برادر اسلامی ملک ایران اور پاکستان صرف مذہبی و ثقافتی بنیادوں پر ہی ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ ان دونوں ممالک میں ایک اور چیز یعنی شاعرِ مشرق ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال سے عقیدت مندی بھی مشترکہ ہے۔
ڈاکٹر علامہ اقبال بلاشبہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان گہرے اور تاریخی تعلقات کا مشترکہ باب ہیں۔
پاکستانی قومی شاعر کو ایران میں بھی قومی شاعر کا درجہ دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے زیادہ تر کلام اپنی مادری زبان اردو کی بجائے فارسی زبان میں ہیں، یہاں تک کہ پاکستان کا قومی ترانہ بھی فارسی زبان میں ہے۔
علامہ محمد اقبال مفکر پاکستان ہونے کے ساتھ ساتھ ایرانیوں کی اسلامی فکر کی تعمیر نو کے رہنما بھی ہیں۔
ایرانی انقلاب کے بیشتر رہنما علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے مداح رہے اور ان کی فکر سے رہنمائی حاصل کی۔
ایرانی صدر نے لاہور آمد پر علامہ اقبال کے مزار پر حاضری دی، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کی شخصیت ہمارے لیے بہت اہم ہے، علامہ اقبال نے پیغام دیا کہ کیسے استعمار کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔
تہران میں ہونے والی پہلی انٹر نیشنل اقبال کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے علامہ اقبال کا ذکر کچھ یوں کیا کہ ’اقبال کی مادری زبان فارسی نہیں تھی مگر انہوں نے اعلیٰ پایہ کی فارسی میں کلام کہا جو روزمرہ کی زبان نہیں تھی۔ ادبی طبقے کی زبان تھی۔ اقبال کی فارسی شاعری کو اہل ایران نے نہایت پسند کیا ہے اور اس کی بے حد پذیرائی کی ہے۔ اقبال کے نظریات کی ترویج کے لیے ان پر تحقیق کو فروغ دینا ہوگا اور ان کے نام پر ادارے بنانا ہوں گے‘۔
رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے علامہ اقبال پر کتاب بھی تحریر کی ہے، وہ اقبال کو مرشد قرار دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس پاکستان کے دورے پر آنے والے ایرانی قونصل جنرل مہران موحدفر نے ایک موقع پر کہا تھا کہ شاعرِ مشرق کو ایران میں قابل قدر شخصیت کا درجہ حاصل ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے انہیں ’مشرق کا بلند ستارہ‘ کا نام دیا ہے۔
صرف ایران ہی نہیں بلکہ خود ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال کو بھی ایران اور اس کی ثقافت سے خاص انسیت تھی یہ ہی وجہ ہے انہوں نے کشمیر کو چھوٹا ایران بھی کہا اور اپنی شاعری میں ہر خوبصورت شے کو ایران سے تشبیہ دی۔
علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی ایرانی تہذیب و فلسفے پرمشتمل ہے۔
اقبال نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا کہ یونان کو فتح کرنے سے روم کو جو نعمتیں ملی ہیں، اسی طرح ایران کی فتح سے مسلمان بھی مالا مال ہو گئے۔ مطلب یہ کہ ایرانی تہذیب اتنی ترقی یافتہ ہے کہ اس کی فتح سے مسلم تہذیب کو ان گنت فائدے پہنچے۔
علامہ اقبال نے اپنے فارسی مجموعہ کلام زبور عجم میں مستقبل کے منظر نامے کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے انقلاب ایران سے بہت عرصہ پہلے ہی آیت اللہ خمینی کی آمد کی پیشگوئی کر دی تھی۔ دانائے راز کی پیش گوئی بالآخر سچ ثابت ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال اپنے زمانے سے آگے کے آدمی تھے۔
ایران میں بیشتر سڑکوں، کتب خانوں، جامعات اور اداروں کے نام اقبال کے نام پر ہیں۔ ان کا کلام انقلاب ایران کے بڑے شہروں کی دیواروں پر خوبصورت خطاطی میں آویزاں ہے۔
بلاشبہ اقبال کی عقیدت کی شمع آنے والی نسلوں کے دلوں میں فروزاں رہے گی۔