دکانوں اور اسٹورز پر ایسی بہت سی غذائیں نظر آتی ہیں جو بظاہر صحت مند لگتی ہیں لیکن بچوں کو ان سے دور ہی رکھنا چاہیے۔
آدھے پکے ہوئے یا پھلوں کے جوس یا پھر فلیور والے دودھ اور دہی کو بچوں کے لیےاچھا اور صحت مند سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ بچوں کے لیے سب سے زیادہ خطرہ بن سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ چیزیں اور ان کی پیکجنگ دیکھنے میں بہت اچھی اور اس کے اندر موجود چیز بچوں کی صحت کے لیے اچھی نظر تو آتی ہے لیکن مصنوعی رنگ، کیمیکل اور مٹھاس کی وجہ سے یہ بچوں کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق ان چیزوں کے استعال سے آگے چل کر بچوں میں موٹاپے اور ذیابیطس سمیت دیگر بیماریوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
بچوں کے ناشتے کے سیریلز یا دلیہ وغیرہ کی پیکجنگ بہت ہی رنگین اور ڈیزائن والی ہوتی ہے جو بچوں اور والدین دونوں کو ہی اپنی طرف خریداری کے لیے کھینچتی ہے۔
ماہرین کے مطابق تو اگلی بار جب آپ کا بچہ آپ سے اسے خریدنے کے لیے کہے تو احتیاط سے لیبل پڑھ کر اس پراڈکٹ کا انتخاب کریں جس میں چینی کی مقدار کم اور دیگر غذائی اجناس کی تعداد زیادہ ہو۔
دہی بچوں کے لیے بہت مفید ہوتی ہے لیکن بچہ اگر اسے نہ کھائے یا پسند نہ کرے تو والدین دیگر طریقوں کے ذریعے اسے بچے کے پیٹ میں پہنچانے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔
ایسے میں مارکیٹ میں کئی فلیور والی دہی موجود ہیں جنہیں بچے بھی مٹھاس، رنگ اور ذائقے کی وجہ سے پسند کرتے ہیں لیکن اس میں موجود چینی اور رنگ کی بہت زیادہ مقدار خطرناک ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق سادہ دہی اور تازہ پھل اور معمولی ذائقے کے لیے تھوڑی سی چینی بازار میں ملنے والی فلیورڈ دہی کا بہترین نعم البدل ہے۔
بازاروں اور دکانوں میں پیکٹ میں ملنے والے پھلوں کے جوس میں بھی چینی کی پوشیدہ مقدار موجود ہوتی ہے۔
بظاہر یہ ایک صحت بخش مشروب ہے۔ ڈاکٹر کھنہ کا کہنا ہے کہ قدرتی طور پر پائی جانے والی شکر، یہاں تک کہ 100 فیصد پھلوں کے رس میں بھی، اگر زیادہ مقدار میں استعمال کی جائے تو اس کے زیادہ استعمال کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بسکٹس اور چاکلیٹس سمیت دیگر چیزوں میں بھی چینی، کیمیکلز اور مصنوعی رنگوں کی زیادہ مقدار بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے ہی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
اس لیے کھانے پینے کی چیزوں کی خریداری کے وقت اس پر موجود لیبل کو غور سے پڑھنا چاہیے اور ایسی چیزوں کا انتخاب کرنا چاہیے جن میں چینی کی مقدار کم اور قدرتی اجزا زیادہ شامل ہوں۔