• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں دو صوبے ایسے ہیں جہاں کا تعلیمی نظام ہمیشہ بہتر سے بہتر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ خیبر پختون خوا کا تعلیمی نظام عمران خان کی آمد سے قبل اگر بہتر نہیں ہورہا تھا تو بدتر بھی نہیں تھا اور پھر تحریک انصاف وہاں حکومت میں آئی تو لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہوگئے، استاد بنی گالہ کے باہر دھرنے دیتے ہوئے پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے اور دوسری طرف پنجاب جہاں کے تعلیمی نظام کی پورا ملک تعریف کرتا تھا وہاں بھی بزدار حکومت کے آنے کے بعد تعلیمی اداروں کی تباہی کا حال احوال اکثر اخبارات کی زینت بنتارہا۔ پنجاب کے تعلیمی نظام میں گزشتہ کچھ برسوں میں ایسے ایسے اسکینڈلز دیکھنے کو ملے کو دل دہل جائے۔ وہاں کے تعلیمی نظام کی جو حالت ہے اس پر نہ کوئی میڈیا بات کرنے کو تیار ہے نہ کوئی اخبار۔ سندھ کے اسکول تو با آسانی نظر آجاتے ہیں لیکن پنجاب کے اسکول اور انکی بوسیدہ عمارتیں نہ جانے ہمارے میڈیا سے کیوں اوجھل رہتی ہیں مگر بات صرف عمارتوں کی نہیں پورے کا پورا تعلیمی نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور اسے یہاں تک پہنچانے میں عمران خان سرکار کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ جس طرح صحت کارڈ سے انھوں نے سرکاری ہسپتال تباہ کیے اسی طرح بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا کر یہاں کےتعلیمی نظام کے ساتھ جو کیا اس کی بھی کوئی مثال نہیں۔ کچھ روز قبل پنجاب کے وزیر اسکول تعلیم نے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن (BISE) لاہور کے زیراہتمام جاری کلاس نہم کے سالانہ امتحانات کے بارے میں چونکا دینے والے اسکینڈل کا انکشاف کیا ہے۔ پنجاب کے وزیر نے مبینہ طور یہ انکشاف کیا کہ لاہور بورڈ کے بعض عناصر امتحانی مراکز کو80000روپے میں فروخت کرتے ہیں جب کہ فی پیپر ریٹ 4000سے 7000 روپے کے درمیان ہوتا ہے۔ مزید برآں، وزیر نے انکشاف کیا، ایسے افراد جنہوں نے IX یا X گریڈ کے امتحانات بھی پاس نہیں کیے تھے، مختلف امتحانی مراکز میں سپروائزرکی ڈیوٹی کرتے ہوئے پائے گئے۔ پنجاب ٹیچرز یونین نے بھی بورڈ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے سرکاری اساتذہ کی کمی کو غلط بیان کیا اور پرائیویٹ افراد کو بطور سپروائزر مقرر کیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میٹرک پاس یا اس سے کم تعلیم یافتہ افراد امتحانات میں پرچوں کے دوران نگرانی کی ڈیوٹی دیں؟ امتحانات، یقیناً، طالب علم کی تعلیم کا اندازہ لگانے کے لیے ہوتے ہیں۔ نتائج، خاص طور پر میٹرک کی سطح پر، بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلہ ان امتحانات میں حاصل کردہ نمبروں پر منحصر ہوتا ہے۔ موجودہ مثال میں غیر منصفانہ ذرائع کا استعمال ایماندار، محنتی طلباء کو نقصان میں ڈالتا ہے، تشخیص کے عمل کو بے ترتیب بنا دیتا ہے اور اس وجہ سے قابل اور ہونہار بچے اچھے نمبر لینے کے باوجود نالائق بچوں سے مقابلہ کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کا تعلیمی معیار پہلے ہی تسلی بخش نہیں اور جہاں تھوڑا بہت بہتر تھا اب وزیر موصوف کے اس بیان کے بعد وہاں بھی تباہی ہی تباہی نظر آرہی ہے۔

یہ صرف پنجاب کے ایک بورڈ کا حال ہے ذرا سوچیں باقی بورڈز کا کیا حال ہوگا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایسا انکشاف سندھ میں ہوا ہوتا تو میڈیا اینکرز کئی دنوں تک لائیو پروگرام کر کے پی پی پی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے۔مگر ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت نے نوٹس لیا ہے اور اس مافیا کے گردگھیرا تنگ کرنے کی کوشش میں ہے، مگر اس میں ملوث لوگ ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے ؟۔یاد رہےکہ اس غیر اخلاقی اور مجرمانہ عمل میں ملوث اہلکاروں کو معطل کرنا کافی نہیں ہوگا۔ ایسے معاملات میں معمول کا طریقہ کار یہ ہے کہ ملوث اہلکاروں کو دوسری جگہ پوسٹ کر دیا جاتا ہے جہاں وہ ذاتی فائدے کے لیے بے ایمانی کرتے رہیں حالانکہ کوئی بھی سرکاری اہلکار کسی بھی قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا جائے تو اسے کم ازکم اتنی سزا ضرور ملنی چاہئے کہ اس کی نوکری ختم کر دی جائے۔ اگر طلبہ و طالبات بھی نقل یا اس قسم کے دھندے میں ملوث ہیں تو انھیں بھی گرفت میں لانا ہوگا۔تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا چاہئے اور امتحانات کا ایسا طریقہ متعارف کروانا چاہیے جس سے نقل کرنا ناممکن ہوجائے اور تعلیمی بورڈز کی نگرانی بھی ہوسکے کہ وہ غیر قانونی کام نہ کریں ۔ چاروں صوبے بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو چاہیے کہ امتحانات کا ایسا شفاف نظام متعارف کروائیں جس سے طلبہ و طالبات میںرٹا لگانا ختم ہواور بچوں میں محنت اور لگن سے امتحانات پاس کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ امید ہے چاروں صوبے فی الفور موجودہ امتحانات کے سلسلے کو ترک کر کے جدید اور سائنسی بنیادوں پر طالب علموں کی سالانہ کارکردگی جانچے کے لیے ایک ایسا نظام متعارف کروائیں گے جس سے تعلیم دشمن مافیا کی حوصلہ شکنی ہونے کے ساتھ ساتھ نقل کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے۔

تازہ ترین