’’اب کی بار چار سو پار‘‘کے نعروں میں نریندر مودی نے آسام کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ جذباتی اعلان کیا کہ پانچ صدیوں بعد آج رام کی جنم بھومی رام مندر (ایودھیا) میں رام کو سورج تلک لگ رہاہے تو جے رام کے نعروں سے پنڈال گونجا تو، لیکن اُس جذبے سے نہیں جب 6 دسمبر 1997 کو ایودھیا میں ہندو سیوکوں نے پانچ سو سال پرانی بابری مسجد کو ڈھایا تھا کہ وہ مبینہ طور پر رام مندر کو ڈھا کر بنائی گئی تھی۔ بھارت کی اٹھارویں لوک سبھا کے الیکشن کے 7 مرحلوں میں سے پہلے مرحلے کے اختتام پر اس بار 2019 کے انتخابات کے 69 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں صرف 63 فیصد ووٹ پڑے ہیں۔ 102 نشستوں پر ہوئے انتخابات میں اگر چھائی بھی تو ڈی ایم کے جو دراوڑی قوم پرستی اور ہندوتوا مخالف ایجنڈے پر تامل ناڈو کی 39 نشستوں پہ ایک آدھ کے سوا زیادہ تر نشستوں پر حاوی نظر آئی۔ مغربی بنگال کے کوچ بہار، کرناٹک اور مغربی یوپی اور راجستھان میں سخت مقابلے کے پیش نظر چار سو سے زائد نشستوں پر بھاجپا (BJP) کی کامیابی کے دعووں کو سخت دھچکا لگا ہے۔ پہلے مرحلے کے الیکشن سے ایک روز پہلے رام لیلا کے جشنوں کے باوجود ہندوتوا لہر زیادہ اثر انداز نہ ہو پائی۔ ایک سروے کے مطابق 70فیصد ہندوستانیوں کے خیال میں بھارت سب کا ہے فقط ہندوؤں کا نہیں! مودی اس بار اپنی گارنٹی کے زور پر تیسری بار وزیراعظم بننے تو جارہے ہیں، لیکن انکی گارنٹی سے ہوا نکالی بھی ہے تو چار دہائیوں کے مقابلے میں بڑھی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی نے جو بالاترتیب 27 فیصد اور 23 فیصد ہے۔ مودی کا بڑا ایڈوانٹج ہے بھی تو یہ کہ اُن کے مقابلے میں کوئی زیادہ موثر متبادل امیدوار نہیں ہے۔ جواہرلعل نہرو کے نواسے راہول گاندھی نے’’بھارت جوڑو یاترا‘‘میں ہزاروں کلومیٹر پیدل سفر تو کیا، لیکن انڈین نیشنل کانگریس کے تقریباً ساری ہندی بیلٹ یا شمالی ہندوستان سے اُکھڑے ہوئے قدم بحال نہ ہوسکے جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی جنوبی بھارت اور شمالی مشرقی ریاستوں میں گھسنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ راجیو گاندھی کے دور میں 400 سے اوپر نشستیں جیتنے والی کانگریس گزشتہ انتخابات میں 19 فیصد ووٹوں کے ساتھ 52 نشستوں پہ آن گری اور بی جے پی دو نشستوں والی جماعت چھلانگ مار کر 37 فیصد ووٹوں کے ساتھ 305 نشستوں کی جماعت بن گئی۔ بھارت میں گزشتہ ایک صدی سے زائد ہندوتوا کی تحریک نے بابری مسجد کے انہدام کے بعد جو زور پکڑا تھا وہ اب ٹھنڈا تو رہا ہے، لیکن اس ہندوتوائی فسطائیت کے سامنے کانگریس خود سافٹ ہندوتوا کا شکار ہوتی لگتی ہے۔ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی پر لسانی اور جاتی کی تقسیم کا الزام تو لگارہی ہے، مسلم دشمنی یا سیکولرازم سے انحراف کا طعنہ نہیں دے رہی۔ ستنترا دھرم کی بالادستی کو اگر کوئی چیلنج کررہا ہے تو وہ ہیں کمیونسٹ پارٹیاں، درواڑی قوم پرست، بنگالی قوم پرست یا پھر علاقائی جاتی واد پارٹیاں۔ کانگریس کو جے رام کے نعرے پہ تو اعتراض نہیں ہے، لیکن جے رام کے سیاسی کاروبار سے اجتناب کرتے ہوئے کانگریس بھی پوجا پاٹ میں لگی ہوئی ہے۔ البتہ کانگریس کا یہ الزام بجا ہے کہ بھارتی جمہوریت اور آئین کو مودی اور بھاجپا سے خطرہ ہے۔ گو کہ مودی نے کہا ہے کہ آئین کو تو اس کا مصنف ڈاکٹر اُمبیدکر بھی نہیں بدل سکتا لیکن لگتا ہے کہ رام راجیہ یعنی ہندوراشٹرا کی جانب بڑی پیشرفت ہوسکتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس کے سوائمکوں کے زبردست تنظیمی ڈھانچے اور ہندوتوا کی نظریاتی بنیاد پر ایک زبردست انتخابی و انتظامی مشینری کی حامل ہے۔ برہمنوں، اونچی جاتیوں، مڈل کلاس، بھارتی بورژوازی کے بڑے مالدار گروپ، میڈیا، عدالتیں و دیگر ریاستی ادارے اسکے زیر اثر ہیں۔ یہ اقلیتوں بشمول مسلمانوں کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے 80 فیصد ہندوؤں کے کٹر پسند عناصر پہ مکمل انحصار کرنے کے ساتھ ساتھ اب مقامی طور پر جاتی کے گٹھ بندھنوں کے ذریعے اس نے جاتی واد جماعتوں پر دباؤ بڑھاتے ہوئے اور نچلی جاتیوں، شودروں، غیر یادیو دلتوں اور دوسری پسماندہ جاتیوں (OBC) میں بھی سرایت کی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں بھارت میں تین طرح کے مکتب اور سیاسی حکمتیں چلتی رہی ہیں۔ منڈل کمیشن (اگست 1990) کے نفاذ سے نچلی جاتیوں کو نوکریوں اور داخلوں میں 50 فیصد کوٹا دیے جانے کے بعد نچلی جاتی کی جماعتوں نے بھاجپا کے پھیلاؤ پر بڑی روک لگائی تھی، لیکن وہ اب اپنا اثر کھورہی ہیں۔ دوسرا بڑا رجحان بابری مسجد کے انہدام (6 دسمبر 1992) کے بعد رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے گرد بلڈ ہوا اور تیسرا رجحان مرکز گریز علاقائی قوم پرست جماعتوں کا ہے، جنہوں نے بھاجپا کے پھیلاؤ کو روکے رکھا ہے۔ اس اثنا میں کانگریس بطور ایک سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے 1991 کے بعد سے سنٹررائٹ کی طرف پھسل گئی ہے۔ اس وقت دو محاذ آمنے سامنے ہیں، بی جے پی کی سربراہی میں این ڈی اے اور کانگریس کے ساتھ 25 جماعتوں کا انڈیا محاذ۔ لیکن اس محاذ کی بڑی پارٹیاں جیسے مغربی بنگال کی ترانمول کانگریس اور تامل ناڈو میں ڈی ایم کے اپنی اپنی راجدھانیوں میں حصہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ انتخابی شماریات کے ماہرین کے خیال میں لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 260 پر بی جے پی کو سبقت حاصل ہوسکتی ہے، 243 نشستوں پہ علاقائی پارٹیوں اور کانگریس سے سخت مقابلہ ہے اور 100 نشستوں پہ یہ غیر موثر ہے۔
بھارت کی جمہوریت کو اب غیر آزاد خیال جمہوریت، مذہبی جمہوریت اور ہندوتوائی فسطائیت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی پرچی جمہوریت ہے جس میں تقریباً ایک ارب لوگ ووٹرز ہیں۔ حال ہی میں الپا شاہ کی کتاب B.K16 اور بھارت میں جمہوریت کی تلاش اور تین مدیروں کی کتاب اکثریتی ریاست اور ہندو قوم پرستی کیسے انڈیا کو بدل رہی ہے میں بھارت کو ہندو فسطائی ریاست ، نسلیاتی جمہوریت یا غیر لبرل جمہوریت کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ بھارت کے ہندوراشٹرا میں بدلنے کا بڑا خطرہ ہے۔ اسے کم کرنےکیلئے پاک بھارت دشمنی کا بہانہ ختم کرنا ہوگا اور خود بھارت کے جمہوریت پسندوں اور ترقی پسند قوتوں کو بھاجپا کو لگام دینا ہوگی۔ لیکن یہ امکان نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان سے معاملات تیسری بار منتخب ہونے والے وزیراعظم مودی ہی طے کرسکتے ہیں۔ ان انتخابات میں مودی نے پاکستان مخالف مہم کی بجائے ’’ہمسائے سے تعلقات پہلے‘‘ کا عندیہ دیا ہے جبکہ پاکستان میں بھی اب ہمسایوں سے تعلقات بہتر کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ کاش اسوقت نواز شریف وزیراعظم ہوتے تو بات آگے بڑھ سکتی تھی۔