کون سا سیاسی نظریہ اچھا تھا اور کون سا بُرا یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن ستر کی دہائی میں ایک تقسیم وجود میں آئی تھی یہ سب جانتے ہیں۔ اس تقسیم کے پیش منظر اور پس منظر کافی حد تک محتشم تھے، اپنی اپنی شان و شوکت تھی، مکالمہ تھا، ہنگامہ تھا ، کسی حد تک گالی بھی تھی اور الزام تراشی بھی۔ لالچ اور ہوس کے پھول کس سیاسی باغیچے میں نہیں اُگتے؟ کل بھی اُگتے تھے اور آج بھی نشوونما پاتے ہیں۔ اگر کہیں شان و شوکت کی ہلکی رمق ہو بھلے وہ خوابیدہ ہی ، کبھی نہ کبھی وہ کروٹ ضرور لیتی ہے، اور بیدار بھی ہوتی ہے!
’’کبھی نہ کبھی‘‘سے مجھے عرفان صدیقی (ن لیگ والےنہیں، لکھنؤ والے) کا ایک شعر یاد آگیا کہ:
ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی
ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے
لیکن جو تقسیم عہد حاضر میں ایک زبردستی والی تقسیم ہے ، کیا اسکے تقسیم کاروں کو اتنی زیست ملے گی کہ وہ خود سے جاگیں ؟ کہاں ایک وہ فیض ہوا کرتے تھے جو فیض در فیض تھے کہاں آج کے تقسیم کار فیض جو جرنیلی سمیت قصہ پارینہ ہو گئے مگر ان کی تقسیم کے کانٹے ہیں بہت زرخیز جنہیں چنتے چنتے عمران خان کی بھی عمر بیت جائے گی اور تلوے ہمارے بھی لہو لہان رہیں گے۔ جانے والے تو چلے گئے اب کف پا جانے یا کانٹے جانیں۔ ویسے شاہد خاقان عباسی کے صدقے جائیں کہ انہیں ان’’فیض‘‘صاحب سے کوئی شکایت نہیں رہی کیونکہ عباسی صاحب نے پچھلے دنوں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’میں نے نہیں دیکھا کہ جنرل ( ر ) باجوہ اور فیض حمید نے آئین توڑا ہو۔‘‘ کہتے تو ٹھیک ہیں آئین ٹوٹتا کب ہے، توڑنے والے ہی قومی ڈالی سے مرجھا کر گر پڑتے ہیں۔ آئین تو زندہ دستاویز ہے جو چمن کو سر سبز و شاداب رکھنے میں مگن رہتی ہے۔ خیر بقول آغا شاعر قزلباش: پامال کر کے پوچھتے ہیں کس ادا سے وہ / اس دل میں آگ تھی مرے تلوے جھلس گئے۔
راوی کہتا ہے، جب محترمہ واپس آئی تھیں تو وہ بے نظیر بھٹو، قلندر تھیں۔ آنے سے قبل کا ان کا میثاقِ جمہوریت کی تراش بھی ایک قلندرانہ عمل ہی تھا۔ اس میثاق میں میاں محمد نواز شریف بھی پیش پیش تھے۔ کم و بیش سولہ برس بعد میاں صاحب بھی بدلے بدلے لگے۔ چشم بینا کا کہنا ہے کہ میاں صاحب جب الیکشن 2024 سے قبل واپس آئے تو آمد سے قومی اسمبلی میں قدم رنجا فرمانے تک ان کی تن گفتاری بہت مختلف تھی۔ زبان بدن کہیں سے بھی خالی برتن کے مصداق نہ لگی، بلکہ معاملہ’’بھرے برتن‘‘سا تھا۔ تاریخ گواہ ہے بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف سیاست اور جمہوریت کے دریا کے دوسرے کنارے تھے، اسی اور نوے کی دہائیاں ان کے کسی میثاق کا تصور بھی نہ رکھتی تھیں۔ ’’ضیائی تالیف‘‘کے فیض یاب ہونے والوں اور بھٹو کے خانوادے نے حالات و واقعات سے بہت کچھ سیکھا، جس کا غیر سنجیدہ طبقہ حد درجہ مذاق اڑاتا ہے اور خود نو مئی کی ’’دو چَھمکوں‘‘کی مار نہ برداشت کر سکے جو ماضی کے حالات کی مار کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے
کسے معلوم تھا ڈیجیٹل زمانے کی کمیونیکیشن کی سائنس پر پوسٹ ٹرُتھ اور گیس لائٹنگ کی سائنس غالب آ جائے گی۔ اور یہ عالمی سطح پر خطرناک ہو چکا ہے صرف یہاں ہی’’خطرے ناک‘‘ نہیں۔ تبدیلی کا دعویٰ کوئی کرتا رہا ، اور تبدیلی یہ ہے کہ آج مفاہمت والا مردِ حُر صدر ہے اور نواز والا وزیراعظم۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حصولِ اقتدار کا نظریہ ضرورت نہیں ؟ جواب یہ کہ عمران خان کہاں کعبے کے متولی لا رہا تھا یا حصولِ اقتدار کیلئے سول نافرمانی کی شاہراہ تک گامزن نہیں ہوا۔ یو ٹرن چھوڑ دئیے کیا؟ مانا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے کرپشن ترک نہیں کی تھی مگر یہ اکبر اور وہ فرح کیا چپے چپے پر تہجد کے سجدوں میں جھکے رہے ؟
اصل بات تو یہ ہے کہ ڈار صاحب سے وزارتِ خارجہ تک رشتہ داری نبھانا سیاست اور جمہوریت ہیں نہ عمران خان تک دشمنی نبھانا ہی ریاستی خدمت ہے۔ ایوان صدر میں اگر مفاہمتی سرکار ہے تو پارلیمان میں نواز شریف جلوہ افروز ہیں، ایوان بالا کی سربراہی اس یوسف رضا گیلانی کی دسترس میں جو پیر پگاڑا کی رشتہ داری اور جونیجو کابینہ سے ہوکر مسلم لیگ کی شاہراہ پر چلتے چلتے پیپلزپارٹی کی گاڑی سے منزلوں تک پہنچے ، مطلب ان کی اسی دشت کی سیاحی میں گزری ،سو عوام ہی کا نہیں ان سب کامرانیوں کا تقاضا ہے جمہوریت کو تقویت، انصاف کو اہمیت اور ریاست کو سالمیت ملنا ۔ ریاستی و حکومتی و شخصی ارتقاء کا ثمر اب نہیں تو کب؟
راقم نے 22جنوری 2023میں’’نواز شریف اقتدار میں آ رہا ہے یا حصار میں؟‘‘ اپنے جنگ کالم میں جو لکھا سو لکھا تاہم نتیجہ یہ اخذ کیا کہ’’ کچھ بھی ہو لیڈر وہی ہوتا ہے جو سیاسی میدان میں بیک وقت ذہنی اور طبعی طور پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے بند گلی سے راستہ بنائے! ‘‘ گویا آصف زرداری کو اپنی صدارت اور نواز شریف کو اپنی امارت کا ہر قیمت پر ریاست کو ثبوت فراہم کرنا ہے۔ مریم نواز کو لانچ ہی نہیں کرنا بلکہ آدھے سے زیادہ پاکستان کا حکمران بنوانا اپنی جگہ معنی خیز ہے اگر یہ سب نتیجہ خیز نہ ہوا تو کیا سیکھا اور کیا پایا ؟ یہ آئی ایم ایف کے بہانے نہیں چلیں گے سب ’خوشی دیاں ونگاں نیں‘ جو پہنی گئی ہیں۔
الیکشن کے بعد ایک پولیس آفیسر دوست نے پوچھا وزیراعظم کون، تو ہم نے کہا شہباز شریف۔ وہ نہ مانے، بلکہ کہا ہماری ’’رپورٹس‘‘کے مطابق نوازشریف.... ہم نے کہا وہ پارلیمان چلائے گا اور شہباز شریف حکومت حالانکہ ہمارے پاس تو رپورٹس بھی نہ تھیں۔ ہمارا نواز شریف کے حوالے سے حسنِ ظن اب ایک میثاقِ معیشت کا متمنی ہے اور ججوں کی تقرریوں کے حوالے سے شفاف اور انصاف والا میثاق بھی درکار ہے، اس کارِ خیر میں عمران خان حصہ ڈالیں، اور اپنے آپ میں تبدیلی بھی لائیں کہ گلشن کا کاروبار چلے۔