ظہور پذیر ہوجائیں گے، تو ہم تم سب سے چُن چُن کر بدلہ لیں گے اور پھر جزائرِ عرب سمیت پوری دنیا پر ہماری حکومت ہوگی۔
یہ لوگ دُعا کیا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ! نبی آخر الزماںﷺ کا ظہور جلدی ہو تاکہ اُن کے واسطے اور اُن کے صدقے ہمیں دنیا میں فتح مل سکے۔‘‘ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد بنی اسماعیلؑ میں نبوّت کا سلسلہ منقطع رہا، یہاں تک کہ تقریباً تین ہزار سال بعد محمدِ عربی ﷺ کی بعثت ہوئی۔ آپؐ کی بعثت کے بعد امامۃ النّاس، سابقہ امّت یعنی بنی اسرائیل سے موجودہ امّتِ مسلمہ یعنی امّتِ محمدی ﷺ کو منتقل ہوگئی۔
متکبّر قوم، بنی اسرائیل جس احساسِ برتری کا شکار تھی، اس کی رُو سے وہ بنی اسماعیلؑ کو حقیر سمجھتی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ تو جاہل قوم ہے، جس کے پاس نہ کتاب ہے، نہ شریعت، نہ قانون، نہ ضابط، پھر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک شخص کو کیسے چُن لیا؟ ضرور یہ سب جبرائیلؑ کی شرارت ہے، جو وحی لے کر محمد عربی ﷺ کے پاس چلے گئے، لہٰذا وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنا دشمن تصوّر کرتے تھے۔(بیان القرآن 1/200)۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرائیلؑ اور میکائیلؑ کا دشمن ہو، تو ایسے کافروں کا اللہ دشمن ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، 98)۔
یہودِ مدینہ کے نمایاں خدوخال: سرزمینِ حجاز کے اس خطّے میں یثرب سے شام تک تمام سرسبز و شاداب بستیوں میں یہودی آباد تھے۔ خیبر، فدک، تبوک، تیما، مدین، وادی القریٰ اور حجر وغیرہ میں اُن کی بستیاں تھیں، جب کہ تجارت، مہاجنی، زرگری، لین دین اور سودی کاروباراُن کے اہم پیشے تھے۔ یثرب میں انہوں نے ’’بیت المدارس‘‘ کے نام سے توریت کی تعلیم کے لیے درس گاہیں بنائی تھیں۔ یثرب میں مقیم یہودی، صاحبِ ثروت اور صاحبِ اقتدار تھے۔ پُرشکوہ اور مستحکم قلعوں میں مقیم شاہانہ جاہ و جلال کے مالک ان لوگوں کو مال و دولت کی فراوانی نے درندہ صفت بنا دیا تھا۔
عربیت کا رنگ اختیار کرنا: زبان، لباس، تہذیب و تمدّن سمیت انہوں نے ہر لحاظ سے پوری طرح عربیت کا رنگ اختیار کرلیا تھا۔ 12یہودی قبائل حجاز میں آباد ہوئے تھے۔ جن میں سے ’’بنی زعورا‘‘ کے سوا باقی سب قبیلے عبرانی زبان سے نابلد تھے۔ ان سب کے نام تک عربی میں تھے۔ اُن کے اور عربوں کے درمیان شادی بیاہ کے تعلقات قائم ہوچکے تھے اور اُن میں اور عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا، لیکن اتنی مماثلت کے باوجود بھی یہودی عصبیت اُن میں کُوٹ کُوٹ کر بَھری ہوئی تھی، البتہ عربیت کا رنگ اختیار کرنا اُن کی مجبوری تھی کہ انہیں بہرحال عرب میں رہنا ہے۔
یہودی عصبیت کی شدّت: یہودیت کے شدید تعصّب اور نسلی فخر و غرور کا یہ عالم تھا کہ وہ سردارانِ عرب کے سوا عام عربوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے اور انہیں ’’اُمّی‘‘ کہتے، جس کے معنی اَن پڑھ کے نہیں، بلکہ وحشی اور جاہل کے کرتے۔ چناں چہ یثرب میں مقیم یہودیوں کے تمام تر تعلقات سردارانِ عرب اور صاحبِ حیثیت افراد ہی کے ساتھ تھے۔ دوسری طرف یہودی علماء نے جادو، ٹونے، سحر، نظر بندی، فال گیری اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار بھی خوب چمکا رکھا تھا، جس کی وجہ سے عربوں میں ان کے علم وعمل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔
سُودی کاروبار اور مضبوط معیشت: یہودی علماء جادو گری کے ذریعے دولت کمارہے تھے، جب کہ عام یہودی، عرب کی پوری معیشت پر قابض تھے۔ ویسے تو پارچہ بافی، ماہی گیری، مرغ بانی اور درآمد و برآمد پر اُن کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اُن کا سب سے بڑا کاروبار سُود خوری تھا، جس نے عرب قبائل کے شیوخ، سرداروں سمیت پوری عرب آبادی کو اپنے جال میں پھانس رکھا تھا۔
سُود در سُود کے اس پھندے نے عربوں کی معاشی حیثیت کھوکھلی کرکے رکھ دی تھی۔ رہی سہی کسر جگہ جگہ قائم ان کے مئے خانوں نے پوری کردی، جہاں شام سے درآمد شدہ شراب کے علاوہ عیش و عشرت کے تمام لوازمات بھی دست یاب ہوتے تھے اور ان کے حصول کے لیے بڑی فراخ دلی کے ساتھ سُود کی رقم فراہم کی جاتی تھی۔
منافقت پر مبنی دوغلی پالیسی: دوغلی پالیسی اور منافقت کے علَم بردار، یہودیوں کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ یہ نہ توکسی سے تعلقات میں بگاڑ پیدا کریں، نہ اُن کی باہمی لڑائیوں میں حصّہ لیں، لیکن پسِ پردہ ان قبائل کو آپس میں لڑواتے رہیں، تاکہ عرب قبائل آپس میں متحد نہ ہوسکیں۔ قبیلہ بنی اوس اور بنی خزرج کے درمیان بعاث کے مقام پر خوں ریز جنگ ان یہودیوں ہی کی سازش کا نتیجہ تھی۔ (سیرت سرورعالم، جلد سوم، صفحہ 7374)
نبی آخرالزّماںﷺ کی جلد آمد کی دعائیں: یثرب میں یہودیوں کے تین مشہور قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ آباد تھے، جب کہ انصار میں سےاوس اور خزرج کے قبائل یمن سے آکر یہاں آباد ہوگئے تھے اور یہی اصل عرب قبائل تھے۔ خزرج اور اوس کے قبائل نے یہودیوں کے منہ سے نبی آخرالزماں ﷺ کے جلد آنے کی دُعائیں سُن رکھی تھیں اور وہ یہودیوں کی زبان سے آخری نبیؐ کی آمد کی پیش گوئیاں بھی سُن چکے تھے۔
چناں چہ 11نبوی کے حج کے موقعے پر جب رسول اللہ ﷺ نے خزرج کے چھے افراد کو دعوتِ دین پیش کی، تو انہوں نے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا کہ یہ تو وہی نبی ؐ ہیں، جن کے آنے سے یہودی ہمیں ڈراتے ہیں، لہٰذا اس سے پہلے کہ یہودی ان پر ایمان لائیں، کیوں نہ ہم ایمان لاکر ان پر بازی لے جائیں۔ چناں چہ وہ ایمان لے آئے، مگر وہی یہودی جو آنے والے نبیؐ کے انتظار میں گھڑیاں گِن رہے تھے۔ اپنے تعصّب اور تکبّر کی وجہ سے سب سے بڑے دشمن بن گئے۔
میثاقِ مدینہ، یہودیوں کے گلے کا پھندا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو اسلامی ریاست کے قیام کے فوری بعد آپؐ نے جو اوّلین کام کیے، ان میں ایک تو اوس، خزرج اور مہاجرین کے درمیان مواخات قائم کی، دوسرا یہ کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ کیا، جو تاریخ میں ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے محفوظ ہے۔
بنی اسرائیل کی تاریخ گواہ ہے کہ یہودی ایک بزدل، منافق اور سازشی قوم ہے۔ چناں چہ انہوں نے معاہدہ تو کرلیا، لیکن جلد ہی یہ احساس بھی ہوگیا کہ یہ معاہدہ ان کے تمام ناجائز اور غیرقانونی کاموں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ سودی کاروبار سمیت تمام لین دین کے ناجائز طریقوں کی بندش، شراب کی درآمد میں رکاوٹوں کے باعث مَے خانوں کا اُجڑ جانا۔
جادو ٹونے اور سحر کے خلاف مزاحمت، ناپاک کمائی اور حرام خوری کے ذریعے حاصل شدہ رقم کو قانوناً ممنوع قرار دینا، اسلامی ریاست کے وہ اقدامات تھے، جن میں یہودیوں کو اپنی معاشی، مالیاتی اور سماجی موت نظر آنے لگی تھی۔ پھرانصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارے کی فضا نے یہودیوں کی ’’لڑائو اور تماشا دیکھو‘‘ کی پالیسی کو بھی بے اثر کردیا تھا۔
یہودی تو پہلے ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتے تھے، لیکن میثاقِ مدینہ کے بعد جو حالات پیدا ہورہے تھے، وہ عیش و عشرت کی حامل، ان کی شاطرانہ طرزِ حیات کے برخلاف تھے، لیکن اس معاہدے کی تمام شرائط یہودیوں نے قبول کیں۔ دراصل وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسے رئیسِ قوم کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے، جو صرف اور صرف اپنے گروہ کے مفاد سے سروکار رکھیں اور یہود کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی، یہودیوں کا قومی نصب العین: یثرب کے یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنالیا۔ یہ لوگ آپؐ کو زک دینے، نقصان پہنچانے کے لیے ہرطرح کی چالیں، تدابیر اور ہتھکنڈے استعمال کرتے۔ آپؐ کے اور اسلام کے خلاف جھوٹی، مَن گھڑت باتیں پھیلاتے۔ شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تاکہ لوگ دین سے برگشتہ ہوجائیں۔
فتنے برپا کرنے کے لیے منافقین سے سازباز کرتے، اُن کی پشت پناہی کرتے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کتابِ الٰہی کے خلاف یہودیوں کی دشمنی، اُن کا بغض، اُن کی نفرت اور اُن کی معاندانہ روش کس درجے کی تھی، اس کا نقشہ مدنی زندگی کے آغاز میں نازل ہونے والی سورتوں میں وضاحت کے ساتھ کھینچا گیا ہے۔
سورۃ البقرہ کی آیات76 تا 121میں یہودیوں اور ان کے مذہبی پیشوائوں کے اللہ کے نبیؐ، کلامِ الٰہی، نبیؐ کی تعلیمات اور دینِ اسلام کے ساتھ برتائو اور ان کی انتہا درجے کی دینی اور اخلاقی پستی پر تبصرہ کیا گیا ہے اور یہ آج کے اسرائیل کے ہم درد مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے بھی کافی ہے۔ بشرطیکہ اسے سمجھ کر پڑھیں۔
یہودیوں کی اسلام دشمنی کا ایک واقعہ: امّ المومنین حضرت صفیہؓ کے والد حئی بن اخطب اور چچا ابو یاسر مشہور یہودی قبیلے، بنو نضیر کے سرداراور مذہبی عالم تھے۔ اُن کا تعلق حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے تھا، کیوں کہ یہ نبی کی اولاد میں سے تھے، لہٰذا اس تعلق سے تمام یہودی ان کی بڑی عزّت کرتے تھے، بلکہ یہودی علماء ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ حضرت صفیہؓ کی والدہ یہودی قبیلے بنو قریظہ کے رئیس کی بیٹی تھیں۔
چناں چہ حضرت صفیہؓ نجیب الطرفین اور نام وَر و اعلیٰ یہودی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ غزوئہ خیبر کے دوران حضرت صفیہؓ کے شوہر، والد، بھائیوں سمیت خاندان کے تمام افراد مارے گئے تھے۔ امّ المومنینؓ حضرت صفیہؓ کے حوالے سے امام بیہقیؒ نے یہودیوں کی اسلام دشمنی کا ایک واقعہ تحریر کیا ہے۔ حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، تو میرے والد اور چچا اپنی مقدّس کتاب توریت میں موجود پیش گوئی کی تحقیق کی غرض سے مدینہ آئے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے طویل گفتگو کی۔
حضرت صفیہؓ کہتی ہیں کہ جب یہ دونوں واپس آئے، تو مَیں نے دیکھا کہ یہ بڑے اداس، پریشان اور متّفکر ہیں، مجھے ان دونوں کی ظاہری حالت دیکھ کر تجسّس ہوا اور مَیں نے کمرے کے دروازے سے کان لگاکر اُن کی باتیں سنیں، جو اس طرح تھیں۔ چچا میرے والد سے کہتے ہیں… ’’کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ وہی نبی ہیں کہ جن کے آنے کی خبر اور تفصیل ہماری مقدس کتابوں میں موجود ہے؟‘‘ والد کہتے ہیں، ’’ہاں، ابو یاسر! مَیں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ وہی نبی ہیں۔‘‘
جواب سن کر چچا کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، خوف زدہ لہجے میں تصدیق کے لیے دوبارہ پوچھتے ہیں۔ ’’بھائی صاحب! کیا آپ کو یقین ہے؟‘‘ والد صاحب شکست خوردہ لہجے میں جواب دیتے ہیں، ’’ہاں! مجھے کامل یقین ہے کہ یہی وہ نبی ہیں۔‘‘ چچا نے دریافت کیا،’’تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ والد نے اپنے اندر کا خوف چھپاتے ہوئے زوردار آواز میں جواب دیا۔’’بہ خدا! جب تک میں زندہ ہوں ان (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کروں گا اور ان کی نہ چلنے دوں گا۔‘‘
حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں کہ ’’ان دونوں کی باتیں سن کر مجھے یقین ہوگیا تھا کہ توریت میں جس نبیؐ کے آنے کا ذکر ہے، وہ نبیؐ آچکے ہیں اور اب اسلام کو دنیا میں پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مَیں والد اور چچا کے احترام میں خاموش رہی، لیکن اسلام اور اللہ کے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں میرا تجسّس مزید بڑھ گیا۔‘‘ یہی وہ مقدس لمحہ تھا کہ جب نیک فطرت حضرت صفیہؓ کے دل میں اسلام کی پہلی شمع روشن ہوئی۔ (سیرت ابن ہشام 165/2)۔ (جاری ہے)