سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے گجر، اورنگی ٹاؤن اور محمود آباد نالے کے متاثرین کو 1 ماہ میں الاٹمنٹ دینے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں گجر، اورنگی ٹاؤن اور محمود آباد نالہ متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے کی۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ اب تک کیا عمل درآمد ہوا ہے؟ اگر نالے کے مزید متاثرین ہیں تو ایک ماہ میں اے ڈی سی ٹو ساؤتھ سے رجوع کریں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ متاثرین کو 80 گز کا پلاٹ اور کنسٹرکشن کی رقم دے رہے ہیں، کنسٹرکشن کی رقم کا تخمینہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے لگوایا جا رہا ہے۔
عدالت نے کہا کہ سندھ حکومت اس سے متعلق تمام معاملات خود حل کر کے رپورٹ پیش کرے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ حکومتِ سندھ نے 6 ہزار 9 سو 32 خاندانوں کو 80 گز کا پلاٹ ملیر میں دیا ہے، ان گھروں کی تعمیرات کے لیے 10 لاکھ روپے کے اخراجات بھی حکومتِ سندھ نے مقرر کیے تھے۔
عدالت نے سوال کیا کہ جو نالوں سے گھر ہٹائے وہ قانونی تھے یا غیر قانونی؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ حکومت کا پیسہ نہیں، سندھ کے لوگوں کا پیسہ ہے، اس کا غلط استعمال نہیں کر سکتے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ متاثرین پیسے زیادہ مانگ رہے تھے، متاثرین کی تجویز پر معاملہ انجینئرنگ کونسل کو بھیجا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ جو لوگ پلاٹ لینا چاہتے ہیں ان کو الاٹ کریں، جو انجینئرنگ کونسل کا انتظار کرنا چاہتے ہیں وہ انتظار کریں۔
اس موقع پر عدالت میں دو مزید متاثرین کی جانب سے معاوضہ نہ ملنے کی شکایت کی گئی۔
سپریم کورٹ نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کو معاوضہ کیوں نہیں ملا؟
متاثرین کے وکلاء نے بتایا کہ ہماری بات نہیں سنی جا رہی۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کمشنر کراچی فوکل پرسن ہیں، شکایت ہے تو ان سے رجوع کریں، کمشنر دستاویزات کی روشنی میں فیصلہ کریں گے کہ متاثر ہیں یا نہیں۔
عدالت نے کمشنر کراچی کو متاثرین کی شکایات کا جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی متاثر رہ گیا ہے تو اس کی شکایت سنی جائے، کسی کا حق بنتا ہے تو اسے معاوضہ دیا جائے، اگر کوئی الاٹمنٹ نہیں لے رہا اسے الگ کریں۔