• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں انسانی جینیاتی کوڈ بنانے کا انقلابی منصوبہ

—تصویر بشکریہ غیر ملکی میڈیا
—تصویر بشکریہ غیر ملکی میڈیا

برطانوی سائنسدانوں نے ایک نیا، پُرامید اور انقلابی منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت وہ انسانی ڈی این اے کو لیبارٹری میں مصنوعی طریقے سے تیار کریں گے تاکہ جینیاتی کوڈ کو بہتر سمجھا جا سکے اور مستقبل کی بیماریوں کا علاج دریافت کیا جا سکے۔

پروجیکٹ کا نام سینتھیٹک ہیومن جینیوم ہے، اس 5 سالہ منصوبے میں ماہرین طویل جینیاتی کوڈز لیبارٹری میں تیار کریں گے اور انہیں زندہ خلیوں میں داخل کر کے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ انسانی جینز اصل میں کس طرح کام کرتے ہیں۔

ماہرین کو امید ہے کہ اس تحقیق سے ایسی خلیاتی تھراپی ممکن ہو سکے گی جو وائرس یا مدافعتی نظام کے حملے سے محفوظ خلیے بنا سکے گی اور خودکار مدافعتی بیماریوں (Autoimmune diseases) یا لمبے عرصے سے جگر کی خرابی میں مبتلا مریضوں کے لیے علاج ممکن بنایا جا سکے گا۔

پروجیکٹ کے سربراہ پروفیسر جیسن چِن (لیبارٹری آف مالیکیولر بایالوجی، کیمبرج) نے کہا ہے کہ انسانی جینیوم کو مصنوعی طور پر بنانے سے حاصل شدہ معلومات تقریباً ہر بیماری کے علاج میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

ڈی این اے پڑھنے میں مہارت ہے، مگر اسے لکھنا ابھی چیلنج ہے، انسانی جینیوم کو پڑھنے کی صلاحیت سائنسدانوں کے پاس دہائیوں سے ہے، مگر اسے لکھنے (synthesise کرنے) کی صلاحیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔

انسانی جینیوم میں 3 ارب سے زائد بیس پیئرز ہوتے ہیں، جب کہ پچھلے تجربے میں صرف 45 لاکھ بیس پیئرز پر مشتمل بیکٹیریا ای کولی کا جینیوم تیار کیا گیا تھا۔

اس منصوبے میں شامل اداروں میں یونیورسٹی آف کیمبرج، یونیورسٹی آف کینٹ، آکسفورڈ، مانچسٹر اور امپیریئل کالج شامل ہیں۔

’جینیاتی سیاہ مادے‘ (Genomic Dark Matter) کے ڈاکٹر جولیئن سیل جو منصوبے کا حصہ ہیں انہوں نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی جینوم صرف جینز کا مجموعہ نہیں، بلکہ اس کا بڑا حصہ وہ ہے جس کا ہمیں علم ہی نہیں، اسے ’سیاہ مادہ‘ بھی کہا جاتا ہے، جب تک ہم جینیوم بنانا نہیں سیکھیں گے، ہم اسے پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔

منصوبے کے ساتھ ساتھ الگ تحقیق سماجی و اخلاقی مسائل پر بھی ہو رہی ہے، جس کی سربراہی پروفیسر جوائے ژانگ (یونیورسٹی آف کینٹ) کر رہی ہیں۔

یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگرچہ علاج تیار ہونے میں وقت لگے گا، مگر ابھی سے ہمیں یہ بحث شروع کرنی ہو گی کہ ہم سائنس میں کیا قبول کرنا چاہتے ہیں اور کیا نہیں۔

صحت سے مزید
برطانیہ و یورپ سے مزید